اس اجتماعی عبادت کا تیسرا زبردست کام یہ ہے کہ یہ عارضی طور پر تمام لوگوں کو ایک سطح پر لے آتی ہے۔ اگرچہ امیر امیر ہی رہتا ہے اور غریب غریب، لیکن روزہ چند گھنٹوں کے لیے امیر پر بھی وہ کیفیت طاری کر دیتا ہے جو اس کے فاقہ کش بھائی پر گزرتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اس کی مصیبت حقیقی طور پر محسوس کرتا ہے، اور خدا کی رضا چاہنے کا جذبہ اسے غریب بھائیوں کی مدد کرنے پر اکساتا ہے۔ بظاہر یہ ایک بڑی چھوٹی سی بات معلوم ہوتی ہے۔ مگر اس کے اخلاقی و تمدنی فوائد بے شمار ہیں۔ جس قوم کے امیروں میں غریبوں کی تکالیف کا احساس اور ان کی عملی ہم دردی کا جذبہ ہو، اور جہاں صرف اداروں ہی کو خیرات نہ دی جاتی ہو، بلکہ فردًا فردًا بھی حاجت مندوں کو تلاش کرکے مدد پہنچائی جاتی ہو وہاں نہ صرف یہ کہ قوم کے کم زور حصے تباہ ہونے سے محفوظ رہتے ہیں، نہ صرف یہ کہ اجتماعی فلاح برقرار رہتی ہے۔ بلکہ غربت اور امارت میں حسد کے بجائے محبت ، شکر گزاری اور احسان مندی کا تعلق قائم ہوتا ہے اور وہ طبقاتی جنگ کبھی رونما نہیں ہوسکتی، جو ان قوموں میں ہوتی ہے جن کے مال دار لوگ جانتے ہی نہیں کہ فقر و فاقہ کیا چیز ہوتی ہے، جو قحط کے زمانہ میں تعجب سے پوچھتے ہیں کہ لوگ بھوکے کیوں مر رہے ہیں۔ انھیں روٹی نہیں ملتی تو یہ کیک کیوں نہیں کھاتے؟
یہ اسلام کا دوسرا عملی رکن ہے جس کے ذریعہ اسلام اپنے افراد کو فردًا فردًا ایک خاص قسم کی اخلاقی تربیت دے کر تیار کرتا ہے اور پھر انھیں جوڑ کر ایک خاص طرز کی جماعت بناتا ہے۔ اسلام کا آخری مقصد جس مدنیت صالحہ اور الٰہیہ کو وجود میں لانا ہے اس کے اجزائے ترکیبی اس طرح نماز اور روزے کے ذریعہ سے چھیل بنا کر تیار کیے جاتے ہیں۔ اس کے اہل کار، عہدہ دار اور وُزرا، اس کے معلم اور پروفیسر، اس کے قاضی اور مفتی، اس کے تاجر، مزدور، کارخانہ دار اور کسان، اس کے رائے دہندے، نمایندے اور شہری، سب اس تربیت کے بعد کہیں اس قابل ہوتے ہیں کہ ان کے اجتماع سے وہ صالح، تمدنی و سیاسی نظام بن سکے جسے ’’خلافت علی منہاج النبوۃ‘‘ کے نام سے موسوم کیا گیا ہے۔ محض ان گھڑ افراد کو لے کر خلافت الٰہیہ قائم کرنے کے لیے دوڑ جانا ایسی خام خیالی و خام کاری ہے جس سے اللہ اور اس کا رسولؐ بری ہیں۔
ابھی اس انفرادی اور اجتماعی تربیت کا پروگرام ختم نہیں ہوا اس کے ساتھ ایک تیسرا عملی رکن زکوٰۃ بھی ہے جسے ہم آگے بیان کریں گے۔
٭ … ٭ … ٭… ٭… ٭