Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

اِسلام اور جاہلیت
زندگی کے بنیادی مسائل
خالص جاہلیت
۱۔ شرک
۲۔ رَہبانیت
۳۔ ہمہ اُوست
انبیا ؑ کا نظریّۂ کائنات وانسان
نظریّۂ اِسلامی کی تنقید
اب اجتماعی پہلو میں دیکھیے:

اسلام اور جاہلیت

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

انبیا ؑ کا نظریّۂ کائنات وانسان

پیغمبر کہتے ہیں:
یہ سارا عالم ہست وبود جوانسان کے گرد وپیش پھیلا ہوا ہے اور جس کا ایک جز انسان بھی ہے کوئی اتفاقی ہنگامہ نہیں ہے بلکہ ایک منظم، باضابطہ سلطنت ہے۔ اللّٰہ نے اسے بنایا ہے، وہی اس کا مالک ہے اور وہی اس کا اکیلا حاکم ہے۔ یہ ایک کلّی نظام (totalitarian system) ہے جس میں تمام اختیارات مرکزی اقتدار کے ہاتھ میں ہیں۔ اُس مقتدر اعلیٰ کے سوا یہاں کسی کا حکم نہیں چلتا۔ تمام قوتیں جو نظامِ عالم میں کام کر رہی ہیں، اسی کے زیرِ حکم ہیں اور کسی کی مجال نہیں ہے کہ اس کے حکم سے سرتابی کر سکے، یا اس کے اِذن کے بغیر اپنے اختیار سے کوئی حرکت کرے۔ اس ہمہ گیر سسٹم کے اندر کسی کی خودمختاری (independence) اور غیر ذمہ داری (irresponsibility) کے لیے کوئی جگہ نہیں، نہ فطرتاً ہو سکتی ہے۔
انسان یہاں پیدائشی رعیت (born subject) ہے۔ رعیت ہونا اس کی مرضی پر موقوف نہیں ہے بلکہ یہ رعیت ہی پیدا ہوا ہے، اور رعیت کے سوا کچھ اور ہونا اس کے امکان میں نہیں ہے۔ لہٰذایہ خود اپنے لیے طریق زندگی وضع کرنے اور اپنی ڈیوٹی آپ تجویز کر لینے کا حق نہیں رکھتا۔
یہ کسی چیز کا مالک نہیں ہے کہ اپنی مِلک میں تصرّف کرنے کا ضابطہ خود بنائے۔ اس کا جسم اور اس کی ساری قوتیں اللہ کی مِلک اور اس کا عطیہ ہیں، لہٰذا یہ انھیں خود اپنے منشا کے مطابق استعمال کرنے کا حق دار نہیں ہے بلکہ جس نے یہ چیزیں اسے عطا کی ہیں اُسی کی مرضی کے مطابق اسے انھیں استعمال کرنا چاہیے۔
اسی طرح جو اشیا اس کے گرد وپیش دُنیا میں پائی جاتی ہیں; زمین، جانور، پانی، نباتات، معدنیات وغیرہ… یہ سب اللّٰہ کی مِلک ہیں۔ انسان ان کا مالک نہیں ہے، لہٰذا انسان کو ان پر بھی اپنی مرضی کے مطابق تصرف کرنے کا کوئی حق نہیں بلکہ اسے ان کے ساتھ اس قانون کے مطابق برتائو کرنا چاہیے جو اصل مالک نے مقرر کیا ہے۔
اسی طرح وہ تمام انسان بھی جو زمین پر بستے ہیں اور جن کی زندگی ایک دوسرے سے وابستہ ہے، اللّٰہ کی رعیت ہیں۔ لہٰذا اِن کو اپنے باہمی تعلقات کے بارے میں خود اُصول اور ضابطے مقرر کر لینے کا حق نہیں ہے۔ ان کے جملہ تعلقات خدا کے بنائے ہوئے قانون پر مبنی ہونے چاہئیں۔
رہی یہ بات کہ وہ خدا کا قانون کیا ہے؟ تو پیغمبر کہتے ہیں کہ جس ذریعۂ علم کی بِنا پر ہم تمھیں دُنیا کی اور خود تمھاری یہ حقیقت بتا رہے ہیں، اسی ذریعۂ علم سے ہمیں خدا کا قانون بھی معلوم ہوا ہے۔ خدا نے خود ہمیں اس بات پر مامور کیا ہے کہ یہ علم تم تک پہنچا دیں۔ لہٰذا تم ہم پر اعتماد کرو۔ ہمیں اپنے بادشاہ کا نمایندہ تسلیم کرو اور ہم سے اس کا مستند قانون لو۔
پھر پیغمبر ہم سے کہتے ہیں کہ یہ جو تم بظاہر دیکھتے ہو کہ سلطنت عالم کا سارا کاروبار ایک نظم کے ساتھ چل رہا ہے مگر نہ خود سلطان نظر آتا ہے نہ اس کے کارپرداز کام کرتے دکھائی دیتے ہیں، اور یہ جو تم ایک طرح کی خود مختاری اپنے اندر محسوس کرتے ہو کہ جس طرح چاہو، کام کرو، مالکانہ رَوِش بھی اختیار کر سکتے ہو اور اصل مالک کے سوا دوسروں کے سامنے بھی اطاعت وبندگی میں سر جھکا سکتے ہو، ہر صورت میں تمھیں رزق ملتا ہے۔ وسائل کار بہم پہنچتے ہیں اور بغاوت کی سزا فورًا نہیں دی جاتی، یہ سب دراصل تمھاری آزمائش کے لیے ہے۔ چوں کہ تمھیں عقل، قوتِ استنباط اور قوتِ انتخاب دی گئی ہے، اس لیے مالک نے اپنے آپ کو اور اپنے نظامِ سلطنت کو تمھاری نظروں سے اوجھل کر دیا ہے۔ وہ تمھیں آزمانا چاہتا ہے کہ تم اپنی قوتوں سے کس طرح کام لیتے ہو۔ اس نے تم کوسمجھ بوجھ، انتخاب کی آزادی (freedom of choice) اور ایک طرح کی خودمختاری (autonomy)عطا کرکے چھوڑا ہے۔ اب اگر تم اپنی رعیت ہونے کی حیثیت کو سمجھو اور برضا ورغبت اس حیثیت کو اختیار کرلو، بغیر اس کے کہ تم پر اس حیثیت میں رہنے کے لیے کوئی جبر ہو، تو اپنے مالک کی آزمائش میں کام یاب ہو گے۔ اور اگر رعیت ہونے کی حیثیت کو نہ سمجھو، یا سمجھنے کے باوجود باغیانہ روش اختیار کرو تو امتحان میں ناکام ہو جائو گے۔ اسی امتحان کی غرض سے تمھیں دُنیا میں کچھ اختیارات دیے گئے ہیں، دُنیا کی بہت سی چیزیں تمھارے قبضۂ قدرت میں دی گئی ہیں، اور تم کو عمر بھر کی مہلت دی گئی ہے۔
اس کے بعد پیغمبر ہمیں بتاتے ہیں کہ یہ دنیوی زندگی چوں کہ امتحان کی مہلت ہے۔
لہٰذا یہاں نہ حساب نہ جزا سزا۔{ اس سلسلے میں یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ یہ عالم جس میں ہم اس وقت ہیں، دراصل عالم طبیعی ہے نہ کہ عالَمِ اَخلاقی۔ جن قوانین پر کائنات کا موجودہ نظام چل رہا ہے وہ اخلاقی قوانین نہیں ہیں بلکہ طبیعی قوانین ہیں۔ اس لیے موجودہ نظامِ کائنات میں اعمال کے اخلاقی نتائج پوری طرح مترتب نہیں ہو سکتے۔ وہ اگر مترتب ہو سکتے ہیں تو صرف اسی حد تک جس حد تک کہ قوانینِ طبیعی ان کو مترتب ہونے کا موقع دیں۔ ورنہ جہاں قوانین ِ طبیعی ان کے ظہور کے لیے سازگار نہ ہوں وہاں ان کا ظاہر ہونا محال ہے۔ مثال کے طور پر اگر کوئی شخص کسی کو قتل کر دے تو اس فعل کے اخلاقی نتیجے کا مترتب ہونا موقوف ہے اس امر پر کہ قوانین ِ طبیعی اس کا سراغ لگنے اور اس کے اوپر جرم ثابت ہونے اور اس پر اخلاقی سزا کے نافذ ہونے میں مددگار ہوں۔ اگر وہ مددگار نہ ہوں تو کوئی اخلاقی نتیجہ سرے سے مترتب ہو گا ہی نہیں اور اگر وہ سازگاری کر بھی لیں تب بھی اس فعل کے پورے اخلاقی نتائج مترتب نہ ہو سکیں گے، کیوں کہ مقتول کے عوض قاتل کا محض قتل کر دیا جانا اُس فعل کا پورا اخلاقی نتیجہ نہیں ہے جس کا اس نے ارتکاب کیا تھا۔ اسی لیے یہ دنیا دار الجزا نہیں ہے اور نہیں ہو سکتی۔ دارالجزا ہونے کے لیے ایک ایسا نظامِ عالم درکار ہے جس میں موجودہ نظامِ عالم کے برعکس حکم ران قوانین، قوانین ِ اخلاقی ہوں اور قوانین طبیعی محض ان کے خادم کی حیثیت رکھتے ہوں۔ } یہاں جو کچھ دیا جاتا ہے لازم نہیں کہ وہ کسی عملِ نیک کا انعام ہی ہو۔ وہ اس بات کی علامت نہیں ہے کہ اللّٰہ تم سے خوش ہے یا جو کچھ تم کر رہے ہو وہ درست ہے۔ بلکہ دراصل وہ محض امتحان کا سامان ہے، مال، دولت، اولاد، خدامِ حکومت، اسبابِ زندگی، یہ سب وہ چیزیں ہیں جو تمھیں امتحان کی غرض سے دی جاتی ہیں تاکہ تم ان پر کام کرکے دکھائو اور اپنی اچھی یا بُرا قابلیتوں کا اظہار کرو۔ اسی طرح جو تکلیفیں، نقصانات، مصائب وغیرہ آتے ہیں۔ وہ بھی لازماً کسی عملِ بد کی سزا نہیں ہیں بلکہ ان میں سے بعض قانونِ فطرت کے تحت آپ سے آپ ظاہر ہونے والے نتائج ہیں{ مثلاً زنا کرنے والے کا بیماری میں مبتلا ہونا، کہ یہ اس گناہ کی اخلاقی سزا نہیں ہے بلکہ اس کا طبیعی نتیجہ ہے۔ اگر وہ علاج کرنے میں کامیاب ہو جائے تو بیماری سے بچ جائے گا مگر اخلاقی سزا سے نہ بچے گا۔ اگر توبہ کرے تو اخلاقی سزا سے بچ جائے گا مگر بیماری دور نہ ہو گی۔
} بعض آزمائش کے ذیل میں آتے ہیں {مثلاً کسی شخص کا افلاس میں مبتلا ہونا اس کے حق میں اس امر کی آزمائش ہے کہ وہ اپنی حاجات پوری کرنے کے لیے ناجائز ذرائع استعمال کرتا ہے یا جائز وسائل ہی سے کام لینے پر ثابت قدم رہتا ہے، مصائب کے ہجوم میں حق پرستی پر قائم رہتا ہے یا مضطرب ہو کر باطل کے سامنے سرجھکا دیتا ہے۔
} اور بعض اس وجہ سے پیش آتے ہیں کہ حقیقت کے خلاف رائے قائم کرکے جب تم ایک رویّہ اختیار کرتے ہو تو لامحالہ تمھیں چوٹ لگتی ہے۔{ یعنی جب انسان اس دنیا کو بے خدا اور اپنے آپ کو خود مختار سمجھ کر کام کرتا ہے تو چوں کہ فی الحقیقت نہ دنیا بے خدا ہے اور نہ انسان خود مختار ہے، اس لیے امر واقعی کے خلاف عمل کرنے کی وجہ سے وہ لامحالہ چوٹ کھاتا ہے۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے آگ کو کھلونا سمجھ کر آپ ہاتھ میں پکڑ لیںتو ہاتھ جل جائے گا کیوں کہ آپ نے امرِ واقعی کے خلاف رویہ اختیار کیا۔ } بہرحال یہ دُنیا دارالجزا نہیں ہے بلکہ دارالامتحان ہے۔ یہاں جو کچھ نتائج ظاہر ہوتے ہیں وہ کسی طریقے یا کسی عمل کے صحیح یا غلط، نیک یا بد، قابلِ ترک یا قابلِ اخذ ہونے کا معیار نہیں بن سکتے۔ اصلی معیار آخرت کے نتائج ہیں۔ مہلت کی زندگی ختم ہونے کے بعد ایک دوسری زندگی ہے جس میں تمھارے پورے کارنامے کو جانچ کر فیصلہ کیا جائے گا، کہ تم امتحان میں کام یاب ہوئے یا ناکام۔ اور وہاں جس چیز پر کامیابی وناکامی کا انحصار ہے وہ یہ ہے کہ اوّلًا تم نے اپنی قوتِ نظر واستدلال کے صحیح استعمال سے اللہ تعالیٰ کے حاکم حقیقی ہونے اور اس کی طرف سے آئی ہوئی تعلیم وہدایت کے من جانب اللہ ہونے کو پہچانا یا نہیں اور ثانیاً، اس حقیقت سے واقف ہونے کے بعد آزادیٔ انتخاب رکھنے کے باوجود، تم نے اپنی رضاورغبت سے اللہ کی حاکمیت اور اس کے حکمِ شرعی کے سامنے سرتسلیم خم کیا یا نہیں۔

شیئر کریں