اب لفظ ’’اِسلام‘‘ کو لیجیے۔ عربی زبان میں اس کے معنی ہیں سپر ڈال دینا، جھک جانا، اطاعت قبول کر لینا، اپنے آپ کو سپرد کر دینا مگر قرآن محض اِسلام نہیں بولتا بلکہ اَلْاِسْلَاَمْ بولتا ہے جو اس کی خاص اصطلاح ہے۔ اس مخصوص اصطلاحی لفظ سے اس کی مراد خدا کے آگے جھک جانا، اس کی اطاعت قبول کر لینا، اس کے مقابلے میں اپنی آزادی سے دست بردار ہو جانا، اور اپنے آپ کو اس کے حوالے کر دینا ہے۔ اس کی تسلیم واطاعت اور سپردگی وحوالگی کے معنی یہ نہیں ہیں کہ قانونِ طبیعت (law of nature)کے آگے سپر ڈال دے، جیسا کہ بعض لوگوں نے اس کا مفہوم قرار دینے کی کوشش کی ہے۔ نہ اس کے معنی یہ ہیں کہ انسان اپنے تخیل یا اپنے مشاہدات وتجربات سے خدا کی مرضی اور اس کے منشا کا جو تصوّر بطورِ خود اخذ کر لے اسی کی اطاعت کرنے لگے، جیسا کہ کچھ اور لوگوں نے غلطی سے سمجھ لیا ہے بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ خدا نے خود اپنے رسولوں کے ذریعے سے انسان کے لیے جس طریقِ فکر وعمل کی طرف راہ نمائی کی ہے اسے وہ قبول کر لے اور اپنی آزادیٔ فکر وعمل… یا بالفاظِ صحیح تر، آوارگیٔ فکر وعمل… چھوڑ کر اس کی پیروی واطاعت اختیار کر لے۔ اسی چیز کو قرآن ’’الاِسلام‘‘ کے لفظ سے تعبیر کرتا ہے۔ یہ درحقیقت کوئی جدید العہد مذہب نہیں ہے جس کی بِنا اب سے ۱۳۶۳ برس پہلے عرب میں محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ڈالی ہو بلکہ جس روز پہلی مرتبہ اس کرۂ زمین پر انسان کا ظہور ہوا اسی روز خدا نے انسان کو بتا دیا تھا کہ تیرے لیے صرف یہ ’’الاِسلام‘‘ ہی ایک صحیح طرز عمل ہے۔ اس کے بعد دُنیا کے مختلف گوشوں میں وقتاً فوقتاً جو پیغمبر بھی خدا کی طرف سے انسانوں کی راہ نمائی کے لیے مامور ہوئے ہیں اُن سب کی دعوت بھی بلا استثنا اِسی ’’الاِسلام‘‘ کی طرف رہی ہے جس کی طرف بالآخر محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے دُنیا کو دعوت دی۔ یہ اور بات ہے کہ موسیٰ علیہ السلام کے پیروئوں نے بعد میں بہت سی مختلف چیزوں کی آمیزش کرکے ایک نظام ’’یہودیت‘‘ کے نام سے اور مسیح علیہ السلام کے پیروئوں نے ایک دوسرا نظام’’ مسیحیت‘‘ کے نام سے، اور اسی طرح ہندوستان، ایران، چین اور دوسرے ممالک کے پیغمبروں کی امتوں نے مختلف مخلوط ومرکب نظامات دوسرے ناموں سے بنا لیے ہوں۔ لیکن موسیٰؑ اور مسیحؑ اور دوسرے تمام معروف وغیر معروف انبیا علیہم السلام جس دین کی دعوت دینے آئے تھے وہ خالص اِسلام تھا نہ کہ کچھ اور۔