Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

اسلام کا نظریۂ سیاسی
تمام اِسلامی نظریات کی اساس
انبیا علیہم السلا م کا مشن
الٰہ کے معنی
رَبّ کا مفہوم
فتنے کی جڑ
انبیاؑ کا اصل اصلاحی کام
نظریّۂ سیاسی کے اوّلیں اُصُول
اِسلامی اسٹیٹ کی نوعیت
ایک اعتراض
حُدودُ اللّٰہ کا مقصد
اِسلامی اسٹیٹ کا مقصد
ایجابی اسٹیٹ
جماعتی اور اُصولی اسٹیٹ
نظریہ خلافت اور اس کے سیاسی مضمرات
اِسلامی جمہوریت کی حیثیت
انفرادیت اور اجتماعیت کا توازن
اِسلامی اسٹیٹ کی ہیئتِ ترکیبی

اسلام کا نظریۂ سیاسی

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

انبیا علیہم السلا م کا مشن

اِسلام کے متعلق یہ بات تو آپ مجملًا جانتے ہی ہیں کہ یہ تمام انبیا علیہم السلام کا مشن ہے۔ یہ صرف محمد بن عبد اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا مشن نہیں ہے بلکہ انسانی تاریخ کے قدیم ترین دَور سے جتنے انبیا بھی خدا کی طرف سے آئے ہیں، ان سب کا یہی مشن تھا۔ اس کے ساتھ اجمالی طور پر یہ بھی آپ کو معلوم ہے کہ یہ سب نبی ایک خدا کی خدائی منوانے اور اُسی کی عبادت کرانے آئے تھے۔ لیکن مَیں چاہتا ہوں کہ اس اجمال کا پردہ اُٹھا کر ذرا آپ گہرائی میں اُتریں۔ سب کچھ اسی پردے کے پیچھے چھپا ہوا ہے۔ تجسس کی نگاہ ڈال کر اچھی طرح دیکھیے کہ ایک خدا کی خدائی منوانے سے مقصد کیا تھا اور صرف اُسی کی عبادت کرانے کا مطلب کیا تھا؟ اور آخر اس میں ایسی کون سی بات تھی؟ کہ جہاں کسی اللّٰہ کے بندے نے مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَيْرُہٗ۝۰ۭ (الاعراف 7:65) کا اعلان کیا اور ساری طاغوتی طاقتیں جھاڑ کا کانٹا بن کر اُسے چمٹ گئیں اگر بات صرف اتنی ہی تھی جتنی آج کل سمجھی جاتی ہے کہ مسجد میں خدائے واحد کے سامنے سجدہ کر لو اور پھر باہر نکل کر حکومتِ وقت (جو بھی وقت کی حکومت ہو) کی وفاداری اور اطاعت میں لگ جائو تو کس کا سر پھرا تھا کہ اتنی سی بات کے لیے خواہ مخواہ اپنی وفادار رعایا کی مذہبی آزادی میں مداخلت کرتا؟
آئیے ہم تحقیق کرکے دیکھیں کہ خدا کے بارے میں انبیا علیہم السلام کا اور دُنیا کی دوسری طاقتوں کا اصل جھگڑا کس بات پر تھا؟
قرآن میں ایک جگہ نہیں بکثرت مقامات پر یہ بات صاف کر دی گئی ہے کہ کفار و مشرکین، جن سے انبیاکی لڑائی تھی، اللّٰہ کی ہستی کے منکر نہ تھے ان سب کو تسلیم تھا کہ اللّٰہ ہے اور وہی زمین و آسمان کا خالق اور خود ان کفار و مشرکین کا خالق بھی ہے۔ کائنات کا سارا انتظام اُسی کے اشارے سے ہو رہا ہے، وہی پانی برساتا ہے، وہی ہوائوں کو گردش دیتا ہے، اُسی کے ہاتھ میں سورج اور چاند اور زمین سب کچھ ہے:
قُلْ لِّمَنِ الْاَرْضُ وَمَنْ فِیْھَآ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَo سَیَقُوْلُوْنَ لِلّٰہِ ط قُلْ اَفَلَا تَذَکَّرُوْنَo قُلْ مَنْ رَّبُّ السَّمٰوٰتِ السَّبْعِ وَرَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِo سَیَقُوْلُوْنَ لِلّٰہِ ط قُلْ اَفَلَا تَتَّقُوْنَo قُلْ مَنْ م بِیَدِہٖ مَلَکُوْتُ کُلِّ شَیْئٍ وَّھُوَ یُجِیْرُ وَلَا یُجَارُ عَلَیْہِ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَoسَیَقُوْلُوْنَ لِلّٰہِ ط قُلْ فَاَنّٰی تُسْحَرُوْنَo المومنون 84-89:23
ان سے پوچھو کہ زمین اور جو کچھ زمین میں ہے وُہ کس کا ہے، بتائو اگر تم جانتے ہو؟ وُہ کہیں گے اللّٰہ کا ہے۔ کہو پھر تم غور نہیں کرتے؟ ان سے پوچھو، ساتوں آسمانوں کا رب اور عرشِ عظیم کا رب کون ہے؟ کہیں گے اللّٰہ۔ کہو پھر تم اس سے ڈرتے نہیں؟ ان سے پوچھو وُہ کون ہے جس کے ہاتھ میں ہر چیز کا اختیار ہے اور وُہ سب کو پناہ دیتا ہے مگر کوئی اس کے مقابلے میں کسی کو پناہ نہیں دے سکتا؟ بتائو اگر تم جانتے ہو؟ وُہ کہیں گے کہ اللّٰہ۔ کہو پھر تم کس دھوکے میں ڈال دیے گئے ہو؟
وَلَئِنْ سَاَلْتَھُمْ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لَیَقُوْلُنَّ اللّٰہُ ج فَاَنّٰی یُؤْفَکُوْنَ… وَلَئِنْ سَاَلْتَھُمْ مَّنْ نَّزَّلَ مِنَ السَّمَآئِ مَآئً فَاَحْیَا بِہِ الْاَرْضَ مِنْ م بَعْدِ مَوْتِھَا لَیَقُوْلُنَّ اللّٰہُ العنکبوت 29:63-61
اگر تم ان سے پوچھو کہ کس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے؟ اور کس نے سورج اور چاند کو تابع فرمان بنا رکھا ہے؟ وُہ ضرور کہیں گے کہ اللّٰہ نے۔ پھر یہ آخر کدھر بھٹکائے جا رہے ہیں؟… اور اگر تم ان سے پوچھو کہ کس نے آسمان سے پانی اُتارا اور کس نے مَری ہوئی زمین کو روئیدگی بخشی؟ وُہ ضرور کہیں گے اللّٰہ نے۔
وَلَئِنْ سَاَلْتَھُمْ مَّنْ خَلَقَھُمْ لَیَقُوْلُنَّ اللّٰہُ فَاَنّٰی یُؤْفَکُوْنَo الزخرف 43:87
اور اگر تم ان سے پوچھو کہ تمھیں کس نے پیدا کیا ہے؟ وُہ ضرور کہیں گے کہ اللّٰہ نے پھر آخر یہ کدھر بھٹکائے جا رہے ہیں؟
ان آیات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اللّٰہ کے ہونے میں اور اس کے خالق ہونے اور مالک ارض و سما ہونے میں کوئی اختلاف نہ تھا۔ لوگ ان باتوں کو خود ہی مانتے تھے۔ لہٰذا ظاہر ہے کہ انھی باتوں کو منوانے کے لیے تو انبیا کے آنے کی ضرورت تھی ہی نہیں۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ انبیاؑ کی آمد کس لیے تھی اور جھگڑا کس چیز کا تھا؟
قرآن کہتا ہے کہ سارا جھگڑا اس بات پر تھا کہ انبیا کہتے تھے، جو تمھارا اور زمین و آسمان کا خالق ہے وُہ تمھارا رب اور الٰہ بھی ہے، اس کے سوا کسی کو الٰہ اور رب نہ مانو مگر دُنیا اس بات کو ماننے کے لیے تیار نہ تھی۔
آئیے ذرا پھر تجسس کریں کہ اس جھگڑے کی تَہ میں کیا ہے؟ الٰہ سے کیا مراد ہے؟ رب کسے کہتے ہیں؟ انبیا کو کیوں اصرار تھا کہ صرف اللّٰہ ہی کو الٰہ اور رب مانو؟ اور دُنیا کیوں اس بات پر لڑنے کھڑی ہو جاتی تھی؟

شیئر کریں