اب ہماری دعوت کے تیسرے نکتہ کو لیجئے۔ ابھی جن دو نکات کی تشریح میں آپ کے سامنے کر چکا ہوں‘ یہ تیسرا نکتہ ان سے بالکل ایک منطقی نتیجے کے طور پر نکلتا ہے۔ ہمارا اپنے آپ کو بندگی رب کے حوالے کر دینا اور اس حوالگی و سپردگی میں ہمارا منافق نہ ہونا‘ بلکہ مخلص ہونا اور پھر ہمارا اپنی زندگی کو تناقضات سے پاک کرکے مسلم حنیف بننے کی کوشش کرنا‘ لازمی طور پر اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ ہم اس نظام زندگی میں انقلاب چاہیں جو آج کفر‘ دہریت‘ شرک‘ فسق و فجور اور بداخلاقی کی بنیادوں پر چل رہا ہے اور جس کے نقشے بنانے والے مفکرین اور جس کا عملی انتظام کرنے والے مدبرین سب کے سب خدا سے پھرے ہوئے اور اس کے شرائع کے قیود سے نکلے ہوئے لوگ ہیں۔ جب تک زمام کار ان لوگوں کے ہاتھ میں رہے گی‘ اور جب تک علوم و فنون آرٹ اور ادب‘ تعلیم و تدریس‘ نشر و اشاعت‘ قانون سازی اور تنقید قانون‘ مالیات‘ صنعت و حرفت‘ تجارت اور انتظام ملکی اور تعلقات بین الاقوامی‘ ہر چیز کی باگ ڈور یہ لوگ سنبھالے ہوئے رہیں گے‘ کسی شخص کے لیے دنیا میں مسلمان کی حیثیت سے زندگی بسر کرنا اور خدا کی بندگی کو اپنا ضابطہ حیات بنا کر رہنا۔ صرف عملاً محال ہے بلکہ اپنی آئندہ نسلوں کو اعتقاداً بھی اسلام کا پیرو چھوڑ جانا غیر ممکن ہے۔ اس کے علاوہ صحیح معنوں میں جو شخص بندۂ رب ہو‘ اس پر منجملہ دوسرے فرائض کے ایک اہم ترین فرض یہ بھی عائد ہوتا ہے کہ وہ خدا کی رضا کے مطابق دنیا کے انتظام کو فساد سے پاک کر دے اور اصلاح پر قائم کرے اور یہ ظاہر بات ہے کہ یہ مقصد اس وقت تک پورا نہیں ہوسکتا جب تک زمام کار صالحین کے ہاتھ میں نہ ہو‘ فساق و فجار اور خدا کے باغی اور شیطان کے مطیع‘ دنیا کے امام و پیشوا اور منتظم رہیں۔ اور پھر دنیا میں ظلم و فساد‘ بداخلاقی اور گمراہی کا دور دورہ نہ ہو۔ یہ عقل اور فطرت کے خلاف ہے اور آج تجربہ و مشاہدے سے کالشمس فی النہار ثابت ہو چکا ہے کہ ایسا ہونا ناممکن ہے۔ پس ہمارا مسلم ہونا خود اس بات کا متقاضی ہے کہ ہم دنیا کے ائمہ ضلالت کی پیشوائی ختم کر دینے اور غلبہ کفر و شرک کو مٹا کر دین حق کو اس جگہ قائم کرنے کی سعی کریں۔