اس تنقید سے یہ بات واضح ہوگئی کہ نسلِ انسانی میں یہ جتنی تفریقیں کی گئی ہیں ان کے لیے کوئی عقلی بنیاد نہیں ہے۔ یہ صرف حسی اور مادی تفریقیں ہیں جن کا ہر دائرہ زاویۂ نظر کی ہروسعت پر ٹوٹ جاتا ہے۔ان کا قیام و بقا جہالت کی تاریکی، نگاہ کی محدودیت اور دل کی تنگی پر منحصر ہے۔ علم و عرفان کی روشنی جس قدر پھیلتی ہے بصیرت کی رسائی جس قدر بڑھتی ہے، قلب میں جتنی جتنی وسعت پیدا ہوتی جاتی ہے، یہ مادی اور حسی پردے اُٹھتے چلے جاتے ہیں، یہاں تک کہ نسلیت کو انسانیت کے لیے اور وطنیت کو آفاقیت کے لیے جگہ خالی کرنی پڑتی ہے۔ اختلاف رنگ و زبان میں جوہرِ انسانی کی وحدت جلوہ گر ہوتی ہے، خدا کی زمین میں خدا کے سب بندوں کی معاشی اَغراض مشترک پائی جاتی ہیں، اور سیاسی نظامات کے دائرے، محض چند سائے نظر آتے ہیں، جو آفتاب کی گردش سے روئے زمین پر چلتے پھرتے اور گھٹتے بڑھتے رہتے ہیں۔