اب التحیات کو لیجئے جو آدمی اپنے رب کے حضور دو زانوں بیٹھ کر گزارش کرتا ہے:
التحیات للہ و الصلوۃ والطیبات السلام علیک ایھا النبی ورحمۃ اللہ و برکاتہ السلام علینا و علیٰ عباد اللہ الصالحین۔ اشھد ان لا الٰہ الا اللہ و اشھد ان محمداً عبدہ و رسولہ۔
’’ہماری سلامیاں‘ ہماری نمازیں اور ہماری ساری پاکیزہ چیزیں (مالی‘ بدنی اور مالی عبادتیں) اللہ کے لیے ہیں۔ اے نبیؐ ‘ اللہ کی طرف سے آپؐ پر سلام و رحمت ہو اور اللہ کے تمام نیک بندوں پر اس کی سلامتی ہو۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی خدا نہیں ہے اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں‘‘
اپنے اس اقرار کو سامنے رکھ کر ذرا بتائیے کہ:
کیا التحیات للہ و الصلوات و الطیبات کا یہ بیان و اقرار جو آپ بار بار کرتے ہیں‘ یہ واقعی صحیح اور سچا ہے؟ اور آپ کی زبان اور جان و مال کی سب قوتیں اللہ کے لیے وقف ہیں؟ اگر ایسا نہیں ہے اور سب کچھ نہیں تو بہت کچھ نہ صرف یہ کہ اللہ کے لیے نہیں بلکہ اس کے برعکس کلمہ کفر کی سربلندی اور خدا کے نافرمانوں کی خوشنودی کے لیے وقف ہے تو پھر اس عالم الغیب و الشھادۃ سے بار بار یہ جھوٹا اقرار یہ غلط بیانی اور اسے دھوکا دینے کی کوشش آخر کیا گل کھلائے گی؟ اور اس طرز عمل کے ساتھ اپنے علیم و خبیر خدا کو یہ جھوٹا یقین دلانے کی کوشش کرنا کہ دراصل تو ہمارا سب کچھ تیری ہی خدمت و خوشنودی کے لیے وقف ہے۔ اس کے غضب اور غصہ کو کس قدر بھڑکائے گا؟ اور پھر اللہ اور اس کے دین کے ساتھ یہ سلوک کرتے ہوئے ہمارے السلام علیک ایھا النبی و رحمۃ اللہ و برکاتہ کے خطاب سے محبوب خدا سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی روح مقدس کو کوئی مسرت ہوتی ہوگی یا کوفت و بیزاری؟ کیا ایسا سلام اس شخص کے سلام کا سا نہیں ہے جو اپنی قوتیں اور وسائل تو اپنے آقا کے مقابلے میں لگا دیتا ہے‘ اس کے خلاف کھڑی ہونے والی طاقتوں کا ممدو معاون بن جاتا ہے اور اس سے سرکشی و بغاوت کرنے والوں کے ہر کام آنے کے لیے تیار رہتا ہے مگر جب آقا کے روبر جاتا ہے تو نہایت بزدلی اور مکاری سے دست بستہ عرض کرنا شروع کر دیتا ہے ’’حضور! غلام آداب بجا لاتا ہے‘ خادم تو حضور کی عزت و اقبال مندی کے لیے ہر آن دعا گو ہے۔ نمک خوار کے پاس تو سب کچھ حضور ہی کا عطیہ اور حضور ہی پر نثار ہے‘‘ کیا ایسے سلام کا زخم بھی کبھی مندمل ہوسکتا ہے‘ چہ جائیکہ مالک کے ہاں سے کسی انعام و تقرب کی امید کی جائے یا السلام علینا و علیٰ عباد اللہ الصالحین کی دعا اس کے دریائے رحمت میں ذرا سا تموج بھی پیدا کر دے؟ یہی نہیں‘ بہت سے مسلمانوں کا تو حال یہ ہے کہ جن کے لیے مسجد میں اور مصلے پر سلامتی کی دعا کرتے ہیں‘ مسجد سے باہر ان کی جڑیں کاٹنے اور جان و مال اور آبرو کے درپے رہتے ہیں۔
پھر کیا اشھد ان لا الٰہ الا اللہ کے روزانہ کئی کئی بار کے عہد و شہادت کے کے بعد اب واقعی زندگی کے کسی گوشہ اور کسی معاملہ میں بھی کسی اور کو اپنا ہادی و معبود تسلیم نہیں کیا جاتا؟ اور اللہ ہی کی حدود اب آپ کی زندگی کی رہبر و رہنما ہیں کہ بس اسی کا حکم آپ کے لیے اصل حکم‘ اسی کا حلال آپ کے لیے حلال‘ اسی کا احرام آپ کے لیے حرام‘ اسی کا قانون آپ کے لیے قانون‘ اسی کی پسند آپ کی پسند‘ اسی کی خوشی آپ کی خوشی اور اسی کی مقرر کردہ راہ حیات آپ کے لیے ضابطہ زندگی ہو‘ حتٰی کہ اس کادوست آپ کا دوست اور اس کا دشمن آپ کا دشمن ہو‘ قطع نظر اس کے کہ خون و نسل سے وہ آپ کا بھائی‘ باپ‘ بیٹا یا کوئی دوسرا عزیز ہو۔
اور کیا اشھد ان محمداً عبدہ و رسولہ کے بار بار کے عہد و اقرار اور شہادت کے بعد اب آپ نے فی الواقع خدا اور رسول سے آزاد ہر دوسری ہدایت و رہنمائی اور قیادت کو چھوڑ کر اپنی زندگی کے ہر گوشے اور ہر مرحلے اور ہر معاملے میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رہنمائی و قیادت‘ اور تعلیمات کو عملاً اختیار کرلیا ہے۔ اور اب آپ کی پوری کی پوری زندگی انہیں کی تعلیمات اور رہنمائی کے مطابق بسر ہو رہی ہے؟ یا پھر زبان سے تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت قبول کرنے کا دعویٰ ہے لیکن عملاً اصطلاحی عبادت کی ظاہری شکل کے سوا باقی زندگی کے بیشتر معاملات میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو نعوذ باللہ کوئی دخل حاصل نہیں؟
اور پھر کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ نے اپنا عقیدہ اور عمل میں فی الواقع ٹھیک اسی مرتبہ اور مقام پر رکھا ہے جس کا اپنی ہر نماز میں بار بار اعلان اور اقرار کرتے ہیں کہ نہ تو نعوذ باللہ آپؐ کو مقام نبوت سے نیچے اتار کر ایک عام دنیوی لیڈر‘ کمانڈر یا مصلح کی حیثیت دے دی ہو‘ جسے ہر شخص چاہے تو اپنی کوشش اور کسب و ریاضت سے حاصل کرسکتا ہو۔ اور نہ آپؐ کو مقام نبوت سے اوپر لے جاکر خدا کا ہم پلہ بنا دیا ہو کہ عام آدمی آپؐ کے عملی اتباع کو اپنے لیے اس وجہ سے ناممکن العمل اور غیر ضروری سمجھنے لگ جائے کہ چہ نسبت خاک رابہ عالم پاک۔ خوب جانچ کر دیکھئے کہ کیا آپ نے اپنے عقیدہ اور عمل میں فی الواقع حضورؐ کی ’’عبد‘‘ اور ’’رسول‘‘ ہونے کی دونوں حیثیتوں میں ٹھیک توازن قائم رکھا ہے؟