سوال: ’’ظہور مہدی کے متعلق آپ نے رسالہ تجدید و احیائے دین میں جو کچھ لکھا ہے اس میں اختلاف کا پہلو یہ ہے کہ آپ مہدی موعود کے لیے کوئی امتیازی و اختصاصی علامات تسلیم نہیں کرتے، حالانکہ احادیث میں واضح طور پر علاماتِ مہدی کا تذکرہ موجود ہے۔ آخر اس سلسلۂ روایات سے چشم پوشی کیسے کی جا سکتی ہے؟
جواب: ظہورِ مہدی کے متعلق جو روایات ہیں، ان کے متعلق ناقدین حدیث نے اس قدر سخت تنقید کی ہے کہ ایک گروہ سرے سے اس بات کا قائل ہی نہیں رہا ہے کہ امام مہدی کا ظہور ہو گا۔ اسماء الرجال کی تنقید سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ ان احادیث کے اکثر رواۃ شیعہ ہیں۔ تاریخ سے بھی یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہر گروہ نے سیاسی و مذہبی اغراض کے لیے ان احادیث کو استعمال کیا ہے اور اپنے کسی آدمی پر ان کی مندرجہ علامات کو چسپاں کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان وجوہ سے میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ نفس ظہورِ مہدیٔ کی خبر کی حد تک تو یہ روایات صحیح ہیں لیکن تفصیلی علامات کا بیشتر بیان غالباً وضعی ہے اور اہلِ غرض نے شاید بعد میں ان چیزوں کو اصل ارشادِ نبوی پر اضافہ کیا ہے۔ مختلف زمانوں میں جن لوگوں نے مہدی موعود ہونے کے جھوٹے دعوے کیے ہیں، ان کے لٹریچر میں بھی آپ دیکھیں گے کہ ان کی ساری فتنہ پردازی کے لیے مواد انھی روایات نے بہم پہنچایا ہے۔
میں نے جہاں تک نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی پیشین گوئیوں پر غور کیا ہے ان کا انداز یہ نہیں ہوتا کہ کسی آنے والی چیز کی علامات و تفصیلات اس طریقے سے کبھی آپؐ نے بیان کی ہوں جس طرح ظہور مہدی کی احادیث میں پائی جاتی ہیں۔ آپ بڑی بڑی اصولی علامات تو ضرور بیان فرما دیا کرتے تھے لیکن جزئی تفصیلات بیان کرنا آپ کا طریقہ نہ تھا۔
سوال: ضرورتِ بعثت مہدی کو ’’تجدید و احیائے دین‘‘ میں تسلیم تو کر لیا گیا ہے، لیکن مہدی کا کیا کام ہو گا، اس مسئلہ کو نقلی تائید کے بغیر محض اپنے لفظوں میں بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ احادیث شریفہ کی روشنی میں اس بیان کی تفصیل کی جائے تو مناسب ہے۔ نیز مہدی موعود کے مراتب و خصوصیاتِ اور ضرورتِ اطاعت مہدی وغیرہ پر کوئی بحث نہیں کی گئی ہے، بلکہ عام مجددین میں شمار کر لیا گیا ہے۔ اگرچہ مجدد کامل اور مجدد ناقص کی تقسیم سے یہ معلوم ہو سکتا ہے کہ غالباً یہاں ’’مجدد‘‘ کا لفظ بر بنائے لغت استعمال ہوا ہے، اصطلاحاً نہیں۔ تاہم جبکہ مجدد معصوم عن الخطا نہیں ہوتا اور مہدیٔ موعود کو معصوم عن الخطا ہونا ضروری ہے تو پھر اس بین فرق کے ہوتے ہوئے مہدی ٔموعود کو مجدد کی فہرست میں کیسے شمار کیا جا سکتا ہے؟
جواب: اول تو خود لفظ ’’مہدی‘‘ پر غور کرنا چاہیے جو حدیث میں استعمال کیا گیا ہے۔ حضورؐ نے مہدی کا لفظ استعمال فرمایا ہے، جس کے معنی ہیں ہدایت یافتہ کے۔ ’’ہادی‘‘ کا لفظ استعمال نہیں کیا ہے۔ مہدی ہر وہ سردار، لیڈر اور امیر ہو سکتا ہے جو راہِ راست پر ہو۔ ’’المہدی‘‘ زیادہ سے زیادہ خصوصیت کے لیے استعمال ہو گا جس سے آنے والے کی کسی خاص امتیازی شان کا اظہار مقصود ہے۔ اور وہ امتیازی شان حدیث میں اس طرح بیان کر دی گئی ہے کہ آنے والا خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کا نظام درہم برہم ہو جانے اور ظلم و جور سے زمین کے بھر جانے کے بعد ازسر نو خلافت کو منہاجِ نبوت پر قائم کرے گا اور زمین کو عدل سے بھر دے گا۔ بس یہی چیز ہے جس کی وجہ سے اسے مختص و ممتاز کرنے کے لیے ’’مہدی‘‘ پر ’’الف ل ‘‘ داخل کیا گیا ہے۔ لیکن یہ سمجھنا بالکل غلط ہے کہ مہدی کے نام سے دین میں کوئی خاص منصب قائم کیا گیا ہے جس پر ایمان لانا اور جس کی معرفت حاصل کرنا ویسا ہی ضروری ہے جیسا انبیا پر ایمان لانا، اور اس کی اطاعت بھی شرطِ نجات اور شرطِ اِسلام و ایمان ہو۔ نیز اس خیال کے لیے بھی حدیث میں کوئی دلیل نہیں ہے کہ مہدی کوئی امامِ معصوم ہو گا۔ دراصل یہ معصومیت غیر انبیا کا تخیل ایک خالص شیعی تخیل ہے جس کی کوئی سند کتاب و سنت میں موجود نہیں ہے۔
یہ اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ جن چیزوں پر کفر و ایمان کا مدار ہے اور جن امور پر انسان کی نجات موقوف ہے انھیں بیان کرنے کا اللّٰہ تعالیٰ نے خود ذمہ لیا ہے۔ وہ سب قرآن میں بیان کی گئی ہیں۔ اور قرآن میں بھی انھیں کوئی اشارۃً و کنایتہ بیان نہیں کیا گیا ہے بلکہ پوری صراحت اور وضاحت کے ساتھ انھیں کھول دیا گیا ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ خود فرماتا ہے کہ اِنَّ عَلَیْنَا لَلْھُدیٰ۔ لہٰذا جو مسئلہ بھی دین میں یہ نوعیت رکھتا ہو اس کا ثبوت لازماً قرآن ہی سے ملنا چاہیے۔ مجرد حدیث پر ایسی کسی چیز کی بنا نہیں رکھی جا سکتی جسے مدارِ کفر و ایمان قرار دیا جائے۔ احادیث چند انسانوں سے چند انسانوں تک پہنچتی ہوئی آئی ہیں جن سے حد سے حد اگر کوئی چیز حاصل ہوتی ہے تو وہ گمانِ صحت ہے نہ کہ علم یقین۔ اور ظاہر ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ اپنے بندوں کو اس خطرے میں ڈالنا ہرگز پسند نہیں کر سکتا کہ جو امور اس کے دین میں اتنے اہم ہوں کہ ان سے کفر و ایمان کا فرق واقع ہوتا ہو انھیں صرف چند آدمیوں کی روایت پر منحصر کر دیا جائے۔ ایسے امور کی تو نوعیت ہی اس امر کی متقاضی ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ انھیں صاف صاف اپنی کتاب میں بیان فرماتے، اللّٰہ کا رسول انھیں اپنے پیغمبرانہ مشن کا اصل کام سمجھتے ہوئے ان کی تبلیغ عام کرے اور وہ بالکل غیر مشتبہ طریقے سے ہر ہر مسلمان تک پہنچا دیے گئے ہوں۔
اب ’’مہدی‘‘ کے متعلق خواہ کتنی ہی کھینچ تان کی جائے، بہرحال ہر شخص دیکھ سکتا ہے کہ اِسلام میں اس کی حیثیت یہ نہیں ہے کہ اس کے جاننے اور ماننے پر کسی کے مسلمان ہونے اور نجات پانے کا انحصار ہو۔ یہ حیثیت اگر اس کی ہوتی تو قرآن میں پوری صراحت کے ساتھ اس کا ذکر کیا جاتا اور نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم بھی دو چار آدمیوں سے اسے بیان کر دینے پر اکتفا نہ فرماتے بلکہ پوری امت تک اسے پہنچانے کی سعی بلیغ فرماتے اور اس کی تبلیغ میں آپ کی سعی کا عالم وہی ہوتا جو ہمیں توحید اور آخرت کی تبلیغ کے معاملے میں نظر آتا ہے۔ فی الحقیقت جو شخص علومِ دینی میں کچھ بھی نظر اور بصیرت رکھتا ہو وہ ایک لمحہ کے لیے بھی یہ باور نہیں کر سکتا کہ جس مسئلہ کی دین میں اتنی بڑی اہمیت ہو اسے محض اخبارِ آحاد پر چھوڑا جا سکتا تھا اور اخبارِ آحاد بھی اس درجہ کی کہ امام مالکؒ اور امام بخاریؒ اور امام مسلم جیسے محدثین نے اپنے حدیث کے مجموعوں میں سرے سے انھیں لینا ہی پسند نہ کیا ہو۔
(ترجمان القرآن، ربیع الاول، جمادی الآخر ۶۴ھ مارچ، جون ۴۵ء)
٭…٭…٭…٭…٭