اصل یہ ہے کہ انسانی افراد اور جماعتوں نے تاریخ کے دوران میں نفس ِ انسانیت کو اور اس سے تعلق رکھنے والی بنیادی چیزوں کو سمجھنے میں دھوکا کھا کر اور بعض حقیقتوں کے اعتراف میں مبالغہ اور بعض کے ادراک میں قصور کرکے جو غلَط نظامِ زندگی وقتاً فوقتاً اختیار کیے، اور جنھیں انسانیت کُبرٰی (humanity at large) نے تجربے کے بعد غلَط پا کر دوسرے ایسے ہی نظامات کے لیے جگہ خالی کرنے پر مجبور کر دیا، ان کی سرگزشت کے مشاہدے سے یہ نتیجہ اخذ کر لیا گیا ہے کہ انسانیت کے لیے لازماً ہر دَور میں ایک الگ نظامِ زندگی درکار ہے جو صرف اُسی دَور کے حالات ومسائل سے پیدا ہواور انھی کو حل کرنے کی کوشش کرے۔ حالانکہ زیادہ صحت کے ساتھ اس سرگزشت سے اگر کوئی نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے تو وہ یہ ہے کہ اس قسم کے زمانی اور دوری نظاماتِ زندگی، یا بالفاظِ دیگر موسمی حشرات الارض کو بار بارآزمانے اور ہرایک کی ناکامی کے بعد اس کے دوسرے جانشین کا تجربہ کرنے میں انسانیت کُبریٰ کا وقت ضائع ہوتا ہے، اس کی راہ ماری جاتی ہے، اس کے نشووارتقا اور اپنے کمالِ مطلوب کی طرف اس کے سفر میں سخت رکاوٹیں پیش آتی ہیں۔ وہ دَرحقیقت محتاج اور سخت محتاج ہے ایسے نظام زندگی کی جو خود اسے اور اس سے تعلق رکھنے والی تمام حقیقتوں کو جان کر عالم گیر، دائمی اور پائدار اصولوں پر قائم کرسکے۔ جسے لے کر وہ حال ومستقبل کے تمام متغیر حالات سے بخیریت گزر سکے، ان سے پیدا ہونے والے مسائل کو حل کر سکے اور زندگی کے راستے پر اُفتاںوخیزاں نہیں بلکہ رواں اور دواں اپنی منزلِ مقصود کی طرف بڑھ سکے۔