عمر بن عبدالعزیز کے بعد سیاست و حکومت کی باگیں مستقل طور پر جاہلیّت کے ہاتھوں میں چلی گئیں اور بنی امیہ، بنی عباس اور پھر ترکی النسل پادشاہوں کا اقتدار قائم ہوا۔ ان حکومتوں نے جو خدمات انجام دیں ان کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک طرف یونان، روم اور عجم کے جاہلی فلسفوں کو جوں کا توں لے کر مسلمانوں میں پھیلا دیا اور دوسری طرف علوم و فنون اور تمدن و معاشرت میں جاہلیّت اولیٰ کی تمام گم راہیوں کو اپنی دولت اور طاقت کے زور سے شائع و ذائع کیا۔ عباسی خاندان کے تنزل نے مزید نقصان یہ پہنچایا کہ ابتدائی عباسی ’’خلفا‘‘ کے بعد دنیوی اقتدار کی باگیں جن لوگوں کے ہاتھوں میں آئیں وہ علومِ دینی سے بالکل ہی کورے تھے۔ ان میں اتنی صلاحیت بھی نہ تھی کہ قضا اور افتا کے عہدوں کے لیے اہل آدمیوں کو منتخب کر سکتے۔ اپنی جہالت اورسہولت پسندی کی وجہ سے وہ احکامِ شرعیہ کی تنفیذ کا کام ایسے لگے بندھے طریقوں پر کرنا چاہتے تھے جن میں کسی کدو کاوش کی ضرورت نہ ہو اور اس کے لیے تقلید ِجامد ہی کا راستہ موزوں تھا۔ مزید برآں دُنیا پرست علما نے انھیں مذہبی مناظروں کی چاٹ بھی لگا دی اور پھر شاہی سرپرستی میں یہ مرض اتنا پھیلا کہ اس نے تمام مسلم ممالک میں فرقہ بندی، اختلاف اور سر پھٹول کی وبا پھیلا دی۔ امرا و سلاطین کے لیے تو مذہبی مناظرے، مرغ بازی اور بیٹر بازی کی طرح محض ایک تفریح تھے، مگر عام مسلمانوں کے لیے یہ وہ قینچیاں تھیں جنھوں نے ان کی دینی وحدت کو پارہ پارہ کر دیا۔ پانچویں صدی تک پہنچتے پہنچتے یہ حال ہو گیا کہ:
(۱) یونان فلسفے کی اشاعت سے عقائد کی بنیادیں ہل گئیں۔ محدثین و فقہا علومِ عقلیہ سے ناواقف تھے اس لیے نظامِ دین کو مقتضائے زمانہ کے مطابق معقولی انداز سے نہ سمجھا سکتے تھے اور زجر و توبیخ سے اعتقادی گم راہیوں کو دبانے کی کوشش کرتے تھے۔ علومِ عقلیہ میں جن لوگوں کے کمال کا شہرہ تھا وہ نہ صرف یہ کہ علومِ دینیہ میں کوئی بصیرت نہ رکھتے تھے بلکہ خود علومِ عقلیہ میں بھی انھیں کوئی مجتہدانہ نظر حاصل نہ تھی۔ وہ فلاسفۂ یونان کے بالکل غلام تھے، ان میں کوئی ایسا بالغ النظر آدمی نہ تھا جو تنقید کی نگاہ سے اس یونانی لٹریچر کا جائزہ لیتا۔ انھوں نے وحی یونانی کو اٹل سمجھ کر جوں کا توں تسلیم کر لیا اور وحی آسمانی کو توڑنا مروڑنا شروع کیا تاکہ وہ وحی یونانی کے مطابق ڈھل جائے۔ ان حالات کا عام مسلمانوں پر یہ اثر ہوا کہ وہ دین کو ایک غیر معقول چیز سمجھنے لگے، اس کی ہر چیز انھیں مشکوک نظر آنے لگی اور ان میں یہ خیال جاگزیں ہوتا چلا گیا کہ ہمارا دین ایک چھوئی موئی کا درخت ہے جو عقلی امتحان کی ایک ذرا سی ٹھیس ہی سے مرجھا جاتا ہے۔ امام ابو الحسن اشعری اور ان کے متبعین نے اس رَو کو بدلنے کی کوشش کی، مگر یہ گروہ متکلمین کے علوم سے تو واقف تھا لیکن معقولات کے گھر کا بھیدی نہ تھا، اس لیے وہ اس عام بے اعتقادی کی رفتار کو بدلنے میں پوری طرح کام یاب نہ ہو سکا بلکہ معتزلہ کی ضد میں اس نے بعض ایسی باتوں کا التزام کر لیا جو فی الحقیقت عقائدِ دین میں سے نہ تھیں۔
(۲) جاہل فرماں روائوں کے اثر سے اور علومِ دینی کو مادی وسائل کی تائید بہم نہ پہنچنے کے سبب سے اجتہاد کے چشمے خشک ہو گئے، تقلید ِجامد کی بیماری پھیل گئی، مذہبی اختلافات نے ترقی کرکے ذرا ذرا سے جزئیات پر نئے نئے فرقے پیدا کر دیے اور ان فرقوں کی باہمی لڑائیوں سے مسلمانوں کی یہ حالت ہو گئی کہ گویا عَلٰی شَفَا حُفْرَۃٍ مِّنَ النَّار ہیں۔
(۳) مشرق سے مغرب تک مسلم ممالک میں ہر طرف اخلاقی انحطاط رونما ہو گیا جس کے اثر سے کوئی طبقہ خالی نہ رہا۔ قرآن اور نبوت کی روشنی سے مسلمانوں کی اجتماعی زِندگی بڑی حد تک خالی ہو گئی۔ علما، امرا، عوام، سب بھول گئے کہ خدا کی کتاب اور رسولؐ کی سنت بھی کوئی چیز ہے جس کی طرف ہدایت و راہ نُمائی کے لیے کبھی رجوع کرنا چاہیے۔
(۴) شاہی درباروں، خاندانوں اور حکم ران طبقوں کی عیاشانہ زِندگی اور خود غرضانہ لڑائیوں کی وجہ سے عموماً رعایا تباہ حال ہو رہی تھی۔ ناجائز ٹیکسوں کے بارنے معاشی زِندگی کو نہایت خراب کر دیا تھا۔ تمدن کو حقیقی فائدہ پہنچانے والے علوم و صنائع روبہ تنزل تھے اور ان فنون کا زور تھا جو شاہی درباروں میں قدر و منزلت رکھتے تھے مگر اخلاق و تمدن کے لیے غارت گر تھے۔ آثار سے صاف معلوم ہو رہا تھا کہ عام تباہی کا وقت قریب آلگا ہے۔
یہ حالات تھے جب پانچویں صدی کے وسط میں امام غزالی ({ FR 6714 }) پیدا ہوئے۔ انھوں نے ابتدائً اسی طرز کی تعلیم حاصل کی جو اس زمانہ میں دنیوی ترقی کا ذریعہ ہو سکتی تھی۔ انھی علوم میں کمال پیدا کیا جن کی بازار میں مانگ تھی۔ پھر اس جنس کو لے کر وہیں پہنچے جہاں کے لیے تیار ہوئے تھے اور ان بلند ترین مراتب تک ترقی کی جن کا تصور اس زمانہ میں کوئی عالم کر سکتا تھا۔ دُنیا کی سب سے بڑی یونی ورسٹی… نظامیہ بغداد… کے ریکٹر مقرر ہوئے۔ نظام الملک طوسی، ملک شاہ سلجوقی اور ’’خلیفہ‘‘ بغداد کے درباروں میں اعتماد حاصل کیا۔ وقت کے سیاسیات میں یہاں تک دخیل ہوئے کہ سلجوقی فرماں روا اور عباسی ’’خلیفہ‘‘ کے درمیان جو اختلافات پیدا ہوتے تھے انھیں سلجھانے کے لیے ان کی خدمات حاصل کی جاتی تھیں۔ دنیوی عروج کے اس نقطہ پر پہنچ جانے کے بعد ان کی زِندگی میں انقلاب رُونما ہوا۔ اپنے زمانہ کی علمی، اخلاقی، مذہبی، سیاسی اور تمدنی زِندگی کو جتنی گہری نظر سے دیکھتے گئے اسی قدر ان کے اندر بغاوت کا جذبہ ابھرتا چلا گیا اور اسی قدر ان کے ضمیر نے زیادہ زور سے صدا لگانی شروع کی کہ تم اس گندے سمندر کی شناوری کے لیے نہیں ہو بلکہ تمھارا فرض کچھ اور ہے۔ آخرکار ان تمام اعزازات، فوائد و منافع اور مشاغل پر لات مار دی جن کے جنجال میں پھنسے ہوئے تھے۔ فقیر بن کر سیاحت کے لیے نکل کھڑے ہوئے۔ گوشوں اور ویرانوں میں غورو خوض کیا۔ چل پھر کر عام مسلمانوں کی زِندگی کا گہرا مشاہدہ کیا۔ مدتوں تک مجاہدات و ریاضات سے اپنی روح کو صاف کرتے رہے۔ ۳۸ سال کی عمر میں نکلے تھے، پورے دس برس کے بعد ۴۸ سال کی عمر میں واپس ہوئے۔ اس طویل غور و فکر و مشاہدہ کے بعد جو کام کیا وہ یہ تھا کہ بادشاہوں کے تعلق اور ان کی وظیفہ خواری سے توبہ کی، جدال و تعصب سے پرہیز کرنے کا دائمی عہد کیا، ان تعلیمی ادارات میں کام کرنے سے انکار کر دیا جو سرکاری اثر میں ہوں اور طوس میں خود اپنا ایک آزاد ادارہ قائم کیا۔ اس ادارہ میں وہ چیدہ افراد کو اپنے خاص طرز پر تعلیم و تربیت دے کر تیار کرنا چاہتے تھے مگر غالباً ان کی یہ کوشش کوئی بڑا انقلاب انگیز کام نہ کر سکی کیوں کہ پانچ چھے سال سے زیادہ انھیں اس طرزِ خاص پر کام کرنے کی اجل ہی نے مہلت نہ دی۔
امام غزالیؒ کے تجدیدی کام کا خلاصہ یہ ہے:
اولاً انھوں نے فلسفہ یونان کا نہایت گہرا مطالعہ کرکے اس پر تنقید کی اور اتنی زبردست تنقید کی کہ اس کا وہ رعب جو مسلمانوں پر چھا گیا تھا، کم ہو گیا اور لوگ جن نظریات کو حقائق سمجھے بیٹھے تھے، جن پر قرآن و حدیث کی تعلیمات کو منطبق کرنے کے سِوا دین کے بچائو کی کوئی صورت انھیں نظر نہ آتی تھی، ان کی اصلیت سے بڑی حد تک آگاہ ہو گئے۔ امام کی اس تنقید کا اثر مسلم ممالک ہی تک محدود نہ رہا بلکہ یورپ تک پہنچا اور وہاں بھی اس نے فلسفہ یونان کے تسلط کو مٹانے اور جدید دورِ تنقید و تحقیق کا بابِ فتح کرنے میں حصہ لیا۔
ثانیاً انھوں نے ان غلطیوں کی اصلاح کی جو فلاسفہ اور متکلمین کی ضد میں اِسلام کے وہ حمایتی کر رہے تھے جو علومِ عقلیہ میں گہری بصیرت نہ رکھتے تھے۔ یہ لوگ اسی قسم کی حماقتیں کر رہے تھے جو بعد میں یورپ کے پادریوں نے کیں، یعنی مذہبی عقائد کے عقلی ثبوت کو بعض صریح غیرمعقول باتوں پر موقوف سمجھ کر خواہ مخواہ انھیں اصولِ موضوعہ قرار دے لینا، پھر ان اصولِ موضوعہ کو بھی عقائد دین میں داخل کرکے ہر اس شخص کی تکفیر کرنا جو ان کا قائل نہ ہو اور ہر اس بُرہان یا تجربے یا مشاہدہ کو دین کے لیے خطرہ سمجھنا جس سے ان خود ساختہ اصولِ موضوعہ کی غلطی ثابت ہوتی ہو۔ اسی چیز نے یورپ کو بالآخر دہریت کی طرف دھکیل دیا اور یہی مسلم ممالک میں بھی شدت کے ساتھ کارفرما تھی اور لوگوں میں بے اعتقادی پیدا کر رہی تھی۔ مگر امام غزالی ؒنے بروقت اس کی اصلاح کی اور مسلمانوں کو بتایا کہ تمھارے عقائد دینی کا اثبات ان غیر معقولات کے التزام پر منحصر نہیں ہے، بلکہ اس کے لیے معقول دلائل موجود ہیں۔ لہٰذا ان چیزوں پر اصرار فضول ہے۔
ثالثاً، انھوں نے اِسلام کے عقائد اور اساسیات (fundamentals) کی ایسی معقول تعبیر پیش کی جس پر کم از کم اس زمانہ کے اور بعد کی کئی صدیوں تک کے معقولات کی بنا پر کوئی اعتراض نہ ہو سکتا تھا۔ اس کے ساتھ انھوں نے احکامِ شریعت اور عبادات و مناسک کے اسرار و مصالح بھی بیان کیے اور دین کا ایک ایسا تصور لوگوں کے سامنے رکھا جس سے وہ غلط فہمیاں دور ہو گئیں جن کی بنا پر یہ گمان ہونے لگا تھا کہ اِسلام عقلی امتحان کا بوجھ نہیں سہار سکتا۔
رابعاً، انھوں نے اپنے وقت کے تمام مذہبی فرقوں اور ان کے اختلافات پر نظر ڈالی اور پوری تحقیق کے ساتھ بتایا کہ اِسلام اور کفر کی امتیازی سرحدیں کیا ہیں، کن حدود کے اندر انسان کے لیے رائے و تاویل کی آزادی ہے اور کن حدود سے تجاوز کرنے کے معنی اِسلام سے نکل جانے کے ہیں، اِسلام کے اصلی عقائد کون سے ہیں اور وہ کیا چیزیں ہیں جنھیں خواہ مخواہ عقائد دین میں داخل کر لیا گیا ہے۔ اس تحقیقات نے ایک دوسرے سے لڑنے جھگڑنے اور تکفیر بازی کرنے والے فرقوں کی سرنگوں میں سے بہت سی بارود نکال دی اور لوگوں کے زاویہ نظر میں وسعت پیدا کی۔
خامساً، انھوں نے دین کے فہم کو تازہ کیا۔ بے شعور مذہبیت کو فضول ٹھہرایا۔ تقلید ِجامد کی سخت مخالفت کی۔ لوگوں کو کتاب اللّٰہ و سنت رسول اللّٰہ کے چشمہ فیض کی طرف پھر سے توجہّ دلائی، اجتہاد کی روح کو تازہ کرنے کی کوشش کی اور اپنے عہد کے تقریباً ہر گروہ کی گم راہیوں اور کم زوریوں پر تنقید کرکے اصلاح کی طرف عام دعوت دی۔
سادساً، انھوں نے اس نظامِ تعلیم پر تنقید کی جو بالکل فرسودہ ہو چکا تھا اور تعلیم کا ایک نیا نظام تجویز کیا۔ اس وقت تک مسلمانوں میں جو نظامِ تعلیم قائم تھا اس میں دو قسم کی خرابیاں پائی جاتی تھیں۔ ایک یہ کہ علومِ دُنیا و علومِ دین الگ الگ تھے اور اس کا نتیجہ لامحالہ تفریق دُنیا و دین کی صورت میں ظاہر ہوتا تھا جو اسلامی نقطہ نظر سے بنیادی طور پر غلط ہے۔ دوسرے یہ کہ شرعی علوم کی حیثیت سے بعض ایسی چیزیں داخلِ درس تھیں جو شرعی اہمیت نہ رکھتی تھیں۔ اور اس کا نتیجہ یہ تھا کہ دین کے متعلق لوگوں کے تصورات غلط ہو رہے تھے اور بعض غیر جنس کی چیزوں کو اہمیت حاصل ہو جانے کی وجہ سے فرقہ بندیاں پیدا ہو رہی تھیں۔ امام غزالیؒ نے ان خرابیوں کو دور کرکے ایک سمویا ہوا نظام بنایا جس کی ان کے ہم عصروں نے سخت مخالفت کی مگر بالآخر تمام مسلم ممالک میں اس کے اصول تسلیم کر لیے گئے اور بعد میں جتنے نئے نظاماتِ تعلیم بنے وہ تمام تر انھی خطوط پر بنے جو امام نے کھینچ دیے تھے۔ اس وقت تک مدارسِ عربیہ میں جو نصاب پڑھایا جا رہا ہے اس کی ابتدائی خط کشی امام غزالی ؒ ہی کی رہین منت ہے۔
سابعاً، انھوں نے اخلاقِ عامہ کا پورا جائزہ لیا۔ انھیں علما، مشائخ، امرا سلاطین، عوام، سب کی زِندگی کا مطالعہ کرنے کے خوب مواقع ملے تھے۔ خود چل پھر کر وہ مشرقی دُنیا کا ایک بڑا حصہ دیکھ چکے تھے۔ اسی مطالعے کا نتیجہ ان کی کتاب احیاء العلوم ہے جس میں انھوں نے ہر طبقہ کی اخلاقی حالت پر تنقید کی ہے، ایک ایک برائی کی جڑ اور اس کے نفسیاتی اور تمدنی اسباب کا کھوج لگایا ہے اور اِسلام کا صحیح اخلاقی معیار پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔
ثامناً، انھوں نے اپنے عہد کے نظامِ حکومت پر بھی پوری آزادی کے ساتھ تنقید کی۔ براہِ راست حکامِ وقت کو بھی اصلاح کی طرف توجہ دلاتے رہے اور عوام میں بھی یہ روح پھونکنے کی کوشش کرتے رہے کہ منفعلانہ انداز سے جبر و ظلم کے آگے سر تسلیم خم نہ کریں بلکہ آزاد نکتہ چینی کریں۔ احیا میں ایک جگہ لکھتے ہیں کہ ’’ہمارے زمانہ میں سلاطین کے تمام یا اکثر اموال حرام ہیں۔‘‘ ایک اور جگہ لکھتے ہیں کہ ’’ان سلاطین کو نہ اپنی صورت دکھانی چاہیے، نہ ان کی دیکھنی چاہیے۔ انسان کے لیے لازم ہے کہ ان کے ظلم سے بغض رکھے، ان کی بقا کو پسند نہ کرے، ان کی تعریف نہ کرے، ان کے حالات سے کوئی واسطہ نہ رکھے اور ان کے ہاں رسائی رکھنے والوں سے بھی دور رہے۔‘‘ ایک اور جگہ ان آدابِ پرستش و عبودیت پر نکتہ چینی کرتے ہیں جو درباروں میں رائج تھے، اس معاشرت کی مذمت کرتے ہیں جو بادشاہوں اور امرا نے اختیار کر رکھی تھی، حتّٰی کہ ان کے محلات، ان کے لباس، ان کی آرائش، ہر چیز کو نجس بتلاتے ہیں۔ اسی پر بس نہیں بلکہ انھوں نے اپنے عہد کے بادشاہ کو ایک مفصل خط لکھا جس میں اسے اسلامی طرزِ حکومت کی طرف دعوت دی، حکم رانی کی ذمہ داریاں سمجھائیں۔ اور اسے بتایا کہ تیرے ملک میں جو ظلم ہو رہا ہے، خواہ تو خود کرے یا تیرے عمال کریں، بہرحال اس کی ذمہ داری تجھ پر ہے۔ ایک دفعہ مجبورًا دربار شاہی میں جانا پڑا تو دورانِ گفتگو میں بادشاہ کے منہ دَر منہ کہا کہ:
’’تیرے گھوڑوں کی گردن سازِ زرّیں سے نہ ٹوٹی تو کیا ہوا، مسلمانوں کی گردن تو فاقہ کشی کی مصیبت سے ٹوٹ گئی۔‘‘
ان کے آخری زمانہ میں جتنے وزرا مقرر ہوئے، قریب قریب سبھی کو انھوں نے خطوط لکھے اور رعایا کی تباہ حالی کی طرف توجہ دلائی۔ ایک وزیر کو لکھتے ہیں:
’’ظلم حد سے گزر چکا ہے۔ چوں کہ مجھے اپنی آنکھوں سے یہ سب کچھ دیکھنا پڑتا تھا اس لیے تقریباً ایک سال سے میں نے طوس کا قیام ترک کر دیا ہے تاکہ بے رحم و بے حیا ظالموں کی حرکات دیکھنے سے خلاصی پائوں۔‘‘
ابنِ خلدون کے بیان سے یہاں تک معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک ایسی سلطنت کے قیام کے خواہاں تھے جو خالص اسلامی اصول پر ہو، خواہ دُنیا کے کسی گوشے میں ہو۔ چنانچہ مغربِ اقصیٰ میں موحدین کی سلطنت انھی کے اشارہ سے ان کے ایک شاگرد نے قائم کی۔ مگر امامِ موصوف کے کارنامے میں یہ سیاسی رنگ محض ضمنی حیثیت رکھتا تھا۔ سیاسی انقلاب کے لیے انھوں نے کوئی باقاعدہ تحریک نہیں اٹھائی، نہ حکومت کے نظام پر کوئی خفیف سے خفیف اثر ڈال سکے۔ ان کے بعد جاہلیّت کی حکم رانی میں مسلمان قوموں کی حالت خراب سے خراب تر ہوتی چلی گئی۔ یہاں تک کہ ایک صدی بعد تاتاری طوفان کے دروازے ممالک اسلامیہ پر ٹوٹ پڑے اور اس نے ان کے پورے تمدن کو تباہ کرکے رکھ دیا۔
امام غزالیؒ کے تجدیدی کام میں علمی و فکری حیثیت سے چند نقائص بھی تھے اور وہ تین عنوانات پر تقسیم کیے جا سکتے ہیں۔ ایک قسم ان نقائص کی جو حدیث کے علم میں کم زور ہونے کی وجہ سے ان کے کام میں پیدا ہوئے، ({ FR 6715 }) دوسری قسم ان نقائص کی جو ان کے ذہن پر عقلیات کے غلبہ کی وجہ سے تھے۔ اور تیسری قسم ان نقائص کی جو تصوف کی طرف ضرورت سے زیادہ مائل ہونے کی وجہ سے تھے۔
ان کم زوریوں سے بچ کر امامِ موصوف کے اصل کام یعنی اِسلام کی ذہنی و اخلاقی روح کو زندہ کرنے اور بدعت و ضلالت کی آلائشوں کو نظامِ فکر و نظام تمدن سے چھانٹ چھانٹ کر نکالنے کے کام کو جس شخص نے آگے بڑھایا وہ ابن تیمیہؒ تھا۔