یہ دونوں حیثیتیں انسان کے اندر ملی جلی کام کر رہی ہیں اور مجموعی طور پر اس کی کامیابی وناکامی اور اس کے عروج وزوال کا مدار(۲) مادّی اور اَخلاقی دونوں قسم کی قوتوں پر ہے۔ وہ بے نیاز تو نہ مادّی قوت ہی سے ہو سکتا ہے اور نہ اَخلاقی قوت ہی سے۔ اسے عروج ہوتا ہے تو دونوں کے بل پر ہوتا ہے۔ اور وہ گرتا ہے تو اُسی وقت گرتا ہے جب یہ دونوں طاقتیں اس کے ہاتھ سے جاتی رہتی ہیں یا اُن میں وہ دوسروں کی بہ نسبت کم زور ہو جاتا ہے۔ لیکن اگر غائر نظر(۳) سے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ انسانی زندگی میں اصل فیصلہ کن اہمیت اَخلاقی طاقت کی ہے نہ کہ مادّی طاقت کی۔ اس میں شک نہیں کہ مادّی وسائل کا حصول، طبعی ذرائع کا استعمال، اور اسبابِ خارجی کی موافقت بھی کامیابی کے لیے شرطِ لازم ہے اور جب تک انسان اس عالمِ طبعی میں رہتا ہے یہ شرط کسی طرح ساقط( ختم (۲)ممتاز (۳) تقسیم (۴) بنیاد (۵)اندرونی پاکیزگی (۶)نیک کام (۷) اس کے سوا ) نہیں ہو سکتی مگر وہ اصل چیز جو انسان کو گراتی اور اٹھاتی ہے اور جسے اس کی قسمت کے بنانے اور بگاڑنے میں سب سے بڑھ کر دخل حاصل ہے وہ اَخلاقی طاقت ہی ہے۔ ظاہر ہے کہ ہم جس چیز کی وجہ سے انسان کو انسان کہتے ہیں وہ اُس کی جسمانیت یا حیوانیت نہیں بلکہ اس کی اَخلاقیت ہے۔ آدمی دوسری موجودات سے جس خصوصیت کی بنا پر ممیز(۲) ہوتا ہے وہ یہ نہیں ہے کہ وہ جگہ گھیرتا ہے یا سانس لیتا ہے یا نسل کشی کرتا ہے بلکہ اس کی وہ امتیازی خصوصیت جو اسے ایک مستقل نوع ہی نہیں خلیفۃ اللہ فی الارض بناتی ہے وہ اس کا اَخلاقی اختیار اور اَخلاقی ذمہ داری کا حامل ہونا ہے۔ پس جب اصل جوہر انسانیت اَخلاق ہے تو لامحالہ یہ ماننا پڑے گا کہ اَخلاقیات ہی کو انسانی زندگی کے بنائو اور بگاڑ میں فیصلہ کن مقام حاصل ہے اور اَخلاقی قوانین ہی انسان کے عروج وزوال پر فرماں روا ہیں۔
اس حقیقت کو سمجھ لینے کے بعد جب ہم اَخلاقیات کا تجزیہ کرتے ہیں تو و ہ اصولی طور پر ہمیں دو بڑے شعبوں میں منقسم(۳) نظر آتے ہیں:
ایک بنیادی انسانی اَخلاقیات، دوسرے اِسلامی اَخلاقیات۔