ان وجوہ سے اسلام میں یہ قطعی طور پر طے کر دیا گیا ہے کہ قانونی حاکمیّت اسی کی مانی جائے جس کی واقعی حاکمیّت ساری کائنات پر قائم ہے اور جسے انسانوں پر بھی حاکمیّت کا لاشریک حق حاصل ہے۔ اس بات کو قرآن میں اتنی بار بیان کیا گیا ہے کہ اس کا شمار مشکل ہے اور اتنے زور کے ساتھ بیان کیا گیا ہے کہ اس سے زیادہ پُرزور الفاظ کسی بات کو بیان کرنے کے لیے ہو نہیں سکتے۔ مثال کے طور پر ایک جگہ فرمایا:۔
اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰہِ اَمْرَ اَلَّا تَعْبُدُوْا اِلَّا اِیَّاہُ ذَالِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ۔ (یوسف:۴۰)
حکم اللہ کے سوا کسی کے لیے نہیں‘ اس کا فرمان ہے کہ خود اس کے سوا تم کسی کی بندگی واطاعت نہ کرو، یہی صحیح طریقہ ہے۔
دوسری جگہ فرمایا:۔
اِتَّبِعُوْا مَااُنزِلَ اِلَیْکُمْ مِنْ رَبِّکُمْ وَلَا تَتَّبِعُوْا مِن دُوْنِہٖ اَوْلِیَائَ (اعراف:۳)
پیروی کرو اس قانون کی جو تمہاری طرف تمہارے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے اور اسے چھوڑ کر دوسرے سرپرستوں کی پیروی نہ کرو۔
تیسری جگہ خدا کی اس قانونی حاکمیّت سے انحراف کرنے کو صریح کفر سے تعبیر کیا گیا ہے:۔
وَمَنْ لَّم یحْکُمْ بِمَا اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰئِکَ ھُمُ الْکٰفِرُونَ (المائدہ :۴۴)
اور جو اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلے نہ کریں وہی کافر ہیں۔
اس آیت سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کی قانونی حاکمیت تسلیم کرنے ہی کا نام ایمان و اسلام ہے اور اس سے انکار قطعی کفر ہے۔