Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

دیباچۂ طبع اوّل
دیباچۂ طبع ششم
عقل کا فیصلہ
کوتہ نظری
ہدایت و ضلالت کا راز
اسلام ایک علمی و عقلی مذہب
اسلام میں عبادت کا تصور
جہاد فی سبیل اللہ
آزادی کا اسلامی تصوُّر
رواداری
اسلامی قومیت کا حقیقی مفہوم
استدراک
امربالمعروف و نہی عن المنکر
نُزولِ عذاب الٰہی کا قانون
ایک مسیحی بزرگ کے چند اعتراضات
کیا نجات کے لیے صرف کلمۂ توحید کافی ہے؟
کیا رسالت پر ایمان لانا ضروری ہے؟
ایمان بالرّسالت
قرآن پر سب سے بڈا بہتان
نبوت محمدی کا عقلی ثبوت
اتباع اور اطاعت رسول
رسول کی حیثیت شخصی وحیثیت نبوی
رسالت اور اس کے احکام
حدیث اور قرآن
مسلکِ اعتدال
استدراک
حدیث کے متعلق چند سوالات
قرآن اور سنت رسولؐ
ایک حدیث پر اعتراض اور اس کا جواب

تفہیمات (حصہ اول)

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

امربالمعروف و نہی عن المنکر

ہر چیز کے لیے اپنی صفت کے لحاظ سے کمال کے دو درجے ہوا کرتے ہیں۔ پہلا درجہ یہ ہے کہ وہ جس صفت سے متصف ہے اس میں اتصاف کی انتہا کو پہنچ جائے۔ اور دوسرا درجہ یہ کہ اس کی ذات میں وہ صفت اتنی شدید ہو جائے کہ وہ دوسری چیزوں تک متعدی ہو اور دوسروں کو بھی اپنی صفت کے رنگ میں رنگ دے۔ برف کا کمال اول یہ ہے کہ وہ انتہا درجے کی سرد ہے اور کمال ثانی یہ ہے کہ وہ دوسری چیزوں کو بھی سرد کر دیتی ہے۔ آگ کا کمال اوّل یہ ہے کہ وہ خود انتہا درجے کی گرم ہے۔ اور کمال ثانی یہ کہ وہ آس پاس کی چیزوں کو بھی اپنی اسی گرمی سے گرم کر دیتی ہے۔ بالکل یہی حال نیکی اور بدی کا بھی ہے۔ نیک آدمی کا پہلا کمال یہ ہے کہ وہ خود نیکی کا مجسمہ بن جائے اور دوسرا کمال یہ کہ وہ اپنے اثر سے دوسروں کو بھی نیک بنا دے۔ اسی طرح برے آدمی کا پہلا کمال یہ ہے کہ وہ خود بدی کی صفت سے بدرجۂ اتم متصف ہو اور دوسرا کمال یہ کہ وہ اپنی اس بدی کو دوسروں تک متعدی کر دے۔
اس قاعدۂ کلیہ کے مطابق کافر اور مومن کے لیے بھی کمال کے دو مرتبے ہیں۔ کافر اگر بجائے خود اپنے عقیدۂ کفر میں راسخ اور مضبوط ہو تو وہ کمال کفر کے پہلے مرتبے میں ہے اور اگر وہ کفر کی تبلیغ کرے، لوگوں کو راہ حق سے روک کر باطل کی طرف کھینچ لانے کی کوشش کرے، اور اپنے زور بیان، یازورِ مال یا زور شمشیر یا کسی دوسرے زور سے کفر کی اشاعت کرے تو وہ کمال کفر کے دوسرے مرتبے کی بھی تحصیل کر لیتا ہے۔ اور ان دونوں کو جمع کرنے کے بعد اس کے لیے کمال کا کوئی اور درجہ باقی نہیں رہ جاتا۔ اسی طرح مومن اگر خود اپنے عقیدۂ ایمان میں راسخ اور اطاعت حق میں کامل ہو تو وہ کمال ایمان کے پہلے مرتبے پر فائز ہوگا، اور اگر اس میں یہ صفت اتنی شدید ہو جائے کہ وہ دوسروں میں بھی ایمان و اطاعت حق کی تبلیغ و اشاعت کرنے لگے اور دوسروں میں بھی اپنی زبان و قلم اور اپنے کیرکٹر اور اپنے برتائو کے اثر سے اور اپنے دست و بازو کی جدوجہد سے اسلام اور اطاعت حق کی صفت پیدا کر دے تو اس کو کمال ایمان کا دوسرا درجہ بھی حاصل ہو جائے گا اور اس کے بعد وہ پورا مومن کہلائے جانے کا مستحق ہوگا۔
اس مضمون کو سورۂ آل عمران کے دسویں اور گیارہویں رکوع میں بڑی خوبی کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ پہلے فرمایا:قُلْ يٰٓاَھْلَ الْكِتٰبِ لِمَ تَكْفُرُوْنَ بِاٰيٰتِ اللہِ۝۰ۤۖ آل عمران98:3
(اے محمد ان سے) کہو کہ اے اہل کتاب تم کیوں اللہ کی آیات کا انکار کرتے ہو؟
پھر فرمایا:قُلْ يٰٓاَھْلَ الْكِتٰبِ لِمَ تَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِيْلِ اللہِ مَنْ اٰمَنَ تَبْغُوْنَھَا عِوَجًا ۔
آل عمران 99:3
کہو کہ اے اہل کتاب تم کیوں ایمان لانے والوں کو اللہ کے راستے سے روکتے اور اس کو ٹیڑھا کرنا چاہتے ہو؟
یہ دونوں آیات صاف طور پر دلالت کرتی ہیں کہ کفر کا پہلا کمال آیات الٰہی کا خود منکر ہونا ہے، اور دوسرا کمال اس کی اشاعت کرنا، اور لوگوں کو خدا کے سیدھے رستے سے روکنا اور اعتقاد و عمل کے ٹیڑھے راستے ان کے سامنے پیش کرنا ہے۔
اس کے بعد مومنوں سے خطاب شروع ہوتا ہے۔ اور ان سے بھی دو باتیں کہی جاتی ہے۔ ایک یہ ہے کہ:
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ حَقَّ تُقٰتِہٖ وَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَo وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللہِ جَمِيْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا۝۰۠ آل عمران 102-103:3
اے ایمان لانے والو! اللہ سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے۔ اور تم کو موت نہ آئے مگر اس حال میں کہ تم مسلمان ہو۔ اور سب کے سب مل کر اللہ کی رسی کو پکڑے رہو اور پراگندہ نہ ہو جائو۔
دوسرے یہ کہ:
وَلْتَكُنْ مِّنْكُمْ اُمَّۃٌ يَّدْعُوْنَ اِلَى الْخَيْرِ وَيَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِۭ وَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَo آل عمران:104:3
اور تم میں سے ایک ایسی جماعت تو ضرور ہی ہونی چاہیے جو نیکی طرف بلاتی ہو، اچھے کام کا حکم دیتی ہو اور بُرے کام سے روکتی ہو۔ اور فلاح پانے والے ایسے ہی لوگ ہیں۔
یہاں ایمان کے بھی دو درجے بتا دیئے ہیں۔ پہلا درجہ تو یہ ہے کہ مومن اللہ سے ڈرنے والا ہو، اور مرتے دم تک اوامرالٰہی کا مطیع رہے، اور اللہ کی رسی کو مضبوط تھامے رکھے۔ اور دوسرا درجہ یہ ہے کہ وہ اپنے دوسرے ابنائے نوع کو بھی نیکی کی طرف بلائے، اچھے کاموں کا حکم دے اور بُرے کاموں سے روکے۔
پھر کمال ثانی کے اندر بھی بہت سے مراتب ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ موم بتی‘ بجلی کا قمقمہ، چاند اور سورج، سب پر منیر اور روشن گر ہونے کا اطلاق ہوتا ہے، مگر روشن گری میں ان کے مدارج متفاوت ہیں۔ موم بتی صرف ایک حجرے کو روشن کر سکتی ہے۔ بجلی کے قمقمے کی روشنی ایک بڑے مکان کی حد تک پھیل سکتی ہے۔ چاند کی روشنی زمین اور اس کے ارگرد کی فضا تک محدود ہے۔ مگر سورج ایک عالم کو اپنی روشنی سے چمکا رہا ہے اور ہمارا پورا نظام شمسی اس کی روشنیوں سے منور ہے۔ اسی طرح مومن اگر اپنے جیسے ایک انسان کے دل میں بھی ایمان کی شمع روشن کر دے تو وہ کمال ثانی کے مرتبے میں داخل ہو جائے گا۔ لیکن یہ اس کمال کا پہلا درجہ ہوگا۔ پھر ایک جماعت، ایک قوم، ایک ملک میں دعوت اِلیٰ الخیر کے مدارج ہیں۔ اور آخری درجہ یہ ہے کہ اس کی دعوت الی الخیر تمام عالم انسانی کے لیے عام ہو، وہ ساری دنیا کو نیکی طرف بلائے، پورے ربع مسکُوں میں اللہ کا فوجدار بن جائے، بدی اور منکر جہاں بھی ہو اس کے استیصال کے لیے آستین چڑھائے اور اپنے آپ کو کسی خاص برادری، کسی خاص قوم، کسی خاص ملک اور کسی خاص نسلی یا جغرافی حد کے اندر محدود نہ سمجھے۔ یہ کمال ایمان کا سب سے بڑا اور اونچا درجہ ہے اور چونکہ حضرت حق جل مجدہ نے ہر معاملے میں مسلمانوں کے سامنے ایک بلند مطمح نظر پیش فرمایا ہے اور کسی جگہ پست حوصلگی کی تعلیم نہیں دی ہے، اس لیے آگے چل کر بارہویں رکوع میں صاف فرما دیا کہ مسلمان کا شخصی اور قومی نصب العین و مقصد حیات یہی ہے کہ وہ تمام عالم کو خدا کی شریعت کا محکوم بنانے کی کوشش کرے:
كُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ۝۰ۭ آل عمران110:3
تم بہترین امت ہو جسے نوع انسانی کے لیے نکالا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو۔ بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔
آیت وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّۃٌ… الخ کی تفسیر میں مفسرین کے درمیان اختلاف واقع ہوا ہے اور اختلاف کا منشا لفظ مِنْکُمْ ہے۔ ایک گروہ کہتا ہے کہ مِنْ یہاں تبعیض کے لیے نہیں بلکہ تبیین کے لیے آیا ہے، اور دوسرا گروہ کہتا ہے کہ نہیں وہ تبعیض ہی کے لیے آیا ہے۔
پہلے گروہ کا استدلال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر مسلمان پر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر واجب کیا ہے، جیسا کہ فرمایا: کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃِ اُخْرِجَتْ لِنَّاسِ…… الخ اور حقیقت میں ہر مکلف ہستی پر واجب ہے کہ وہ نیکی کا حکم دے اور بدی کو دفع کرے خواہ ہاتھ سے کرے یا زبان سے کرے یا اور کچھ نہ ہوسکے تو قلب ہی سے کرے۔ لہٰذا آیت کے معنی یہ ہیں کہ ’’تم ایسی امت ہو جائو جو خیر کی طرف بلاتی اور برائی سے روکتی ہو‘‘، کیونکہ مِنْ یہاں تبیین کے لیے ہے اور اس کی مثال یہ آیت ہے فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ یعنی بتوں کی گندگی سے بچو، نہ یہ کہ بتوں میں سے اس چیز سے بچو جو گندگی ہے۔
دوسرا گروہ کہتا ہے کہ مِنْ یہاں تبعیض کے لیے آیا ہے اور اس کے دو وجوہہیں۔ ایک یہ کہ مسلمانوں میں ایک بڑا حصہ عورتوں، بچوں، بوڑھوں اور مریضوں پر مشتمل ہے جو دعوت اِلیٰ الخیر اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے واجبات ادا نہیں کرسکتا۔ دوسرے یہ کہ امر بالمعروف و نہی المنکر کے لیے کچھ شرائط ہیں جو ہر شخص میں نہیں پائی جاتیں۔ اس کے لیے خیر اور معروف کا صحیح علم درکار ہے۔ اس کے لیے حکمت اور عقل کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے لازم ہے کہ آدمی پہلے خود کمال درجے کا متقی اور پرہیزگار ہو، تب لوگوں کو تقویٰ اور پرہیزگاری کی دعوت دے۔
مگر کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ میں تامل کرنے سے یہ اختلاف بآسانی دُور ہوسکتا ہے۔
ہم نے اوپر کلام اللہ سے مومن کے لیے دو کمال ثابت کیے ہیں۔ ان میں سے پہلا کمال یعنی خوف خدا اور اوامرِ الٰہیہ کے آگے سرجھکا دینا، اور اللہ کی رسی کو مضبوط تھامے رہنا تو ذات مومن کے ساتھ صفت ایمان کے نفس قیام کے لیے ضروری ہے۔ لہٰذا ہر مومن میں اس کمال کے کسی نہ کسی مرتبے کا متحقق ہونا لابد ہے کہ اگر وہ اس میں نہ ہو تو وہ مومن ہی نہ ہوگا۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے اگر چراغ میں روشنی نہ ہو تو وہ چراغ ہی نہ ہوگا۔ اگر برف میں سردی نہ ہو تو وہ برف نہ ہوگی۔ اگر آگ میں گرمی نہ ہو تو وہ آگ ہی نہیں ہوسکتی۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے تمام مومنوں کو خطاب کرکے پورے زور کے ساتھ فرمایا ہے کہ اِتَّقُو ا اللّٰہَ حَقَّ تُقٰتِہٖ اور وَلَا تَمُوْتُنَّ اِلاَّ وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ اور وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّلاَ تَفَرَّ قُوْا۔اس آیت میں تبعیض کا نام و نشان تک نہیں بلکہ عموم کے ساتھ تاکید ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر مسلمان میں لازمی طور پر یہ صفات ہونی چاہییں۔
رہا دوسرا کمال تو وہ کمال زائد ہے جس کا متحقق ہونا، مومن کے مومن ہونے کے لیے نہیں اس کے کامل و مکمل اور بلند و عالیشان مومن ہونے کے لیے ضروری ہے۔ اب اس کمال کے اعتبار سے ایک قوم کی دو ہی حالتیں ہوسکتی ہیں۔ ایک حالت تو یہ ہے کہ قوم کے کم از کم ایک حصے میں کمال ایمان کا یہ اعلیٰ مرتبہ متحقق ہو اور باقی افراد صرف کمال اوّل سے متصف رہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم پہلی حالت میں ہو یعنی اگر تمھاری پوری قوم دنیا میں آفتاب ہدایت بن جائے اور تمام اقوام عالم کو نیکی کا حکم دینے والی اور بدی سے روکنے والی ہو، تو تم دنیا کی بہترین امت ہوگے کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعَرُوْفِ وَتَنْھَوْنَ عَنِ المُنْکَرِوُتْومِنُوْنَ بِاللّٰہِلیکن اگر تم میں اس اعلیٰ مرتبے کی ہمت نہ ہو اور پوری قوم اس صفت سے متصف نہ ہوسکے، تو تمھارے اندر کم از کم ایک گروہ تو ایسا رہنا ہی چاہیے جو خیر کی طرف بلاتا رہے اور بدی سے روکتا رہے۔ وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّۃٌ یَّدْعوْنَ اِلَی الْخَیْر۔ اسی لیے پہلی آیت میں عموم ہے، مگر تاکید نہیں اور دوسری آیت میں تاکید ہے مگر عموم نہیں۔
کمال ایمان کے یہ دو درجے، جن کا بار بار ذکر آرہا ہے، صرف اعتبار میں دو ہیں ورنہ حقیقت میں تو دونوں ایک ہی ہیں۔ جس شخص کے دل میں ایمان راسخ موجود ہوگا، اور جو اللہ سے ایسا ڈرنے والا ہوگا جیسا اس سے ڈرنے کا حق ہے، اس کے لیے تو یہ ممکن نہیں ہے کہ کسی کو گمراہی میں مبتلا دیکھے اور راہ حق کی طرف دعوت نہ دے، کہیں بدی کا وجود پائے اور اس کو مٹانے کی کوشش نہ کرے۔ طبیعت مومن کی مثال ایسی ہے جیسے مشک کہ رائحۂ ایمان اس کے جَرم تک محدود نہیں رہتی بلکہ پھیلتی ہے جہاں تک پھیلنے کا اس کو موقع ملے۔ یا چراغ کہ نور ایمان سے جہاں وہ منور ہوا اور اس نے آس پاس کی فضا میں اپنی شعاعیں پھیلا دیں۔ مشک میں جب تک خوشبو رہے گی وہ مشام جاں کو معطر کرتا رہے گا۔ چراغ جب تک روشن رہے گا روشنی کرتا رہے گا۔ مگر جب مشک کی خوشبو قریب سے قریب سونگھنے والے کو بھی محسوس نہ ہو اور چراغ کی روشنی اپنے قریب ترین ماحول کو بھی روشن نہ کرے تو ہر شخص یہی حکم لگائے گا کہ مشک مشک نہیں رہا اور چراغ نے اپنی چراغیت کھودی۔ یہی حال مومن کا ہے کہ اگر وہ خیر کی طرف دعوت نہ دے، نیکی کا حکم نہ دے، بدی کو برداشت کرلے اور اس سے روکے نہیں، تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس میں خوفِ خدا کی آگ سرد پڑ گئی ہے اور ایمان کی روشنی مدھم ہوگئی ہے۔ اسی لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ تم میں سے جو کوئی بدی کو دیکھے تو لازم ہے کہ اس کو اپنے ہاتھ سے بدل دے اور اگر استطاعت نہ رکھتا ہو تو زبان ہی سے سہی۔ اور اگر اس کی بھی استطاعت نہ رکھتا ہو تو کم از کم دل میں اس کو بُرا سمجھے اور اس کو مٹانے کی خواہش رکھے۔ کیونکہ یہ ایمان کا کم سے کم درجہ ہے۔جس دل میں بدی سے نفرت تک نہ ہو اس میں رائی برابر بھی ایمان نہیں۔ اسی لیے قرآن مجید میں مومنوں کی عام صفات میں سے ایک صفت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ نیکی کا حکم دینے والے اور بدی سے روکنے والے ہیں۔
وَالْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنٰتُ بَعْضُہُمْ اَوْلِيَاۗءُ بَعْضٍ۝۰ۘ يَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ التوبہ71:9
مومن مرد اور عورتیں ایک دوسرے کے حامی اور مددگار ہیں۔ نیکی کا حکم دیتے ہیں اور بدی سے روکتے ہیں۔
اَلتَّاۗىِٕبُوْنَ الْعٰبِدُوْنَ الْحٰمِدُوْنَ السَّاۗىِٕحُوْنَ الرّٰكِعُوْنَ السّٰجِدُوْنَ الْاٰمِرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَالنَّاہُوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَالْحٰفِظُوْنَ لِحُدُوْدِ اللہِ۝۰ۭ التوبہ 112:9
وہ توبہ کرنے والے، عبادت کرنے والے، خدا کی حمد کرنے والے، خدا کی راہ میں سفر کرنے والے، رکوع و سجود کرنے والے، نیکی کا حکم دینے والے، بدی سے روکنے والے اور حدُود الٰہی کی حفاظت کرنے والے ہیں۔
اَلَّذِيْنَ اِنْ مَّكَّنّٰہُمْ فِي الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوۃَ وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَنَہَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ۝۰ۭ الحج41:22
یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم نے ان کو زمین میں طاقت بخش دی تو یہ نماز قائم کریں گے، زکوٰۃ دیں گے، نیکی کا حکم کریں گے اور بدی سے روکیں گے۔
پھر جبکہ مومن کی ضروری صفات میں سے ایک صفت امربالمعروف و نہی عن المنکر بھی ہے تو کیا وجہ ہے کہ اس کی حیثیت فرض کفایہ کی سی رکھی گئی اور اس معاملے میں اتنی نرمی کی گئی کہ مسلمانوں کی پوری قوم میں سے صرف ایک جماعت کا آمر بالمعروف اور ناہی عن المنکر ہونا کافی سمجھا گیا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ خدائے علیم و خبیر کو معلوم تھا کہ عہدِ رسالت کے گزر جانے کے بعد مسلمانوں کے ایمان ضعیف تر ہوتے چلے جائیں گے۔ جُوں جُوں زمانہ گزرتا چلا جائے گا یہ قوم مائل ِ تنزل ہوتی چلی جائے گی۔ حتیٰ کہ ایک وقت وہ آئے گا کہ کروڑوں مسلمان دنیا میں موجود ہوں گے مگر ان کی شمع ایمان میں اتنی روشنی بھی نہ ہوگی کہ اپنے قریبی ماحول کو ہی منور کرسکیں۔ بلکہ ظلمت کفر کے غلبے سے خود ان کے اپنے نور بجھ جانے کا خوف ہوگا۔ لہٰذا ایسی حالتوں کے لیے اس نے فرمایا کہ تمھارے اندر کم از کم ایک ایسی جماعت تو ضرور ہی موجود رہنی چاہیے جو خیر کی طرف دعوت دینے والی اور بدی کا مقابلہ کرنے والی ہو۔ کیونکہ اگر تمھارے اندر ایسی ایک جماعت بھی نہ رہے تو پھر تم کو عذاب الٰہی اور قطعی ہلاکت و تباہی سے کوئی چیز نہیں بچا سکتی۔
اس مضمون کو قرآن مجید میں خوب کھول کر بیان کیا گیا ہے، چنانچہ ایک جگہ ارشاد ہوتا ہے:
لُعِنَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْۢ بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ عَلٰي لِسَانِ دَاوٗدَ وَعِيْسَى ابْنِ مَرْيَمَ۝۰ۭ ذٰلِكَ بِمَا عَصَوْا وَّكَانُوْا يَعْتَدُوْنَo كَانُوْا لَا يَتَنَاہَوْنَ عَنْ مُّنْكَرٍ فَعَلُوْہُ۝۰ۭ لَبِئْسَ مَا كَانُوْا يَفْعَلُوْنَo المائدہ:78-79:5
بنی اسرائیل میں سے جن لوگوں نے کفر کیا تھا ان پر دائود اور عیسیٰ بن مریمؑ کی زبان سے لعنت کی گئی اس لیے کہ انھوں نے سرکشی کی اور وہ حد سے گزر جاتے تھے۔ وہ ایک دوسرے کو بُرے افعال کے ارتکاب سے نہ روکتے تھے اور یہ بہت بُری بات تھی جو وہ کرتے تھے۔
دوسری جگہ فرمایا:
فَلَوْلَا كَانَ مِنَ الْقُرُوْنِ مِنْ قَبْلِكُمْ اُولُوْا بَقِيَّۃٍ يَّنْہَوْنَ عَنِ الْفَسَادِ فِي الْاَرْضِ اِلَّا قَلِيْلًا مِّمَّنْ اَنْجَيْنَا مِنْہُمْ۝۰ۚ وَاتَّبَعَ الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا مَآ اُتْرِفُوْا فِيْہِ وَكَانُوْا مُجْرِمِيْنَo وَمَا كَانَ رَبُّكَ لِـيُہْلِكَ الْقُرٰي بِظُلْمٍ وَّاَہْلُہَا مُصْلِحُوْنَo ہود: 116-117:11
تم سے پہلے کی قوموں میں کچھ لوگ ایسے کیوں نہ ہوئے جو زمین میں فساد پھیلانے سے روکتے۔ان میں ایسے لوگ اگر تھے بھی تو وہ بہت کم تھے سو ان کو ہم نے نجات دے دی۔ باقی رہے ظالم لوگ تو وہ مجرم تھے اور وہ ان دنیوی لذتوں کے پیچھے پڑے رہے جو ان کو دی گئی تھیں۔ تو اے نبی تیرا رب ایسا نہیں ہے کہ بستیوں کو یوں ہی ظلم سے ہلاک کر دے، دراں حالیکہ ان کے باشندے نیکوکار ہوں۔
اس مضمون کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی بیان فرمایا ہے:
اِنَّ اللّٰہَ لَا یُعَذِّبُ الْعَامَّۃَ بِعَمَل خَاصَّۃٍ حَتّٰی یَرَوُالْمُنْکَرَ بَیْنَ ظَھْرَا نَیْھِمْ وَھُمْ قَادِرُوْنَ عَلٰی اَنْ یُنْکِرُوْہُ فَلاَ یُنْکِرُوْہُ فَاِذَا فَعَلُوْا ذَالِکَ عَذَّبَ اللّٰہُ الْخَاصَّۃَ وَالْعَامَّۃَ ۔ (رواہ احمد)
اللہ عام لوگوں کو خاص لوگوں کے بُرے اعمال کی سزا نہیں دیتا جب تک کہ نوبت یہاں تک نہ پہنچ جائے کہ وہ اپنے سامنے بُرے کام ہوتے دیکھیں اور ان کو روکنے کی قدرت رکھتے ہوں اور پھر نہ روکیں۔ جب وہ ایسا کرنے لگتے ہیں تو اللہ خاص اور عام سب پر عذاب نازل کرتا ہے۔
ایک دوسرے موقعے پر فرمایا:
وَالَّذِیْ نَفْسْیِ بِیَدہٖ لَتَأْمُرُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ وَلَتَنْھَوُنَّ عَنِ الْمُنْکَرِ وَلَتأَ خُذُنّ عَلٰی یَدِالْمُسِیْٔ وَلَتأْطِرَنَّہٗ عَلَی الْحَقِّ اِطْرَاء اَوْلَیَضْرِبَنَّ اللّٰہُ قُلُوْبَ بَعْضِکُمْ عَلٰی بَعْضٍ اَوْلَیَلْعَنُکُمْ کَمَا لَعَنَھُمْ۔ (رواہ الترمذی و ابودائود و ابن ماجہ باختلاف قلیل)
اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم پر لازم ہے کہ نیکی کا حکم دو، بدی سے روکو، اور بدکار کا ہاتھ پکڑلو اور اسے حق کی طرف موڑ دو، ورنہ اللہ تمھارے دلوں کی برائیاں ایک دوسرے پر مسلط کر دے گا، یا تم پر اسی طرح لعنت کرے گا جس طرح بنی اسرائیل پر کی۔
پس یہ بات واضح ہوگئی کہ آیت وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّۃٌ… الخ میں جو تبعیض ہے وہ اس معنی میں نہیں ہے کہ مسلمانوں میں سے صرف ایک ہی ایسی جماعت مطلوب ہے جو داعی اِلیٰ الخیر اور آمر بالمعروف اور ناہی عن المنکر ہو، اور باقی مسلمانوں کے لیے اس خدمت کا بجا لانا واجب ہی نہیں بلکہ دراصل اس کے معنی یہ ہیں کہ مسلمانوں میں کم از کم ایک جماعت تو ایسی ضرور ہی رہنی چاہیے، جو خیر کی شمع روشن رکھے اور شر کی ظلمت کو دفع کرتی رہے۔ اگر ایسی ایک جماعت بھی ان میں موجود نہ رہی تو خیر امت ہونا تو درکنار اس قوم کا عذاب الٰہی اور لعنتِ خداوندی سے بچ جانا بھی محال ہے۔
(ترجمان القرآن جمادی الاولیٰ ۱۳۵۲ھ، ستمبر۱۹۳۳ئ)

شیئر کریں