یہی وُہ بنیادی اصلاح تھی جو انبیا علیہم السلام نے انسانی زندگی میں کی۔ وُہ دراصل انسان پر انسان کی خدائی تھی جسے مٹانے کے لیے یہ لوگ آئے۔ ان کا اصلی مشن یہ تھا کہ انسان کو اس ظلم سے، ان جھوٹے خدائوں کی بندگی سے، اس طغیان اور ناجائز انتفاع سے نجات دلائیں۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ جو انسان انسانیت کی حد سے آگے بڑھ گئے ہیں انھیں دھکیل کر پھر اس حد میں واپس پہنچائیں، جو اس حد سے نیچے گرا دیے گئے ہیں، انھیں اُبھار کر اس حد تک اُٹھا لائیں، اور سب کو ایک ایسے عادلانہ نظامِ زندگی کا پابند بنا دیں جس میں کوئی انسان نہ کسی دُوسرے انسان کا عبد ہو نہ معبود، بلکہ سب ایک اللّٰہ کے بندے بن جائیں۔ ابتدا سے جتنے نبی دُنیا میں آئے ان سب کا ایک ہی پیغام تھا کہ یَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰہَ مَالَکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرُہٗ ’’لوگو! اللّٰہ کی بندگی کرو، اس کے سوا کوئی تمھارا الٰہ نہیں ہے۔‘‘ یہی حضرت نوح ؑ نے کہا، یہی حضرت ہودؑ نے کہا۔ یہی حضرت صالح ؑ نے کہا۔ یہی حضرت شعیبؑ ( ملاحظہ ہو سورۂ ہود، رکوع ۴۔۵۔۶۔۸۔)نے کہا اور اسی کا اعلان محمد عربی ﷺ نے کیا ہے:
اِنَّمَا اَنَا مُنْذِرٌ وَّمَا مِنْ اِلٰہٍ اِلَّا اللّٰہُ الْوَاحِدُ الْقَھَّارُo رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَابَیْنَھُمَا۔ ص38:65-66
مَیں تمھیں متنبہ کرنے والا ہوں۔ کوئی الٰہ نہیں ہے بجز اُس ایک اللّٰہ کے جو سب پر غالب ہے جو رب ہے آسمانوں اور زمین کا اور ہر اس چیز کا جو آسمان و زمین کے درمیان ہے۔
اِنَّ رَبَّكُمُ اللہُ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ ………وَّالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنُّجُوْمَ مُسَخَّرٰتٍؚبِاَمْرِہٖ۰ۭ اَلَا لَہُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُ۰ۭ الاعراف 54:7
یقینا تمھارا رب وہی اللّٰہ ہے جس نے پیدا کیا ہے آسمانوں اور زمین کو… اور سورج اور چاند اور تاروں کو۔ سب اس کے حکم کے تابع ہیں۔ خبردار! خلق بھی اسی کی ہے اور حکومت بھی اسی کی۔
ذٰلِكُمُ اللہُ رَبُّكُمْ۰ۚ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ۰ۚ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ فَاعْبُدُوْہُ۰ۚ وَہُوَعَلٰي كُلِّ شَيْءٍ وَّكِيْلٌo الانعام 6:102
وہی ایک اللّٰہ تمھارا رب ہے، اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے، وُہ ہر چیز کا خالق ہے۔ لہٰذا تم اسی کی بندگی کرو اور وُہ ہر چیز پر نگاہِ بان ہے۔
وَمَآ اُمِرُوْٓا اِلَّا لِــيَعْبُدُوا اللہَ مُخْلِصِيْنَ لَہُ الدِّيْنَ۰ۥۙ حُنَفَاۗءَ البینہ 98:5
لوگوں کو کوئی حکم نہیں دیا گیا بجز اس کے کہ اللّٰہ کی بندگی کریں، اپنے دین کو اسی کے لیے خالص کرکے یک سُو ہو کر۔
تَعَالَوْا اِلٰى كَلِمَۃٍ سَوَاۗءٍؚبَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ اَلَّا نَعْبُدَ اِلَّا اللہَ وَلَا نُشْرِكَ بِہٖ شَـيْـــًٔـا وَّلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللہِ۰ۭ آل عمران 64:3
آئو ایک ایسی بات کی طرف جو ہمارے اور تمھارے درمیان یکساں ہے، یہ کہ اللّٰہ کے سوا کسی کی ہم بندگی نہ کریں، اور خدائی میں کسی کو اس کا شریک نہ قرار دیں اور ہم میں سے کوئی کسی کو خدا کے سوا اپنا رب نہ بنا لے۔
یہی وُہ منادی تھی جس نے انسان کی رُوح اور اس کی عقل و فکر اور اس کی ذہنی و مادی قوتوں کو غلامی کی ان بندشوں سے رہا کر دیا جن میں وُہ جکڑے ہوئے تھے، اور وُہ بوجھ اُن پر سے اُتارے جن کے نیچے وُہ دبے ہوئے تھے، یہ انسان کے لیے حقیقی آزادی کا چارٹر تھا۔ محمد رسولؐ اللّٰہ کے اسی کارنامے کے متعلق قرآن میں ارشاد ہوا ہے کہ وَيَضَعُ عَنْہُمْ اِصْرَہُمْ وَالْاَغْلٰلَ الَّتِيْ كَانَتْ عَلَيْہِمْ۰ۭ الاعراف 7:157یعنی یہ نبی ان پر سے وُہ بوجھ اُتارتا ہے جو ان پرلدے ہوئے تھے اور اُن بندھنوں کو کاٹتا ہے جن میں وُہ کَسے ہوئے تھے۔