اسی تہذیب و تمدن کو دُنیا میں قائم کرنے کے لیے انبیا علیہم السلام پے در پے بھیجے گئے تھے۔
رہبانی تہذیب کو مستثنیٰ کرکے ہر وہ تہذیب جو دُنیا کی زِندگی کے متعلق ایک جامع نظریہ اور کاروبارِ دُنیا کو چلانے کے لیے ایک ہمہ گیر طریقہ رکھتی ہو ، قطع نظر اس سے کہ وہ جاہلیّت کی تہذیب ہو یا اِسلام کی ، طبعاً اس بات کی طالب ہوتی ہے کہ حاکمانہ اختیارات پر قبضہ کرے ، زمامِ کار اپنے ہاتھ میں لے اور زِندگی کا نقشہ اپنے طرز پر بنائے۔ حکومت کے بغیر کسی ضابطہ و نظریہ کو پیش کرنا یا اس کا معتقد ہونا محض بے معنی ہے۔ راہب تو دُنیا کے معاملات کو چلانا ہی نہیں چاہتا بلکہ ایک خاص قسم کے ’’سلوک‘‘ سے اپنی خیالی نجات کی منزل تک باہر ہی باہر پہنچ جانے کی فکر میں لگا رہتا ہے ، اس لیے نہ اسے حکومت کی حاجت نہ طلب۔ مگر جو دُنیا کے معاملات ہی کو چلانے کا ایک خاص ڈھنگ لے کر اٹھے اور اسی ڈھنگ کی پیروی میں انسان کی فلاح و نجات کا معتقد ہو ، اس کے لیے تو بجز اس کے کوئی چارہ ہی نہیں کہ اقتدار کی کنجیوں پر قبضہ کرنے کی کوشش کرے۔ کیوں کہ جب تک وہ اپنے نقشے پر عمل درآمد کرنے کی طاقت حاصل نہ کرلے ، اس کا نقشہ واقعات کی دُنیا میں قائم نہیں ہو سکتا۔ بلکہ کاغذ پر اور ذہنوں میں بھی زیادہ عرصہ تک باقی نہیں رہ سکتا۔ جس تہذیب کے ہاتھ میں زمامِ کار ہوتی ہے دُنیا کا سارا کاروبار اسی کے نقشہ پر چلتا ہے۔ وہی علوم و افکار اور فنون و آداب کی راہ نُمائی کرتی ہے ، وہی اخلاق کے سانچے بناتی ہے ، وہی تعلیم و تربیت عامہ کا انتظام کرتی ہے ، اسی کے قوانین پر سارا نظامِ تمدن مبنی ہوتا ہے اور اسی کی پالیسی ہر شعبہ زِندگی میں کار فرما ہوتی ہے۔ اس طرح زِندگی میں کہیں بھی اس تہذیب کے لیے کوئی جگہ نہیں ہوتی جو اپنی حکومت نہ رکھتی ہو ، یہاں تک کہ جب ایک طویل مدت تک حکم ران تہذیب کا دور دورہ رہتا ہے تو غیر حکم ران تہذیب عمل کی دُنیا میں خارج ازبحث ہو جاتی ہے ، اس کی طرف ہم دردانہ نقطہ نظر رکھنے والوں کو بھی اس امر میں شبہ ہو جاتا ہے کہ یہ طریقہ دُنیا کی زِندگی میں چل سکتا ہے یا نہیں۔ اس کے نام نہاد علم بردار اور اس کی لیڈر شپ کے بزعم خود وارثین تک تہذیب مخالف سے مدارات (compromise) اور آدھے پونے کا مشترک معاملہ کرنے پر اتر آتے ہیں۔ حالانکہ حکم رانی میں دو بالکل مختلف الاصول تہذیبوں کے درمیان مقاسمت و مصالحت قطعی غیر ممکن العمل چیز ہے اور انسانی تمدن اس شرک کو برداشت نہیں کر سکتا۔ بٹائی کو ممکن العمل خیال کرنا عقل کی کمی پر دلالت کرتا ہے اور اس کے لیے راضی ہونا ایمان اور ہمت کی کمی پر۔
پس دُنیا میں انبیا علیہم السلام کے مشن کا منتہائے مقصود یہ رہا ہے کہ حکومت ِ الٰہیہ قائم کرکے اس پورے نظامِ زِندگی کو نافذ کریں جو وہ خدا کی طرف سے لائے تھے۔ ( { FR 6688 }) وہ اہل جاہلیّت کو یہ حق تو دینے کے لیے تیار تھے کہ اگر چاہیں تو اپنے جاہلی اعتقادات پر قائم رہیں اور جس حد کے اندر ان کے عمل کا اثر انھی کی ذات تک محدود رہتا ہے اس میں اپنے جاہلی طریقوں پر چلتے رہیں۔ مگر وہ انھیں یہ حق دینے کے لیے تیار نہ تھے اور فطرتاً نہ دے سکتے تھے کہ اقتدار کی کنجیاں ان کے ہاتھ میں رہیں اور وہ انسانی زِندگی کے معاملات کو طاقت کے زور سے جاہلیّت کے قوانین پر چلائیں۔ اسی وجہ سے تمام انبیا نے سیاسی انقلاب برپا کرنے کی کوشش کی۔ بعض کی مساعی صرف زمین تیار کرنے کی حد تک رہیں ، جیسے حضرت ابراہیم ؑ۔ بعض نے انقلابی تحریک عملاً شروع کر دی مگر حکومت الٰہیہ قائم کرنے سے پہلے ہی ان کا کام ختم ہو گیا ، جیسے حضرت مسیح ؑ۔ اور بعض نے اس تحریک کو کام یابی کی منزل تک پہنچا دیا جیسے حضرت یوسف ؑ ، حضرت موسیٰ ؑ اور سیّدنا محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔