Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

دیباچہ
مقدمہ
باب اول:
دین و سیاست
۱۔مذہب کا اسلامی تصور
۲۔ اسلامی ریاست کیوں؟
۳۔ اسلام اور اقتدار
۴۔ دین و سیاست کی تفریق کا باطل نظریہ اورقصۂ یوسف ؑ سے غلط استدلال
۵۔ تفریق دین و سیاست کا دفاع اور اس کا جائزہ
باب ٢
اسلام کا سیاسی نظریہ
۱۔بنیادی مُقدّمات
۲۔ نظریۂ سیاسی کے اوّلین اصول
۳۔ اسلامی ریاست کی نوعیت
۴۔ اسلامی ریاست کی خصوصیات
۵۔ نظریۂ خلافت اور اس کے سیاسی مضمرات
باب۳ قرآن کا فلسفہ ٔ سیاست
۱۔علم سیاست کے بنیادی سوال
۲۔ چند بنیادی حقیقتیں
۳۔اسلامی تصورِ حیات
۴۔ دین اور قانونِ حق
۵۔حکومت کی ضرورت اور اہمیت
۶۔ تصور حاکمیت و خلافت
۷۔ اصول اطاعت ووفاداری
باب ۴
معنی ٔ خلافت
باب ۵
۱۔اسلامی تصور قومیت
۲۔ اسلامی قومیت کا حقیقی مفہوم
باب۶
اسلام کے دستوری قانون کے مآخذ
ا۔قرآن مجید
۲۔ سنتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۸۴؎
۳۔خلافتِ راشدہ کا تعامل
۴۔ مجتہدینِ امت کے فیصلے
ضمیمہ باب ۶: سنت ِرسولؐ اللہ بحیثیت ِ مآ خذ ِقانون
باب۷
اسلامی ریاست کی بنیادیں
۱۔حاکمیت کس کی ہے؟
۲۔ ریاست کے حدودِ عمل
۳۔ اعضائے ریاست کے حدودِ عمل اور ان کا باہمی تعلق
۴۔ ریاست کا مقصدِ وجود
۵۔حکومت کی تشکیل کیسے ہو؟
۶۔اولی الامر کے اوصاف
۷۔ شہریت اور اس کی بنیادیں
۸۔ حقوقِ شہریت
۹۔شہریوں پر حکومت کے حقوق
باب ۸
اسلامی دستور کی بنیادیں
۱۔حاکمیت الٰہی
۲۔ مقامِ رسالت
۳۔ تصورِ خلافت
۴۔ اصولِ مشاورت
۵۔اصولِ انتخاب
۶۔عورتوں کے مناصب
۷۔ حکومت کا مقصد
۸۔ اولی الامر اور اصولِ اطاعت
۹۔ بنیادی حقوق اور اجتماعی عدل
۱۰۔فلاحِ عامہ
باب ۹
۱۔ دورِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم
۲۔ خلافتِ راشدہ
باب ۱۰
۱۔ اسلام میں قانون سازی کا دائرۂ عمل اور اس میں اجتہاد کا مقام
۲۔قانون سازی‘ شوریٰ اور اجماع
۳۔نظام اسلامی میں نزاعی امور کے فیصلے کا صحیح طریقہ
باب۱۱
۱۔ اسلامی ریاست کے چند پہلو
۲۔خلافت و حاکمیت۲۰۳؎
۳۔ ملکی سیاست میں عورتوں کا حصہ
۴۔ذمیوں کے حقوق۲۱۱؎
(۵) ذمیوں کے حقوق۲۱۶؎
۶۔چند متفرق مسائل
باب ۱۲
انسان کے بنیادی حقوق
باب۱۳
غیر مسلموں کے حقوق
باب۱۴
اسلام اور عدلِ اجتماعی
باب ۱۵
اسلامی ریاست کے رہنما اُصول
باب۱۶
۱۔اسلامی انقلاب کی راہ
ضمیمہ نمبر ۱
ضمیمہ نمبر ۲

اسلامی ریاست

اسلام ایک کامل دین اور مکمل دستور حیات ہے اسلام جہاں انفرادی زندگی میں فردکی اصلاح پر زور دیتا ہے وہیں اجتماعی زندگی کے زرین اُصول وضع کرتا ہے جوزندگی کے تمام شعبوں میں انسانیت کی راہ نمائی کرتا ہے اسلام کا نظامِ سیاست وحکمرانی موجودہ جمہوری نظام سے مختلف اوراس کے نقائص ومفاسد سے بالکلیہ پاک ہے۔ اسلامی نظامِ حیات میں جہاں عبادت کی اہمیت ہے وہیں معاملات ومعاشرت اور اخلاقیات کو بھی اولین درجہ حاصل ہے۔ اسلام کا جس طرح اپنا نظامِ معیشت ہے اور اپنے اقتصادی اصول ہیں اسی طرح اسلام کا اپنا نظامِ سیاست وحکومت ہےاسلامی نظام میں ریاست اور دین مذہب اور سلطنت دونوں ساتھ ساتھ چلتے ہیں، دونوں ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں دونوں ایک دوسرے کے مددگار ہیں، دونوں کے تقاضے ایک دوسرے سے پورے ہوتے ہیں، چنانچہ ماوردی کہتے ہیں کہ جب دین کمزور پڑتا ہے تو حکومت بھی کمزور پڑ جاتی ہے اورجب دین کی پشت پناہ حکومت ختم ہوتی ہے تو دین بھی کمزور پڑ جاتا ہے، اس کے نشانات مٹنے لگتے ہیں۔ اسلام نے اپنی پوری تاریخ میں ریاست کی اہمیت کوکبھی بھی نظر انداز نہیں کیا۔انبیاء کرامؑ وقت کی اجتماعی قوت کواسلام کےتابع کرنے کی جدوجہد کرتے رہے۔ ان کی دعوت کا مرکزی تخیل ہی یہ تھا کہ اقتدار صرف اللہ تعالیٰ کےلیے خالص ہو جائے اور شرک اپنی ہر جلی اور خفی شکل میں ختم کردیا جائے ۔قرآن کےمطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یوسف ،حضرت موسی، حضرت داؤد، اور نبی کریم ﷺ نے باقاعدہ اسلامی ریاست قائم بھی کی اور اسے معیاری شکل میں چلایا بھی۔اسلامی فکر میں دین اورسیاست کی دوری کاکوئی تصور نہیں پایا جاتا اور کا اسی کانتیجہ ہے کہ مسلمان ہمیشہ اپنی ریاست کواسلامی اصولوں پر قائم کرنے کی جدوجہد کرتے رہے۔ یہ جدوجہد ان کے دین وایمان کاتقاضا ہے۔قرآن پاک اور احادیث نبویہ میں جس طرح اخلاق اور حسنِ کردار کی تعلیمات موجود ہیں۔اسی طرح معاشرت،تمدن اور سیاست کے بارے میں واضح احکامات بھی موجود ہیں۔ زیر نظر کتاب’’اسلامی ریاست‘‘مفکرِ اسلام مولا نا سید ابو الاعلیٰ مودودی کی کی تصنیف ہے ۔جس میں انھوں نے بیک وقت ان دونوں ضرورتوں کو پورا کرنے کی کما حقہ کوشش کی ہے ۔ ایک طرف انھوں نے اسلام کےپورے نظام حیات کودینی اور عقلی دلائل کےساتھ اسلام کی اصل تعلیمات کودورحاضر کی زبان میں پیش کیاہے ۔ ان کی تحریرات کےمطالعہ سے قاری کوزندگی کے بارے میں اسلام کے نقظہ نظر کا کلی علم حاصل ہوتا ہے اوروہ پوری تصویر کو بیک نظر دیکھ سکتا ہے۔انھوں نےہر مرعوبیت سے بالا تر ہوکر دورحاضرکے ہر فتنہ کا مقابلہ کیا اور اسلام کے نظام زندگی کی برتری اورفوقیت کوثابت کیا ہے۔پھر یہ بھی بتایا ہےکہ اس نظام کودور حاضر میں کیسے قائم کیا جاسکتا ہے اور آج کے اداروں کوکس طرح اسلام کے سانچوں میں ڈھالا جاسکتاہے ۔انھوں نے اسلامی ریاست کے ہمہ پہلوؤں کی وضاحت کرتے ہوئےدور جدید کے تقاضوں کوسامنے رکھ کر اسلامی ریاست کا مکمل نقشہ پیش کیاہے ۔کتاب ہذا دراصل مولانامودودی کے منتشر رسائل ومضامین کامجموعہ ہے جسے پروفیسر خورشید احمد صاحب (مدیر ماہنامہ ترجمان القرآن)نے بڑے حسن ترتیب سے مرتب کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ مصنف ومرتب کی اشاعتِ اسلام کےلیے کی جانے والی تمام کاوشوں کو قبول فرماے۔آمین

انسان کے بنیادی حقوق

جہاں تک ہم مسلمانوں کا تعلق ہے‘ انسان کے بنیادی حقوق کا تصور ہمارے لیے کوئی نیا تصور نہیں ہے۔ ہوسکتا ہے کہ دوسرے لوگوں کی نگاہ میں ان حقوق کی تاریخ یو‘ این‘ او کے چارٹر سے شروع ہوتی ہو، یا انگلستان کے میگنا کارٹا (magna carta)سے اس کا آغاز ہوا ہو، لیکن ہمارے لیے اس تصور کا آغاز بہت پہلے سے ہے۔ اس موقع پر میں انسان کے بنیادی حقوق پر روشنی ڈالنے سے پہلے مختصر طور پر یہ عرض کر دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ انسانی حقوق کے تصور کا آغاز کیوں کر ہوا ہے۔
بنیادی حقوق کا سوال کیوں؟
درحقیقت یہ کچھ عجیب سی بات ہے کہ دنیا میں ایک انسان ہی ایسا ہے جس کے بارے میں خود انسانوں ہی کے درمیان بار بار یہ سوال پیدا ہوتا رہا ہے کہ اس کے بنیادی حقوق کیا ہیں۔ انسان کے سوا دوسری مخلوقات جو اس کائنات میں بس رہی ہیں‘ ان کے حقوق خود فطرت نے دیے ہیں اور آپ سے آپ انھیں مل رہے ہیں‘ بغیر اس کے کہ وہ اس کے لیے سوچ بچار کریں، لیکن صرف انسان وہ مخلوق ہے جس کے بارے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس کے حقوق کیا ہیں اور اس کی ضرورت پیش آتی ہے کہ اس کے حقوق متعیّن کیے جائیں۔
اتنی ہی عجیب بات یہ بھی ہے کہ اس کائنات کی کوئی جنس ایسی نہیں ہے جو اپنی جنس کے افراد سے وہ معاملہ کر رہی ہو جو انسان اپنے ہم جنس افراد سے کر رہا ہے، بلکہ ہم تو دیکھتے ہیں کہ حیوانات کی کوئی نوع ایسی نہیں جو کسی دوسری نوع کے حیوانات پر بھی محض لطف و لذت کے لیے، یا ان پر حکمران بننے کے لیے حملہ آور ہوتی ہو۔
قانونِ فطرت نے ایک حیوان کو دوسرے حیوان کے لیے اگر غذا بنایا ہے تو وہ صرف غذا کی حد تک ہی اس پر دست درازی کرتا ہے۔ کوئی درندہ ایسا نہیں ہے جو غذائی ضرورت کے بغیر اس ضرورت کے پورا ہو جانے کے بعد بلاوجہ جانوروں کو مارتا چلا جاتا ہو۔ خود اپنے ہم جنسوں کے ساتھ نوعِ حیوانی کا وہ سلوک نہیں ہے جو انسان کا اپنے افراد کے ساتھ ہے۔ یہ غالباً اس فضل و شرف کا نتیجہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے انسان کو عطا کیا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ ذہانت اور قوتِ ایجاد کا کرشمہ ہے کہ انسان نے دنیا میں یہ غیر معمولی روش اختیار کر رکھی ہے۔
شیروں نے آج تک کوئی فوج تیار نہیں کی۔ کسی کتے نے آج تک دوسرے کتوں کو غلام نہیں بنایا۔ کسی مینڈک نے دوسرے مینڈکوں کی زبان بندی نہ کی۔ یہ انسان ہی ہے جس نے اللہ تعالیٰ کی ہدایات سے بے نیاز ہو کرجب اس کی دی ہوئی قوتوں سے کام لینا شروع کیا تو اپنی ہی جنس پر ظلم ڈھانے شروع کر دیے۔ جب سے انسان زمین پر موجود ہے اس وقت سے آج تک تمام حیوانات نے اتنے انسانوں کی جان نہیں لی ہے جتنی انسانوں نے صرف دوسری جنگ عظیم میں انسانوں کی جان لی ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ انسان کو فی الواقع دوسرے انسانوں کے بنیادی حقوق کی کوئی تمیز نہیں ہے۔ صرف اللہ ہی ہے جس نے انسان کی رہنمائی اس باب میں کی ہے اور اپنے پیغمبروںؑ کی وساطت سے انسانی حقوق کی واقفیت بہم پہنچائی ہے۔ درحقیقت انسانی حقوق متعین کرنے والا انسان کا خالق ہی ہوسکتا ہے۔ چنانچہ اس خالق نے انسان کے حقوق نہایت تفصیل سے بتائے ہیں۔
دورِ حاضر میں انسانی حقوق کے شعور کا ارتقا
مناسب معلوم ہوتا ہے کہ حقوق انسانی کے اسلامی منشور کے نکات پر گفتگو کرنے سے قبل دور حاضر میں انسانی حقوق کے شعور کی ارتقائی تاریخ پر اجمالی نظر ڈال لی جائے:
۱۔ انگلستان میں کنگ جان نے ۱۲۱۵ء میں جو میگنا کارٹا جاری کیا تھا‘ وہ دراصل اس کے امرا (barons) کے دبائو کا نتیجہ تھا۔ اس کی حیثیت بادشاہ اور امرا کے درمیان ایک قرارداد کی سی تھی اور زیادہ تر امرا ہی کے مفاد میں وہ مرتب کیا گیا تھا۔ عوام الناس کے حقوق کا اس میں کوئی سوال نہ تھا۔ بعد کے لوگوں نے اس کے اندر وہ معنی پڑھے جو اس کے اصل لکھنے والوں کے سامنے بیان ہوتے تو وہ حیران رہ جاتے۔ سترہویں صدی کے قانون پیشہ لوگوں نے اس میں یہ پڑھا کہ تحقیق جرم روبروئے مجلس قضا (trial by jury)حبس بیجا کے خلاف داد رسی (rights of habeas corpus)اور ٹیکس لگانے کے اختیارات پر کنٹرول کے حقوق انگلینڈ کے باشندوں کو اس میں دیے گئے ہیں۔
۲۔ ٹام پین (tom paine) ۱۷۳۷ئ تا ۱۸۰۹ء کے پمفلٹ ’حقوق انسانی‘ (rights of man)نے اہلِ مغرب کے خیالات پر بہت بڑا انقلابی اثر ڈالا اور اسی کے پمفلٹ (۱۷۹۱ء) نے مغربی ممالک میں حقوق انسانی کے تصور کی عام اشاعت کی۔ یہ شخص الہامی مذہب کا قائل نہ تھا اور ویسے بھی وہ دور الہامی مذہب سے بغاوت کا دور تھا، اس لیے مغربی عوام نے یہ سمجھا کہ الہامی مذہب حقوق انسانی کے تصور سے خالی ہے۔
۳۔ انقلاب فرانس کی داستان کا اہم ترین ورق ’منشور حقوق انسانی‘ (declaration of the rights of man) ہے، جو ۱۷۸۹ء میں نمودار ہوا۔ یہ اٹھارہویں صدی کے اجتماعی فلسفے اور خصوصاً روسو (۱۷۱۲ء۔ ۱۷۷۸ء)کے نظریے معاہدۂ عمرانی (social contract theory)کا ثمرہ تھا۔ اس میں قوم کی حاکمیت‘ آزادی‘ مساوات اور ملکیت کے فطری حقوق کا اِثبات کیا گیا تھا۔ اس میں ووٹ کے حق‘ قانون سازی اور ٹیکس عائد کرنے کے اختیارات پر رائے عام کے کنٹرول‘ تحقیق جرم روبروئے مجلس قضا (trial by Jury) وغیرہ کا اثبات کیا گیا۔۲۲۱؎
اس منشور حقوق انسانی کو فرانس کی دستور ساز اسمبلی نے انقلاب فرانس کے عہد میں اس غرض کے لیے مرتب کیا تھا کہ جب دستور بنایا جائے تو اس وقت اسے اس کے آغاز میں درج کیا جائے اور دستور میں اس کی سپرٹ کو ملحوظ رکھا جائے۔
(۴) امریکہ (U.S.A)کی دس ترامیم میں بڑی حد تک وہ تمام حقوق گنوائے گئے ہیں جو برطانوی فلسفۂ جمہوریت پر مبنی ہوسکتے تھے۔
(۵) انسانی حقوق و فرائض کا وہ منشور بھی بڑی اہمیت رکھتا ہے جسے بگوٹا کانفرنس میں امریکی ریاستوں نے ۱۹۴۸ء میں منظور کیا۔
(۶) پھر جمہوری فلسفے کے تحت یو‘ این‘ او نے تدریجًا بہت سے مثبت اور بہت سے تحفظاتی حقوق کے متعلق قراردادیں پاس کیں اور بالآخر’عالمی منشور حقوق انسانی‘ منظر عام پر آیا۔
دسمبر ۱۹۴۶ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک ریزولیشن پاس کیا جس میں انسانوں کی نسل کشی (genocide) کو بین الاقوامی قانون کے خلاف ایک جرم قرار دیا گیا۔پھر دسمبر ۱۹۴۸ء میں نسل کشی کے انسداد اور سزا دہی کے لیے ایک قرار داد پاس کی گئی اور ۱۲ /جنوری ۱۹۵۱ء کو اس کا نفاذ ہوا۔ اس میں نسل کشی کی تعریف کرتے ہوئے کہا گیا کہ حسب ذیل افعال میں سے کوئی فعل اس غرض سے کرنا کہ کسی قومی‘ نسلی یا اخلاقی (ethical)گروہ (group)یا اس کے ایک حصے کو فنا کر دیا جائے:
۱۔ ایسے کسی گروہ کے افراد کو قتل کرنا۔
۲۔ ان کو شدید نوعیت کا جسمانی یا ذہنی ضرر پہنچانا۔
۳۔ اس گروہ پر بالار ادہ زندگی کے ایسے احوال کو مسلط کرنا جو اس کی جسمانی بقا کے لیے کُلاًّ یا جزء ً ا تباہ کن ہوں۔
۴۔ اس گروہ میں سلسلۂ تولید کو روکنے کے لیے جبری اقدامات کرنا۔
۵۔ جبری طور پر اس گروہ کی اولادوں کو کسی دوسرے گروہ کی طرف منتقل کرنا۔
۱۰ /دسمبر ۱۹۴۸ء کو جو ’عالمی منشور حقوق انسانی‘ پاس کیا گیا تھا‘ اس کے دیباچے میں من جملہ دوسرے عزائم کے ایک یہ بھی ظاہر کیا گیا ہے کہ:
بنیادی انسانی حقوق میں‘ فرد انسانی کی عزت و اہمیت میں مردوں اور عورتوں کے مساویانہ حقوق میں اعتقاد کو موثق بنانے کے لیے۔
نیز اس میں اقوام متحدہ کے مقاصد میں سے ایک یہ بھی بیان کیا گیا تھا کہ:
انسانی حقوق کا احترام قائم کرنے اور نسل و صنف یا زبان و مذہب کا امتیاز کئے بغیر تمام انسانوں کو بنیادی آزادیاں دلوانے کے کام میں بین الاقوامی تعاون کا حصول۔
اسی طرح دفعہ ۵۵ میں اقوامِ متحدہ کا یہ منشور کہتا ہے:
مجلس اقوام متحدہ انسانی حقوق اور سب کے لیے اساسی آزادیوں کے عالم گیر احترام اور ان کی نگہداشت میں اضافہ کرے گی۔
اس پورے منشور کے کسی جز سے کوئی اختلاف کسی بھی قوم کے نمائندوں نے نہیں کیا۔ اختلاف نہ کرنے کی وجہ یہ تھی کہ یہ صرف عام اصولوں کا اعلان و اظہار تھا، کسی نوعیت کی پابندی کسی پر بھی عائد نہ ہوتی تھی۔ یہ کوئی معاہدہ نہیں ہے جس کی بنا پر دستخط کرنے والی تمام حکومتیں اس کی پابندی پر مجبور ہوں اور بین الاقوامی قانون کے مطابق ان پر قانونی وجوب عائد ہوتا ہو۔ اس میں واضح طور پر یہ بتا دیا گیا ہے کہ یہ ایک معیار ہے جس تک پہنچنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ پھر بھی بعض ملکوں نے اس کے حق میں یا اس کے خلاف ووٹ دینے سے اجتناب کیا۔۲۲۲؎
اب دیکھ لیجیے کہ اس منشور کے عین سائے میں انسانیت کے بالکل ابتدائی حقوق کا قتل عام دنیا میں ہو رہا ہے اور خود مہذب ترین اور سرکردہ ممالک کے اپنے ہاں ہو رہا ہے جو اسے پاس کرنے والے تھے۔۲۲۳؎
اس مختصر بیان سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اول تو مغربی دنیا میں انسانی حقوق کا تصور ہی دو تین صدیوں سے پہلے اپنی کوئی تاریخ نہیں رکھتا۔ دوسرے اگر آج ان حقوق کا ذکر کیا بھی جارہا ہے تو ان کے پیچھے کوئی سند (authority)اور کوئی قوتِ نافذہ (sanction)نہیں ہے‘ بلکہ یہ صرف خوش نما خواہشات ہیں۔ اس کے مقابلے میں اسلام نے حقوق انسانی کا جو منشور قرآن میں دیا اور جس کا خلاصہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر نشر فرمایا وہ اس سے قدیم تر بھی ہے اور ملت اسلام کے لیے اعتقاد‘ اخلاق اور مذہب کی حیثیت سے واجب الاتباع بھی۔ پھر ان حقوق کو عملاً قائم کرنے کی بے مثل نظیریں بھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین نے چھوڑی ہیں۔
اب میں ان حقوق کا مختصر تذکرہ کرتا ہوں جو اسلام نے انسان کودیے ہیں۔
حرمتِ جان یا جینے کا حق
قرآن مجید میں دنیا کے سب سے پہلے واقعۂ قتل کا ذکر کیا گیا ہے۔ یہ انسانی تاریخ کا اوّلین سانحہ تھا جس میں ایک انسان نے دوسرے انسان کی جان لی۔ اس وقت پہلی مرتبہ یہ ضرورت پیش آئی کہ انسان کو انسانی جان کا احترام سکھایا جائے اور اسے بتایا جائے کہ ہر انسان جینے کا حق رکھتا ہے۔ اس واقعے کا ذکر کرنے کے بعد قرآن کہتا ہے:
مَنْ قَتَلَ نَفْسًۢا بِغَيْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِي الْاَرْضِ فَكَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيْعًا۝۰ۭ وَمَنْ اَحْيَاہَا فَكَاَنَّمَآ اَحْيَا النَّاسَ جَمِيْعًا۝۰ۭ المائدہ32:5
جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے‘ یا زمین میں فساد پھیلانے کے سوا کسی اور وجہ سے قتل کیا اُس نے گویا تمام انسانوں کوقتل کر دیا اور جس نے کسی کی جان بچائی اُس نے گویا تمام انسانوں کو زندگی بخش دی۔
اس آیت میں قرآن کریم نے ایک انسان کے قتل کو پوری انسانی دنیا کا قتل بتایا ہے، اور اس کے مقابلے میں ایک انسان کی جان بچانے کو پوری انسانیت کی جان بچانے کے مترادف ٹھیرایا ہے۔ احیا کے معنی ہیں: زندہ کرنا۔ دوسرے الفاظ میں اگر کسی شخص نے انسانی زندگی کو بچانے کے لیے کوشش کی اس نے انسان کو زندہ کرنے کاکام کیا۔ یہ کوشش اتنی بڑی نیکی ہے کہ اسے ساری انسانیت کے زندہ کرنے کے برابر ٹھیرایا گیا ہے۔ اس اصول سے صرف دو حالتیں مستثنیٰ ہیں:
٭ ایک یہ کہ کوئی شخص قتل کا مرتکب ہو اور اسے قصاص کے طور پر قتل کیا جائے۔
٭ دوسری یہ کہ کوئی شخص زمین میں فساد برپا کرے تو اسے قتل کیا جائے۔
ان دو حالتوں کے ماسوا انسانی جان کو ضائع نہیں کیا جاسکتا۔۲۲۴؎
انسانی جان کے تحفظ کا یہ اصول اللہ تعالیٰ نے تاریخ انسانی کے ابتدائی دور میں واضح کر دیا تھا۔ انسان کے بارے میں یہ خیال کرنا غلط ہے کہ وہ تاریکی میں پیدا ہوا ہے اور اپنے ہم جنسوں کو قتل کرتے کرتے کسی مرحلے پر اس نے یہ سوچا کہ انسان کو قتل نہیں کرنا چاہیے۔ یہ خیال سراسر غلط ہے اور اللہ تعالیٰ کے بارے میں بدگمانی پر مبنی ہے۔ قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے شروع سے انسان کی رہنمائی کی ہے اور اس رہنمائی میں یہ چیز بھی شامل ہے کہ اس نے انسان کو انسان کے حقوق سے آشنا کیا۔
معذوروں اور کمزوروں کا تحفظ
دوسری بات جو قرآن سے معلوم ہوتی ہے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات سے واضح ہے‘ یہ ہے کہ عورت‘ بچے‘ بوڑھے‘ زخمی اور بیمار کے اوپر کسی حال میں بھی دست اندازی جائز نہیں ہے ____ خواہ وہ اپنی قوم سے تعلق رکھتے ہوں یا دشمن قوم سے ____ اِلاّیہ کہ جنگ کی صورت میں یہ افراد خود بر سر پیکار ہوں، ورنہ دوسری ہر صورت میں ان پر دست اندازی کی ممانعت ہے۔ یہ اصول اپنی قوم کے لیے خاص نہیں ہے، بلکہ پوری انسانیت کے ساتھ یہی اصول برتا جائے گا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس معاملے میں بڑی واضح ہدایات دی ہیں۔ خلفائے راشدینؓ کا یہ حال تھا کہ وہ جب دشمنوں سے مقابلے کے لیے فوجیں روانہ کرتے تھے تو وہ فوج کو یہ صاف ہدایات دیتے تھے کہ دشمن پر حملے کی صورت میں کسی عورت‘ بچے‘ بوڑھے‘ زخمی اور بیمار پر ہاتھ نہ ڈالا جائے۔
تحفظِ ناموسِ خواتین
ایک اور اصولی حق جو ہمیں قرآن سے معلوم ہوتا ہے اور حدیث میں بھی اس کی تفصیلات موجود ہیں‘ یہ ہے کہ عورت کی عصمت ہرحال میں واجب الاحترام ہے‘ یعنی جنگ کے اندر دشمنوں کی عورتوں سے بھی اگر سابقہ پیش آئے تو کسی مسلمان سپاہی کے لیے جائز نہیں کہ وہ ان پر ہاتھ ڈالے۔ قرآن کی رُو سے بدکاری مطلقاً حرام ہے، خواہ وہ کسی عورت سے کی جائے‘ قطع نظر اس سے کہ وہ عورت مسلمان ہو یا غیر مسلم‘ اپنی قوم کی ہو یا غیر قوم کی‘ دوست ملک کی ہو یا دشمن ملک کی۔
معاشی تحفظ
ایک بنیادی اصول یہ ہے کہ بھوکا آدمی ہر حالت میں اس کا مستحق ہے کہ اسے روٹی دی جائے۔ ننگا ہر حالت میں اس کا مستحق ہے کہ اسے کپڑا دیا جائے۔ زخمی اور بیمار آدمی ہر حالت میں اس کا مستحق ہے کہ اسے علاج کی سہولت فراہم کی جائے‘ قطع نظر اس سے کہ وہ بھوکا‘ ننگا یا زخمی یا مریض شخص دشمن ہو یا دوست۔ یہ عمومی (universal)حقوق میں سے ہے۔ دشمن کے ساتھ بھی ہم یہی سلوک کریں گے۔ اگر دشمن قوم کا کوئی فرد ہمارے پاس آجائے گا تو ہمارا فرض ہوگا کہ اسے بھوکا ننگا نہ رہنے دیں اور زخمی یا بیمار ہو تو اس کا علاج کرائیں۔۲۲۵؎
عدل و انصاف
قرآن کریم کا یہ اٹل اصول ہے کہ انسان کے ساتھ عدل و انصاف کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَـنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓي اَلَّا تَعْدِلُوْا۝۰ۭ اِعْدِلُوْا۝۰ۣ ہُوَاَقْرَبُ لِلتَّقْوٰى۝۰ۡ المائدہ5:8
کسی گروہ کی دشمنی تمھیں اتنا مشتعل نہ کر دے کہ انصاف سے پھر جائو۔ عدل کرو، یہ خدا ترسی سے زیادہ قریب ہے۔
اس آیت میں اسلام نے یہ اصول متعین کردیا کہ انسان کے ساتھ ____ ایک فرد کے ساتھ بھی اور ایک قوم کے ساتھ بھی ____ بہرحال انصاف کو ملحوظ رکھنا پڑے گا۔ اسلام کے نزدیک یہ قطعاً درست نہیں ہے کہ دوستوں کے ساتھ تو ہم عدل و انصاف برتیں اور دشمنوں کے ساتھ اس اصول کو نظر انداز کر دیں۔
نیکی میں تعاون اور بدی میں عدمِ تعاون
ایک اور اصول جو قرآن معین کرتا ہے‘ یہ ہے کہ نیکی اور حق رسانی کے معاملے میں ہر ایک کے ساتھ تعاون کیا جائے اور برائی اور ظلم کے معاملے میں کسی کے ساتھ تعاون نہ کیا جائے۔ برائی خواہ بھائی کر رہا ہو تو بھی ہم اس کے ساتھ تعاون نہ کریں اورنیکی اگر دشمن بھی کر رہا ہو تو اس کی جانب دستِ تعاون بڑھائیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَتَعَاوَنُوْا عَلَي الْبِرِّ وَالتَّقْوٰى۝۰۠ وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَي الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ۝۰۠ المائدہ5:2
جو کام نیکی اور خدا ترسی کے ہیں‘ ان میں سب سے تعاون کرو، اور جو گناہ کے کام ہیں ان میں کسی سے تعاون نہ کرو۔
بِر کے معنی: صرف نیکی ہی نہیں‘ بلکہ عربی زبان میں یہ لفظ: حق رسانی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ یعنی دوسروں کو حقوق دلوانے میں اور تقویٰ اور پرہیزگاری میں ہم ہر ایک کی مدد کریں۔ قرآن کا یہ مستقل اور دائمی اصول ہے۔
مساوات کا حق
ایک اور اصول جسے قرآن کریم نے بڑے زور و شور کے ساتھ بیان کیا ہے وہ یہ ہے کہ تمام انسان یکساں ہیں۔ اگر کسی کو فضیلت حاصل ہے تو وہ اخلاق کے اعتبار سے ہے۔ اس معاملے میں قرآن کا ارشاد ہے:
يٰٓاَيُّہَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّاُنْثٰى وَجَعَلْنٰكُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَاۗىِٕلَ لِتَعَارَفُوْا۝۰ۭ اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللہِ اَتْقٰىكُمْ۝۰ۭ الحجرات 13:49
اے لوگو‘ ہم نے تمھیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمھیں گروہوں اور قبیلوں میں اس لیے بانٹا کہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ بے شک تم میں سے زیادہ معزز وہ ہے جو زیادہ متقی ہے۔
اس میں پہلی بات یہ بتائی گئی کہ تمام انسان ایک ہی اصل سے ہیں۔ یہ مختلف نسلیں‘ مختلف رنگ‘ مختلف زبانیں درحقیقت انسانی دنیا کے لیے کوئی معقول وجہ تقسیم نہیں ہیں۔
دوسری بات یہ بتائی کہ ہم نے قوموں کی یہ تقسیم صرف تعارف کے لیے کی ہے۔ دوسرے الفاظ میں ایک برادری‘ ایک قوم اور ایک قبیلے کو دوسرے پر کوئی فخر و فضیلت نہیں ہے کہ وہ اپنے حقوق تو بڑھا چڑھا کر رکھے اور دوسروں کے کم۔ اللہ تعالیٰ نے جتنی بھی یہ تفریقیں کی ہیں‘ شکلیں ایک دوسرے سے مختلف بنائی ہیں، یا زبانیں ایک دوسرے سے الگ رکھی ہیں‘ تو یہ سب چیزیں فخر کے لیے نہیں ہیں بلکہ صرف اس لیے ہیں کہ باہم تمیز پیدا کرسکیں۔ اگر تمام انسان یکساں ہوتے تو تمیز نہ کی جاسکتی۔ اس لحاظ سے یہ تقسیم فطری ہے، لیکن دوسروں کے حقوق مارنے اور بے جا امتیاز برتنے کے لیے نہیں ہے۔ عزت و افتخار کی بنیاد اخلاقی حالت پر ہے۔ اس بات کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دوسرے طریقے سے بیان فرمایا ہے۔ آپؐ نے فتح مکہ کے بعد جو تقریر ارشاد فرمائی‘ اس میں فرمایا:
لَا فَضْلَ لِعَرَبِّیٍ عَلٰی عَجَمِیٍّ وَلَا لِعَجَمِیٍّ عَلٰی عَرَبِیٍّ وَلَا لِاَ حْمَرَ عَلٰی اَسْوَدَ وَلَا لِاَسْوَدَ عَلٰی اَحْمَرَ اِلاَّ بِالتَّقْوٰی وَلَا فَضْلَ لِلْاَنْسَابِ۔ (بیہقی)
کسی عربی کو کسی عجمی پر کوئی فضیلت نہیں ہے اور نہ کسی عجمی کو عربی پر‘ نہ کسی گورے کو کالے پر اور نہ کالے کو گورے پر____ ماسوا تقویٰ کے ____ اور نسبی بنیادوں پر کوئی فضیلت نہیں ہے۔
یعنی فضیلت دیانت اور تقویٰ پر ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ کوئی شخص چاندی سے پیدا کیا گیا ہو اور کوئی پتھر سے اور کوئی مٹی سے، بلکہ سب انسان یکساں ہیں۔۲۲۶؎
معصیت سے اجتناب کا حق
ایک اور اصول یہ ہے کہ کسی شخص کو معصیت کا حکم نہیں دیا جاسکتا، اور نہ کسی پر یہ واجب یا اُس کے لیے یہ جائز ہے کہ اس کو اگر معصیت کا حکم دیا جائے تو وہ اطاعت کرے۔ قانونِ قرآن کی رُو سے اگر کوئی افسر اپنے ماتحت کو ناجائز کارروائیوں کا حکم دیتا ہے، یا کسی پر بے جادست درازی کا حکم دیتا ہے تو ماتحت کے لیے اس معاملے میں اپنے افسر کی اطاعت جائز نہیں ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے: لَا طَاعَۃَ لِمَخْلُوْقٍ فِیْ مَعْصِیَۃِ الْخَالِقِ (مشکوٰۃ حدیث ۳۵۲۵شرح السنۃ)۔ خالق کی نافرمانی میں کسی مخلوق کی اطاعت نہیں ہے۔
جن چیزوں کو خالق نے ناجائز ٹھیرایا ہے اور معصیت بتایا ہے کسی کو حق نہیں ہے کہ وہ ان کے ارتکاب کا کسی کو حکم دے۔ نہ حکم دینے والے کے لیے معصیت کا حکم دینا جائز ہے اور نہ کسی دوسرے شخص کے لیے ایسے حکم کی تعمیل جائز ہے۔
ظالم کی اطاعت سے انکار کا حق
اسلام کا ایک عظیم الشان اصول یہ ہے کہ کسی ظالم کو اطاعت کا حق نہیں ہے۔ قرآن کریم میں یہ بتایا گیا ہے‘ کہ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو امام مقرر کیا اور فرمایا کہ اِنّیِ جَاعِلُکَ لِنَّاسِ اِمَامًا تو حضرت ابراہیم ؑ نے اللہ سے سوال کیا کہ وَمِنْ ذُ رِّیَّتِیْ (کیا میری اولاد سے بھی یہی وعدہ ہے؟) تو اللہ نے جواب میں ارشاد فرمایا: لَا یَنَالُ عَھْدِی الظّٰلِمِیْنَ۔ البقرہ124:2 میرا وعدہ ظالموں کے متعلق نہیں ہے۔
عہد کا لفظ یہاں اس معنی میں استعمال ہوا ہے جیسا کہ انگریزی زبان میں (letter of appointment)کا مفہوم ہے۔ اردو میں پروانۂ امر کہیں گے۔اس آیت میں اللہ نے صاف بتا دیا کہ ظالموں کو اللہ کی طرف سے کوئی ایسا پروانۂ امر نہیں کہ وہ دوسرے سے اطاعت کا مطالبہ کریں۔۲۲۷؎ چنانچہ امام ابوحنیفہؒ فرماتے ہیں کہ کوئی ظالم اس امر کا مستحق نہیں ہے کہ وہ مسلمانوں کا امام ہو۔ اگر ایسا شخص امام بن جائے تو اس کی اطاعت واجب نہیں ہے۔ اسے صرف برداشت کیا جائے گا۔۲۲۸؎
سیاسی کارفرمائی میں شرکت کا حق
انسان کے بنیادی حقوق میں سے ایک بڑا حق اسلام نے یہ مقرر کیا ہے کہ معاشرے کے تمام افراد حکومت میں حصہ دار ہیں۔ تمام افراد کے مشورے سے حکومت ہونی چاہیے۔ قرآن نے فرمایا: لَیَسْتَخْلِفَنَّھُمْ فِی الْاَرْضِ النور 55:24 اللہ تعالیٰ ان کو___ یعنی اہل ایمان کو ___ زمین میں خلافت دے گا یہاں جمع کا لفظ استعمال کیا اور فرمایا کہ ہم بعض افراد کو نہیں، بلکہ پوری قوم کو خلافت دیں گے۔ حکومت ایک فرد کی یا ایک خاندان کی یا ایک طبقے کی نہیں‘ بلکہ پوری ملت کی ہوگی اور تمام افراد کے مشورے سے وجود میں آئے گی۔ قرآن کا ارشاد ہے:وَاَمْرُھُمْ شُوْرٰی بَیْنَھُمْ ۔۲۲۹؎ الشوریٰ 28:42 یعنی یہ حکومت آپس کے مشورے سے چلے گی۔ اس معاملے میں حضرت عمرؓ کے صاف الفاظ موجود ہیں کہ کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ مسلمانوں کے مشورے کے بغیر ان پر حکومت کرے۔ مسلمان راضی ہوں تو ان پر حکومت کی جاسکتی ہے اور راضی نہ ہوں تو نہیں کی جاسکتی۔ اس حکم کی رُو سے اسلام ایک جمہوری و شورائی حکومت کا اصول قائم کرتا ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ ہماری بدقسمتی سے تاریخ کے ادوار میں ہمارے اوپر بادشاہیاں مسلّط رہی ہیں۔ اسلام نے ہمیں ایسی بادشاہیوں کی اجازت نہیں دی، بلکہ یہ ہماری اپنی حماقتوں کا نتیجہ ہیں۔
آزادی کا تحفظ
ایک اور اصول یہ ہے کہ کسی انسان کی آزادی عدل کے بغیر سلب نہیں کی جا سکتی۔ حضرت عمرؓ نے واضح الفاظ میں فرمایا کہ: لاَ یُوْسَرُ رَجُلٌ فِی الْاِسْلاَمِ اِلاَّ بِحَقٍّ۔۲۳۰؎ اس کی رو سے عدل کا وہ تصور قائم ہوتا ہے جسے موجودہ اصطلاح میں باضابطہ عدالتی کارروائی (judicial process of law)کہتے ہیں۔ یعنی کسی کی آزادی سلب کرنے کے لیے اس پر متعین الزام لگانا‘ کھلی عدالت میں اس پر مقدمہ چلانا اور اسے دفاع کا پورا پورا موقع دینا۔ اس کے بغیر کسی کارروائی پر عدل کا اطلاق نہیں ہوسکتا۔ یہ بالکل معمولی عقل (common sense)کا تقاضا ہے کہ ملزم کو صفائی کا موقع دیے بغیر انصاف نہیں ہوسکتا۔ اسلام میں اس امر کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ ایک شخص کو پکڑا جائے اور اسے صفائی کا موقع دیے بغیر بند کردیا جائے۔ اسلامی حکومت اور عدلیہ کے لیے انصاف کے تقاضے پورے کرنا قرآن نے واجب ٹھیرایا ہے۔۲۳۱؎
تحفظِ ملکیت
ایک بنیادی حق یہ ہے کہ قرآن واضح طور پر انفرادی ملکیت کا تصوردیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَلَا تَاْكُلُوْٓا اَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ البقرہ188:2
تم باطل طریقے سے ایک دوسرے کے مال نہ کھائو۔
اگر قرآن و حدیث اور فقہ کا مطالعہ کیا جائے تو صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ دوسرے کے مال کو کھانے کے کون کون سے طریقے باطل ہیں۔ اسلام نے ان طریقوں کو مبہم نہیں رکھا ہے۔ اس اصول کی رو سے کسی آدمی سے ناجائز طریقے سے کوئی مال حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ کسی شخص کو یا کسی حکومت کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ قانون توڑ کر اور ان متعین شکلوں کے علاوہ جو خود اسلام نے واضح کر دی ہیں‘ کسی کی ملکیت پر دست درازی کرے۔
عزت کا تحفظ
انسان کا یہ بھی بنیادی حق ہے کہ اس کی عزت و آبرو کی حفاظت کی جائے۔ سورۂ حجرات میں اس حق کی پوری تفصیل موجود ہے۔مثلاً :ارشاد ہوتا ہے کہ:
۱۔ لَایَسْخَرْقَوْمٌ مِّنْ قَوْمٍ الحجرات11:49
تم میں سے کوئی گروہ کسی دوسرے گروہ کا مذاق نہ اڑائے۔
۲۔وَلَا تَنَابَزُوْا بِاْلاَ لْقَاب۔ الحجرات11:49
اور تم ایک دوسرے کو برے القاب سے نہ پکارو۔
۳۔ وَلَایَغْتَبْ بَّعْضُکُمْ بَعْضًا۔ الحجرات12:49
اور تم ایک دوسرے کی برائی پیٹھ پیچھے بیان نہ کرو۔
یعنی جتنی شکلیں بھی انسان کی عزت و آبرو پر حملہ کرنے کی ہوسکتی ہیں، ان سے منع کر دیا گیا۔ وضاحت سے کہہ دیا کہ انسان خواہ موجود ہو، خواہ موجود نہ ہو، اس کا نہ مذاق اڑایا جاسکتا ہے‘ نہ برے القاب دیے جاسکتے ہیں اور نہ اس کی برائی کی جاسکتی ہے۔ ہر شخص کا یہ قانونی حق ہے کہ کوئی اس کی عزت پر ہاتھ نہ ڈالے اور ہاتھ سے یا زبان سے اس پر کسی قسم کی زیادتی نہ کرے۔۲۳۲؎
نجی زندگی کا تحفظ
اسلام کے بنیادی حقوق کی رو سے ہر آدمی کو Privacyیعنی نجی زندگی کو محفوظ رکھنے کا حق حاصل ہے۔ اس معاملے میں سورہ نور میں وضاحت کر دی گئی ہے کہ:
۱۔ لَاتَدْخُلُوْا بُيُوْتًا غَيْرَ بُيُوْتِكُمْ حَتّٰى تَسْتَاْنِسُوْا۔ النور27:24
اپنے گھروں کے سوادوسرے گھروں میں داخل نہ ہو‘ جب تک کہ ان سے اجازت نہ لے لو۔
۲۔سورہ حجرات میں فرما دیا گیا: لَا تَجَسَّسُوْا۔ الحجرات12:49 تجسُّس نہ کرو۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے کہ کسی آدمی کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ اپنے گھر سے دوسرے آدمی کے گھر میں جھانکے۔
ایک شخص کو پورا پورا آئینی حق حاصل ہے کہ وہ اپنے گھر میں دوسروں کے شور و شغب سے‘ دوسروں کی تاک جھانک سے اور دوسروں کی مداخلت سے محفوظ و مامون رہے۔ اس کی گھریلو بے تکلفی اور پردہ داری برقرار رہنی چاہیے۔ مزید برآں یہ کہ کسی شخص کو دوسرے کا خط اوپر سے نگاہ ڈال کر دیکھنے کا حق بھی نہیں ہے،کجاکہ اسے پڑھا جائے۔ اسلام انسان کی پرائیویسی کا پورا پورا تحفظ کرتا ہے اور صاف ممانعت کرتا ہے کہ گھروں میں تاک جھانک نہ کی جائے اور کسی کی ڈاک نہ دیکھی جائے، اِلاّیہ کہ کسی شخص کے متعلق معتبر ذریعے سے یہ اطلاع مل جائے کہ وہ کوئی خطرناک کام کر رہا ہے، ورنہ خواہ مخواہ کسی کے حالات کا تجسس کرناشریعت اسلامی میں جائز نہیں ہے۔
ظلم کے خلاف احتجاج کا حق
اسلام کے بنیادی حقوق میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آدمی ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کا حق رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
لَايُحِبُّ اللہُ الْجَــہْرَ بِالسُّوْۗءِ مِنَ الْقَوْلِ اِلَّا مَنْ ظُلِمَ۝۰ۭ النساء148:4
اللہ اس کو پسند نہیں کرتا کہ آدمی بدگمانی پر زبان کھولے‘ الایہ کہ کسی پر ظلم کیا گیا ہو۔
یعنی مظلوم کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ ظالم کے خلاف آواز اٹھائے۔
آزادیٔ اظہارِ رائے
ایک اور اہم چیز جسے آج کے زمانے میں آزادی اظہار (freedom of expression) کہا جاتا ہے۔ قرآن اسے دوسری زبان میں بیان کرتا ہے، مگر دیکھیے مقابلتاً قرآن کا کتنا بلند تصور ہے۔ قرآن کا ارشاد ہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکرنہ ۲۳۳؎ صرف انسان کا حق ہے، بلکہ یہ اس کا فرض بھی ہے۔ قرآن کی رُو سے بھی اور حدیث کی ہدایات کے مطابق بھی انسان کا یہ فرض ہے کہ وہ بھلائی کے لیے لوگوں سے کہے اور برائی سے روکے۔ اگر کوئی برائی ہو رہی ہو تو صرف یہی نہیں کہ بس اس کے خلاف آواز اٹھائے، بلکہ اس کے انسداد کی کوشش بھی فرض ہے اور اگر اس کے خلاف آوازنہیں اٹھائی جاتی اور اس کے انسداد کی فکر نہیں کی جاتی تو الٹا گناہ ہوگا۔ مسلمان کا فرض ہے کہ وہ اسلامی معاشرے کو پاکیزہ رکھے۔ اگر اس معاملے میں مسلمان کی آواز بند کی جائے تو اس سے بڑا کوئی ظلم نہیں ہوسکتا۔ اگر کسی نے بھلائی کے فروغ سے روکا تو اس نے نہ صرف ایک بنیادی حق سلب کیا بلکہ ایک فرض کی ادائیگی سے روکا۔ معاشرے کی صحت کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ انسان کو ہر حالت میں یہ حق حاصل رہے۔ قرآن نے بنی اسرائیل کے تَنزُّل کے اسباب بیان کیے ہیں۔ ان میں سے ایک سبب یہ بیان کیا ہے کہ :
کَانُوْا لَایَتَنَا ھَوْنَ عَنْ مُّنْکَرٍ فَعَلُوْہُ المائدہ79:5
وہ برائیوں سے ایک دوسرے کو باز نہ رکھتے تھے۔
یعنی کسی قوم میں اگر یہ حالات پیدا ہو جائیں کہ برائی کے خلاف کوئی آواز اٹھانے والا نہ ہو تو آخر کار رفتہ رفتہ برائی پوری قوم میں پھیل جاتی ہے اور وہ پھلوں کے سڑے ہوئے ٹوکرے کے مانند ہو جاتی ہے جس کو اٹھا کر پھینک دیا جاتا ہے۔ اس قوم کے عذابِ الٰہی کے مستحق ہونے میں کوئی کسر باقی نہیں رہتی۔
ضمیر و اعتقاد کی آزادی کا حق
اسلام نے لَآاِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ البقرہ256:2 دین کے معاملے میں کوئی جبر نہیں کا اصول انسانیت کو دیا اور اس کے تحت ہر شخص کو آزادی عطا کی کہ وہ کفر و ایمان میں سے جو راہ چاہے اختیار کرے۔ قوت کا استعمال اسلام میں اگر ہے تو دو ضروریات کے لیے ہے:
٭ ایک یہ کہ اسلامی ریاست کے وجود اور اس کے استقلال کی سلامتی کے لیے میدانِ جہاد میں دشمنوں کا مقابلہ کیا جائے۔
٭ اور دوسرے یہ کہ نظم و نسق اور امن و امان کے تحفظ کے لیے، جرائم اور فتنوں کا سدّباب کرنے کے لیے عدالتی اور انتظامی اقدامات کیے جائیں۔
ضمیر و اعتقاد کی آزادی ہی کا قیمتی حق تھا جسے حاصل کرنے کے لیے مکہ کے سیزدہ (۱۳) سالہ دور ابتلا میں مسلمانوں نے ماریں کھا کھا کر کلمۂ حق کہا اور بالآخر یہ حق ثابت ہو کے رہا۔مسلمانوں نے یہ حق جس طرح اپنے لیے حاصل کیا تھا‘ اسی طرح دوسرے کے لیے بھی اس کا پورا پورا اعتراف کیا۔ اسلامی تاریخ اس بات سے خالی ہے کہ مسلمانوں نے کبھی اپنی غیر مسلم رعایا کو اسلام قبول کرنے پر مجبور کیا ہو‘ یا کسی قوم کو مار مار کر کلمہ پڑھوایا ہو۔
مذہبی دل آزاری سے تحفظ کا حق
اسلام اس امر کا روادار نہیں کہ مختلف مذہبی گروہ ایک دوسرے کے خلاف دریدہ دہنی سے کام لیں اور ایک دوسرے کے پیشوائوں پر کیچڑ اچھالا کریں۔ قرآن میں ہر شخص کے مذہبی معتقدات اور اس کے پیشوایانِ مذہب کا احترام کرنا سکھایا گیا ہے۔ ہدایت یہ ہے کہ :
وَلَا تَسُبُّوا الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ الانعام 108:6
(ان کو برا بھلا نہ کہو جنھیں یہ لوگ اللہ کے ماسوا معبود بنا کر پکارتے ہیں)
یعنی مختلف مذاہب اور معتقدات پر دلیل سے گفتگو کرنا، اور معقول طریق سے تنقید کرنا، یا اظہارِ اختلاف کرنا تو آزادیِ اظہار کے حق میں شامل ہے‘ مگر دل آزاری کے لیے بدگوئی کرنا روا نہیں۔
آزادیٔ اجتماع کا حق
آزادی اظہار کے عین منطقی نتیجے کے طور پر آزادی اجتماع کا حق نمودار ہوتا ہے۔جب اختلافِ آرا کو انسانی زندگی کی ایک اٹل حقیقت کے طور پر قرآن نے بار بار پیش کیا ہے، تو اس امر کی روک تھام کہاں ممکن ہے کہ ایک طرح کی رائے رکھنے والے لوگ آپس میں مربوط ہوں۔ ایک اصول اورنظریے پر مجتمع ہونے والی ملت کے اندر بھی مختلف مدارسِ فکر ہوسکتے ہیں اور ان کے متوّسلین بہرحال باہم دگر قریب تر ہوں گے۔ قرآن کہتا ہے:
وَلْتَكُنْ مِّنْكُمْ اُمَّۃٌ يَّدْعُوْنَ اِلَى الْخَيْرِ وَيَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِۭ آل عمران104:3
اور تم میں سے ایک گروہ تو ایسا ضرور ہونا چاہیے جو بھلائی کی طرف بلائے‘ معروف کا حکم دے اور منکر سے روکے۔
عملی زندگی میں جب ’خیر‘ ’ معروف اور ’منکر ‘کے تفصیلی تصورات میں فرق واقع ہوتا ہے تو ملت کی اصولی وحدت کے قائم رہتے ہوئے بھی اس کے اندر مختلف مدارسِ فکر تشکیل پاتے ہیں اور _______ یہ بات معیار مطلوب سے کتنی بھی فرو تر ہو‘ گروہوں اور پارٹیوں کا ظہور ہوتا ہی ہے۔ چنانچہ ہمارے ہاں کلام میں بھی‘ فقہ و قانون میں بھی اور سیاسی نظریات میں بھی اختلافِ آرا ہوا، اور اس کے ساتھ مختلف گروہ وجود میں آئے۔ سوال یہ ہے کہ اسلامی دستور اور منشور حقوق کے لحاظ سے‘ کیا مختلف اختلافی آرا رکھنے والوں کے لیے آزادیِ اجتماع کا حق ہے؟ یہ سوال سب سے پہلے حضرت علیؓ کے سامنے خوارج کے ظہور پر پیش آیا اور آنجنابؓ نے ان کے لیے آزادیِ اجتماع کے حق کو تسلیم کرلیا۔ انھوں نے خارجیوں سے فرمایا:جب تک تم تلوار اٹھا کر زبردستی اپنا نظریہ دوسروں پر مسلط کرنے کی کوشش نہ کرو گے‘ تمھیں پوری آزادی حاصل رہے گی۔
عملِ غیر کی ذمّے داری سے بریّت
اسلام میں آدمی صرف اپنے اعمال اور اپنے جرائم کے لیے جواب دہ ہے۔ دوسروں کے اعمال اور دوسروں کے جرائم میں اسے پکڑا نہیں جاسکتا۔ قرآن نے اصول یہ قرار دیا ہے کہ:
وَلَا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَ اُخْرٰي۝۰ۚ الانعام164:6
اور کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ اٹھانے پر مکلف نہیں ہے۔
اسلامی قانون میں اس کی گنجائش نہیں کہ کرے ڈاڑھی والا اورپکڑا جائے مونچھوں والا۔
شبہات پر کارروائی نہیں کی جائے گی
اسلام میں ہرشخص کو یہ تحفظ حاصل ہے کہ تحقیق کے بغیر اس کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی جائے گی۔ اس سلسلے میں قرآن کی واضح ہدایت ہے کہ کسی کے خلاف اطلاع ملنے پر تحقیقات کر لو، تاکہ ایسا نہ ہو کہ کسی گروہ کے خلاف لاعلمی میں کوئی کارروائی کر بیٹھو۔۲۳۴؎ علاوہ بریں قرآن نے یہ ہدایت بھی دی ہے:
اجْتَنِبُوْا كَثِيْرًا مِّنَ الظَّنِّ۝۰ۡاِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ الحجرات 12:49
بہت سے گمانوں سے بچو کیونکہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں۔
اجمالاً یہ ہیں وہ بنیادی حقوق جو اسلام نے انسانوں کو عطا کیے ہیں۔ ان کا تصور بالکل واضح اور مکمل ہے جو انسانی زندگی کے آغاز ہی سے انسان کو بتا دیا گیا ہے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اس وقت بھی دنیا میں انسانی حقوق کا جو اعلان (declaration of human rights) ہوا ہے اسے کسی قسم کی سند اور قوت نافذہ حاصل نہیں ہے۔بس ایک بلند معیار پیش کر دیا گیا ہے۔ اس معیار پر عمل درآمد کی کوئی قوم پابند نہیں ہے، نہ اور کوئی ایسا مؤثر معاہدہ ہے جو ان حقوق کو ساری قوموں سے منوا سکے، لیکن مسلمانوں کا معاملہ یہ ہے کہ وہ اللہ کی کتاب اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کے پابند ہیں۔ خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بنیادی حقوق کی پوری وضاحت کر دی ہے۔ جو مملکت اسلامی ریاست بننا چاہے گی اسے یہ حقوق لازمًا دینے ہوں گے۔ مسلمانوں کو بھی یہ حقوق دیے جائیں گے اور دوسری اقوام کو بھی۔ اس معاملے میں کسی ایسے معاہدے کی حاجت نہیں ہوگی کہ فلاں قوم اگر ہمیں یہ حق دے گی تو ہم اسے دیں گے، بلکہ مسلمانوں کو بہرحال یہ حقوق دینے ہوں گے، دوستوں کو بھی اور دشمنوں کو بھی۔

شیئر کریں