اس سوال پر غور کرنے سے پہلے یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ قرآنِ کریم میں نہ صرف مسئلہ جبر و قدر، بلکہ جملہ امور ماورائے طبیعت کی طرف جو اشارات کیے گئے ہیں ان کا اصل مقصد ان امور کی حقیقت بتانا اور اسرارِ الٰہی پر سے پردہ اٹھانا نہیں ہے۔ اس لیے کہ اول توبسیط حقیقتیں جو اس وسیع کائنات کے ورق ورق پر لکھی ہوئی ہیں اپنی تفصیلات کے ساتھ نہ وہ کسی کتاب میں سما سکتی ہیں، جسے انسان پڑھ سکتا ہو اور نہ کوئی انسانی بولی ان کے بیان کی متحمل ہو سکتی ہے۔ ان کے لیے ازلی و ابدی زندگی درکار ہے، ان کے لیے لامتناہی دفتر چاہییں، ان کو پڑھنے کے لیے ازلی و ابدی زندگی درکار ہے، ان کو بیان کرنے کے لیے غیر ملفوظ عقلی کلام اور ان کو سننے کے لیے بے آواز عقلی سماع کی حاجت ہے۔
قُلْ لَّوْ كَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِّكَلِمٰتِ رَبِّيْ لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ اَنْ تَنْفَدَ كَلِمٰتُ رَبِّيْ وَلَوْ جِئْنَا بِمِثْلِہٖ مَدَدًاo کہف18:109
اے پیغمبر ان سے کہو اگر سمندر میرے پروردگار کے کلمات کو لکھنے کے لیے روشنائی بن جاتا تو وہ ان کے ختم ہونے سے پہلے ہی خرچ ہو جاتا خواہ ہم ایک اور سمندر اس کی مدد کے لیے لے آتے۔
دوسرے اگر ان کو بیان کیا بھی جاتا، تو جیسا کہ اوپر کہا جا چکا ہے، انسان اپنے ان محدود قوائے ذہنی سے جو اسے عطا کیے گئے ہیں، ان کو سمجھ نہ سکتا۔ انسان کی عقل کا حال یہ ہے کہ اگر ارسطو اور فیثا غورث کے زمانے میں کوئی شخص بیسویں صدی عیسوی کے ٹیلی فون، سینما، ریڈیو اور ہوائی جہاز کی تفصیلات بیان کرتا تو سب سے پہلے وہی لوگ اس پر جنون کا حکم لگاتے ہیں جو آج تک سر آمد عقلا سمجھے جاتے ہیں اور اگر آج بیسویں صدی میں ان چیزوں کی کوئی تشریح کی جائے جو اب سے ہزار برس بعد دنیا میں ظاہر ہونے والی ہیں تو ہمارے بڑے سے بڑے فلسفی اور حکیم بھی اس کو نہ سمجھ سکیں گے۔ یہ ان چیزوں کا حال ہے جن کو جاننے اور سمجھنے کی استعداد انسان میں بالقوت موجود ہے اور فرق صرف قوت و فعل کا ہے۔ مگر جن امور کو جاننے اور سمجھنے کی استعداد ہی سرے سے اس میں نہیں ہے، جو اس کے تصور میں کسی طرح سما ہی نہیں سکتے، ان کو بیان کرنے سے آخر کیا فائدہ مترتب ہو سکتا تھا؟ اسی لیے قرآن کہتا ہے کہ:
يَعْلَمُ مَا بَيْنَ اَيْدِيْہِمْ وَمَا خَلْفَھُمْ۰ۚ وَلَا يُحِيْطُوْنَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِہٖٓ اِلَّا بِمَا شَاۗءَ۰ۚ وَسِعَ كُرْسِـيُّہُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ۰ۚ البقرہ2:255
جو کچھ لوگوں کے سامنے ہے اور جو ان کے پیچھے ہے سب کچھ وہ جانتا ہے مگر لوگ اس کی معلومات میں سے کسی چیز کا احاطہ نہیں کر سکتے۔ بجز ان باتوں کے جن کا علم وہ خود ان کو بخشنا چاہے۔ اس کا اقتدار آسمانوں اور زمین سب پر چھایا ہوا ہے۔
پس اس قسم کے امور کی طرف قرآنِ کریم میں جو اشارات کیے گئے ہیں وہ رازِ حقیقت بتانے کے لیے نہیں بلکہ ان مقاصد کو مدد پہنچانے کے لیے جن کا تعلق انسان کے اخلاقی اور عملی مفاد سے ہے، اگرچہ بعض مقامات پر ان کے ذریعے سے حقیقت شناس نظر اور اعلیٰ روحانی بصیرت رکھنے والوں کو اسرارِ الٰہی کا بھی کچھ تھوڑا سا علم بخش دیا جاتا ہے اور کہیں بیان کا سیاق اور موقع و محل کا اقتضا ایسے اشارات کی طرف بھی داعی ہو گیا ہے۔ جن کو غور و تامل اور فکر صحیح سے ہم تھوڑا بہت سمجھ سکتے ہیں۔