Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

دیباچۂ طبع اوّل
عرض ناشر
حقیقت عبادت
نماز
فرض شناسی
تعمیر سیرت
ضبط ِ نفس
افراد کی تیاری کا پروگرام
تنظیمِ جماعت
نماز باجماعت
مسجد میں اجتماع
صف بندی
اجتماعی دُعائیں
امامت
روزہ
روزے کے اثرات
اِحساس بندگی
اِطاعت امر
تعمیر سیرت
ضبط نفس
انفرادی تربیت کا اجمالی نقشہ
روزے کا اجتماعی پہلو
تقوٰی کی فضا
جماعتی احساس:
امداد باہمی کی روح

اسلامی عبادات پر تحقیقی نظر

ریڈ مودودی ؒ کی اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

امامت

یہ اجتماعی عبادت ایک امام (leader) کے بغیر انجام نہیں پاتی۔ دو آدمی بھی اگر فر ض نماز پڑھیں تو لازم ہے کہ ان میں سے ایک امام بنے اور دوسرا مقتدی (follower) جماعت جب کھڑی ہو جائے تو اس سے الگ نماز پڑھنا سخت ممنوع ہے۔ بلکہ ایسی نماز ہوتی ہی نہیں۔ حکم ہے کہ جو آتا جائے اسی امام کے پیچھے جماعت میں شامل ہوتا جائے۔ امامت کا منصب کسی طبقہ یا کسی نسل یا گروہ کے ساتھ مخصوص نہیں نہ اس کے لیے کوئی ڈگری یا سند درکار ہے۔ ہر مسلمان امام بن سکتا ہے۔ البتہ شریعت یہ سفارش کرتی ہے کہ امام بنانے میں آدمی کی چند صفات کا لحاظ کیا جائے جن کا ذکر آگے آتا ہے۔
جماعت میں امام اور مقتدیوں کا تعلق جس طور پر قائم کیا گیا ہے۔ اس میں ایک ایک چیز انتہا درجہ کی معنٰی خیز ہے۔ اس میں دراصل ہر مسلمان کو قیادت (leadership)اور اتباع قیادت (followership)کی مکمل ٹریننگ دی جاتی ہے۔ اس میں بتایا جاتا ہے کہ اس چھوٹی مسجد سے باہر اس وسیع مسجد میں جس کا نام زمین ہے، مسلمانوں کا جماعتی نظام کیسا ہونا چاہیے، جماعت میں امام کی کیا حیثیت ہے، اس کے فرائض کیا ہیں، اس کے حقوق کیا ہیں اور امام بننے کی صورت میں اس کا طرز عمل کیسا ہونا چاہیے۔ دوسری طرف جماعت کو اس کی اطاعت کس طرح اور کن باتوں میں کرنی چاہیے۔ اگر وہ غلطی کرے تو مسلمان کیا کریں، کہاں تک غلطی میں بھی اس کی پیروی کریں، کہاں وہ اسے ٹوکنے کے مجاز ہیں، کہاں انھیں اس سے یہ مطالبہ کرنے کا حق حاصل ہے کہ اپنی غلطی کی اصلاح کرے۔ اور کس موقع پر وہ اسے امامت سے ہٹا سکتے ہیں۔ یہ سب گویا چھوٹے پیمانہ پر ایک بڑی سلطنت کو چلانے کی مشق ہے۔ جو ہر روز پانچ مرتبہ ہر چھوٹی سے چھوٹی مسجد میں کرائی جاتی ہے۔
ہدایت کی گئی کہ امام ایسے شخص کو منتخب کیا جائے، جو پرہیز گار ہو، نیک سیرت ہو، دین کا علم رکھتا ہو اور سن رسیدہ ہو۔ حدیث میں ترتیب بھی بتا دی گئی ہے کہ ان صفات میں سے کون سی صفت کس صفت پر مقدم ہے۔ یہیں سے یہ تعلیم بھی دی گئی کہ سردار قوم کے انتخاب میں کن چیزوں کا لحاظ کرنا چاہیے۔
حکم ہے کہ امام ایسے شخص کو نہ بنایا جائے جس سے جماعت کی اکثریت ناراض ہو۔ یوں تھوڑے بہت مخالف کس کے نہیں ہوتے۔ لیکن اگر جماعت میں زیادہ تر آدمی کسی شخص کی اقتدا کرنے سے کراہت کرتے ہوں تو اسے امام نہ بنایا جائے۔ یہاں بھی سردار قوم کے انتخاب کا ایک قاعدہ بتا دیا گیا۔ ایک بری شہرت کا آدمی جس کی بدسیرتی و بدکرداری سے عام لوگ نفرت کرتے ہوں، اس قابل نہیں ہوسکتا کہ مسلمانوں کا امیر بنایا جائے۔
حکم ہے کہ جو شخص امام بنے وہ نماز پڑھانے میں جماعت کے ضعیف لوگوں کا بھی لحاظ رکھے۔ محض جوان، مضبوط، تن دُرست اور فرصت والے آدمیوں ہی کو پیش نظر رکھ کر لمبی لمبی قرأت اور لمبے لمبے رکوع اور سجدے نہ کرنے لگے، بلکہ یہ بھی خیال رکھے کہ جماعت میں بوڑھے بھی ہیں، بیمار بھی ہیں، کم زور بھی ہیں اور ایسے مشغول آدمی بھی ہیں، جو اپنا کام چھوڑ کر نماز کے لیے آئے ہیں اور جنھیں نماز سے پھر اپنے کام کی طرف واپس جانا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس معاملہ میں یہاں تک رحم اور شفقت کا نمونہ پیش فرمایا ہے کہ نماز پڑھانے میں اگر کسی بچے کے رونے کی آواز آجاتی تو آپؐ نماز مختصر کر دیتے تھے۔تاکہ اگر بچے کی ماں جماعت میں شامل ہو تو اسے تکلیف نہ ہو۔ یہ گویا سردار قوم کو تعلیم دی گئی ہے کہ جب وہ سردار بنایا جائے تو جماعت میں اس کا طرزِ عمل کیسا ہونا چاہیے۔
حکم ہے کہ اگر نماز پڑھانے کے دوران میں امام کو کوئی حادثہ پیش آجائے جس کی وجہ سے وہ نماز پڑھانے کے قابل نہ رہے تو فورًا ہٹ جائے اور اپنی جگہ پیچھے کے آدمی کو کھڑا کر دے۔ یہاں پھر سردار قوم کے لیے ایک ہدایت ہے۔ اس کا بھی یہی فرض ہے کہ جب وہ اپنے آپ کو سرداری کے قابل نہ پائے تو خود ہٹ جائے اور دوسرے اہل آدمی کے لیے جگہ خالی کردے۔ اس میں نہ شرم کا کچھ کام ہے اور نہ خود غرضی کا۔
حکم ہے کہ امام کے فعل کی سختی کے ساتھ پابندی کرنی چاہیے۔ اس کی حرکت سے پہلے حرکت کرنا سخت ممنوع ہے، حتّٰی کہ جو شخص امام سے پہلے رکوع یا سجدے میں جائے اس کے متعلق حدیث میں آیا ہے کہ قیامت کے روز وہ گدھے کی صورت میں اٹھایا جائے گا۔ یہاں قوم کو سبق دیا گیا ہے کہ اسے سردار کی اطاعت کس طرح کرنی چاہیے۔
امام اگر نماز میں غلطی کرے، مثلاً: جہاں اسے بیٹھنا چاہیے تھا وہاں کھڑا ہو جائے یا جہاں کھڑا ہونا چاہیے تھا وہاں بیٹھ جائے تو حکم ہے سبحان اللہ کَہ کر اسے غلطی سے متنبہ کرو۔ سبحان اللہ کے معنی ہیں ’’اللہ پاک ہے ‘‘ امام کی غلطی پر سبحان اللہ کہنے کا مطلب یہ ہوا کہ خطا سے پاک تو بس اللہ ہی کی ذات ہے‘ تم انسان ہو، تم سے بھول چوک ہو جانا کوئی تعجب کی بات نہیں۔ یہ طریقہ ہے امام کو ٹوکنے کا۔
اور جب اس طرح امام کو ٹوکا جائے تو اسے لازم ہے کہ بلا کسی شرم و لحاظ کے اپنی غلطی کی اصلاح کرے اور صرف اصلاح ہی نہ کرے بلکہ نمازختم کرنے سے پہلے اللہ کے سامنے اپنے قصور کے اعتراف میں دو مرتبہ سجدہ بھی کرے۔ البتہ اگر ٹوکے جانے کے باوجود امام کو اس امر پر پورا یقین ہو کہ اس مقام پر اسے کھڑا ہی ہونا چاہیے تھا، یا بیٹھنا چاہیے تھا، تو وہ اپنے وثوق کے مطابق عمل کرسکتا ہے۔ اس صورت میں جماعت کاکام یہ ہے کہ وہ امام کا ساتھ دے، اگرچہ وہ اپنی جگہ اس امر کا یقین واثق ہی کیوں نہ رکھتی ہو کہ امام غلطی کر رہا ہے۔ نماز ختم ہو جانے کے بعد مقتدیوں کو حق ہے کہ امام پر اس کی غلطی ثابت کریں اور اس سے مطالبہ کریں کہ دوبارہ نماز پڑھائے۔
امام کے ساتھ جماعت کا یہ طرز عمل صرف ان غلطیوں کے بارے میں ہے جو معمولی جزئیات سے تعلق رکھتی ہوں۔ لیکن اگر امام سنت نبوی کے خلاف نماز کی ہیئت اور ترکیب بدل دے، یا قرآن کو تحریف کرکے پڑھے، یا نماز پڑھانے کے دوران میں کفر و شرک یا صریح معصیت کا ارتکاب کرے، یا کوئی ایسا فعل کرے جس سے معلوم ہو کہ یا تو وہ قانون الٰہی کی پیروی سے منحرف ہوگیا ہے، یا اس کی عقل میں فتور آگیا ہے تو جماعت کا فرض ہے کہ نماز توڑ کر اس سے الگ ہو جائے اور اسے ہٹا کر کسی دوسرے شخص کو اس کی جگہ قائم کرے۔ پہلی صورت میں امام کی پیروی نہ کرنا جتنا بڑا گناہ ہے، دوسری صورت میں اس کی پیروی کرنا اس سے بھی بڑا گناہ ہے۔
بعینہٖ یہی صورت بڑے پیمانہ پر قوم اور اس کے سردار کے تعلق کی بھی ہے۔ جب تک سردار اسلامی کانسٹی ٹیوشن کے اندر کام کر رہا ہے اس کی اطاعت مسلمانوں پر واجب ہے۔ نافرمانی کریں گے تو گناہ گار ہوں گے۔ زیادہ سے زیادہ اسے ٹوک سکتے ہیں۔ لیکن اگر ان کے ٹوکنے پر بھی وہ فروعی معاملات میں غلطیاں کرے تو انھیں اس کی اطاعت پر قائم رہنا چاہیے۔ مگر جب وہ اسلامی کانسٹی ٹیوشن کی حدود سے نکل رہا ہو تو پھر وہ مسلمانوں کی جماعت کا امیر نہیں رہ سکتا۔
یہاں تک نماز کے مقاصد اور اس کے اثرات کی جو تشریح کی گئی ہے اگرچہ وہ اس کے تمام پہلوئوں پر حاوی نہیں ہے تاہم اس سے یہ بات اچھی طرح سمجھ میں آسکتی ہے کہ اسے اسلام کا رکن اعظم کیوں قرار دیا گیا ہے۔ رکن ستون کو کہتے ہیں جس کے سہارے پر عمارت قائم ہوتی ہے۔ اسلامی زندگی کی عمارت کو قائم ہونے اور قائم رہنے کے لیے جن سہاروں کی ضرورت ہے، ان میں سب سے مقدم سہارا یہ ہے کہ مسلمانوں کے افراد میں فردًا فردًا اور ان کی جماعت میں بحیثیت مجموعی وہ اوصاف پیدا ہوںجو خدا کی بندگی کا حق ادا کرنے اور دنیا میں خلافت الٰہی کا بار سنبھالنے کے لیے ضروری ہیں۔ وہ غیب پر سچا اور زندہ ایمان رکھنے والے ہوں، وہ اللہ کو اپنا واحد فرماں روا تسلیم کریں اور اس کے فرض شناس اور اطاعت کیش بندے ہوں، اسلام کا نظام فکر و نظریۂ حیات ان کی رگ رگ میں ایسا پیوستہ ہو جائے کہ اسی کی بنیاد پر ان میں ایک پختہ سیرت پیدا ہو۔ اور ان کا عملی کردار اسی کے مطابق ڈھل جائے۔ اپنی جسمانی اور نفسانی قوتوں پر وہ اتنے قابو یافتہ ہوں کہ اپنے ایمان و اعتقاد کے مطابق ان سے کام لے سکیں۔ ان کے اندر منافقین کی جماعت اگر پیدا ہوگئی ہو یا باہر سے گھس آئی ہو تو وہ اہل ایمان سے الگ ہو جائے۔ ان کی جماعت کا نظام اسلام کے اجتماعی اصولوں پر قائم ہو، اور ایک مشین کی طرح پیہم متحرک رہے۔ ان میں اجتماعی ذہنیت کار فرما ہو۔ ان کے درمیان محبت ہو، ہم دردی ہو، تعاون ہو، مساوات ہو، وحدت روح اور وحدت عمل ہو، وہ قیادت اور اقتدا کے حدود کو جانتے اور سمجھتے ہوں اور پورے نظم و ضبط کے ساتھ کام کرنے کی اہلیت رکھتے ہوں۔ یہ تمام مقاصد چونکہ نماز کی اقامت سے حاصل ہوتے ہیں لہٰذا اسے دین اسلام کا ستون قرار دیا گیا۔ یہ ستون اگر منہدم ہو جائے تو مسلمانوں کی انفرادی سیرت اور اجتماعی ہیئت دونوں مسخ ہو کر رہ جائیں اور وہ اس مقصد عظیم کے لیے کام کرنے کے اہل ہی نہ رہیں جس کی خاطر جماعت وجود میں آئی ہے۔ اسی بنا پر فرمایا گیا کہ نماز عماد الدین ہے۔ یعنی دین کا سہارا ہے۔ جس نے اسے گرایا اس نے دین کو گرا دیا۔

شیئر کریں