اسلامی ریاست کا مقصد خدا کی زمین میں ان نیکیوں کو قائم کرنا اور فروغ دینا ہے جو خدا کو محبوب ہیں۔ اور ان برائیوں کو دبانا اور مٹانا تھا جو خدا کو ناپسند ہیں۔ مگر انسانی بادشاہت کا راستہ اختیار کرنے کے بعد حکومت کا مقصد فتحِ ممالک اور تسخیرِ خلائق اور تحصیلِ باج وخراج اور عیشِ دُنیا کے سوا کچھ نہ رہا۔ خدا کا کلمہ بلند کرنے کی خدمت بادشاہوں نے کم ہی کبھی انجام دی۔ ان کے ہاتھوں اور ان کے امرا اور حکّام اور درباریوں کے ہاتھوں بھلائیاں کم اور برائیاں بہت زیادہ پھیلیں۔ بھلائیوں کے فروغ اور برائیوں کی روک تھام اور اشاعتِ دین اور علومِ اسلامی کی تحقیق وتدوین کے لیے جن اللّٰہ کے بندوں نے کام کیا انھیں حکومتوں سے مدد ملنی تو درکنار‘ اکثر وہ حکم رانوں کے غضب ہی میں گرفتار رہے اور اپنا کام وہ ان کی مزاحمتوں کے علی الرغم ہی کرتے رہے۔ ان کی کوششوں کے برعکس حکومتوں اور ان کے حکّام ومتوسلین کی زندگیوں اور پالیسیوں کے اثرات مسلم معاشرے کو پیہم اخلاقی زوال ہی کی طرف لے جاتے رہے۔ حد یہ ہے کہ ان لوگوں نے اپنے مفاد کی خاطر اسلام کی اشاعت میں رکاوٹیں ڈالنے سے بھی دریغ نہ کیا، جس کی بدترین مثال بنو امیہ کی حکومت میں نَو مسلموں پر جزیہ لگانے کی صورت میں ظاہر ہوئی۔
اسلامی ریاست کی روح تقوٰی اور خدا ترسی اور پرہیز گاری کی روح تھی جس کا سب سے بڑا مظہر خود ریاست کا سربراہ ہوتا تھا۔ حکومت کے عمّال اور قاضی اور سپہ سالار، سب اس روح سے سرشار ہوتے تھے، اور پھر اسی روح سے وہ پورے معاشرے کو سرشار کرتے تھے، لیکن بادشاہی کی راہ پر پڑتے ہی مسلمانوں کی حکومتوں اور ان کے حکم رانوں نے قیصر وکسریٰ کے سے رنگ ڈھنگ اور ٹھاٹھ باٹھ اختیار کر لیے۔ عدل کی جگہ ظلم و جَور کا غلبہ ہوتا چلا گیا۔ پرہیز گاری کی جگہ فسق وفجور اور راگ رنگ اور عیش وعشرت کا دور دورہ شروع ہو گیا۔ حرام وحلال کی تمیز سے حکم رانوں کی سیرت وکردار خالی ہوتی چلی گئی۔ سیاست کا رشتہ اخلاق سے ٹوٹتا چلا گیا۔ خدا سے خود ڈرنے کے بجائے حاکم لوگ بندگانِ خدا کو اپنے آپ سے ڈرانے لگے۔ اور لوگوں کے ایمان وضمیر بیدار کرنے کے بجائے انھیں اپنی بخششوں کے لالچ سے خریدنے لگے۔
……٭٭٭……