(یہ مقالہ 30؍اکتوبر 1941ء کو ’’انجمن اسلامی تاریخ و تمدن‘‘، مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کی دعوت پر اسٹریچی ہال میں پڑھا گیا تھا۔ (مرتب)
موجودہ زمانے میں ملکوں اور قوموں کے ، اور بحیثیت مجموعی دنیا کے معاشی مسائل کو جو اہمیت دی جا رہی ہے، شاید اس سے پہلے، کم از کم نمایاں طور پر، ان کو اتنی اہمیت کبھی نہیں دی گئی۔ ’’نمایاں طور پر‘‘ کا لفظ میں اس لیے استعمال کر رہا ہو ں کہ حقیقت میں تو انسان کی زندگی میں اس کی معاش جس قدر اہمیت رکھتی ہے اس کے لحاظ سے ہر زمانے میں، افراد، جماعتوں، قوموں، ملکوں اور تمام انسانوں نے اس کی طرف بہرحال توجہ کی ہے، لیکن آج اس توجہ کو جس چیز نے زیادہ نمایاں کر دیا ہے وہ معاشیات کے نام سے ایک باقاعدہ علم کا بڑی بڑی کتابوں، بھاری بھر کم اصطلاحوں، اور پُر شوکت اداروں کے ساتھ موجود ہونا، اور ساتھ ہی ضروریاتِ زندگی کی پیدائش، فراہمی اور اکتساب کے طریقوں کا پیچیدہ سے پیچیدہ تر ہوتے چلے جانا ہے۔ ان اسباب سے آج معاشی مسائل پر بحث و گفتگو اور عالمانہ تحقیق کا وہ زور شور ہے کہ اس کے آگے انسانی زندگی کے سارے مسائل دب کر رہ گئے ہیں۔ لیکن یہ عجیب بات ہے کہ جس چیز پر دنیا بھر کی توجہات اس طرح مرکوز ہوگئی ہیں وہ بجائے سلجھنے اور صاف ہونے کے اور زیادہ الجھتی اور معمّا بنتی چلی جاتی ہے۔ علم المعیشت کی موٹی موٹی اصطلاحوں نے اور ماہرین معاشیات کی عالمانہ موشگافیوں نے عام لوگوں کو اس قدر دہشت زدہ کر دیا ہے کہ وہ غریب ان اعلیٰ درجے کی فنی بحثوں کو سن کر اس طرح اپنے معاشی مسئلہ کی ہولناکی سے مرعوب اور اس کے حل کی تمام توقعات سے مایوس ہو جاتے ہیں جس طرح ایک بیمار کسی ڈاکٹر کی زبان سے اپنی بیماری کا کوئی موٹا سالاطینی نام سن کر ہول کھا جاتا ہے اور خیال کرتا ہے کہ جب مجھے ایسی سخت بیماری لاحق ہو گئی ہے تو میری جان کا اب اللہ ہی حافظ ہے۔ حالانکہ ان اصطلاحوں اور فنی بحثوں کا غلاف اتار کر سیدھے سادھے فطری طریقے سے دیکھا جائے تو انسان کا معاشی مسئلہ بڑی آسانی سے سمجھ میں آسکتا ہے، اور اس مسئلہ کے حل کی مختلف صورتیں جو دنیا میں اختیار کی گئی ہیں ان کے مفید اور مضر پہلو بھی بغیر کسی دقت کے دیکھے جاسکتے ہیں ، اور اس کے حل کی صحیح فطری صورت جو کچھ ہوسکتی ہے اس کے سمجھنے میں بھی کوئی مشکل باقی نہیں رہتی۔