مسلمانوں میں جو لوگ الامام المہدی کی آمد کے قائل ہیں وہ بھی ان متجد دین سے جو اس کے قائل نہیں ہیں، اپنی غلط فہمیوں میں کچھ پیچھے نہیں ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ امام مہدی کوئی اگلے وقتوںکے مولویانہ و صوفیانہ وضع و قطع کے آدمی ہوں گے۔ تسبیح ہاتھ میں لیے یکایک کسی مدرسے یا خانقاہ کے حجرے سے برآمد ہوں گے۔ آتے ہی انا المہدی کا اعلان کریں گے۔ علما اور مشائخ کتابیں لیے ہوئے پہنچ جائیں گے اور لکھی ہوئی علامتوں سے ان کے جسم کی ساخت وغیرہ کا مقابلہ کرکے انھیں شناخت کر لیں گے، پھر بیعت ہو گی اور اعلان جہاد کر دیا جائے گا۔ چلے کھینچے ہوئے درویش اور سب پرانے طرز کے ’’بقیتہ السلف‘‘ ان کے جھنڈے تلے جمع ہوں گے۔ تلوار تو محض شرط پوری کرنے کے لیے برائے نام چلانا پڑے گی۔ اصل میں سارا کام برکت اور روحانی تصرف سے ہو گا۔ پھونکوں اور وظیفوں کے زور سے میدان جیتے جائیں گے۔ جس کافر پر نظر مار دیں گے تڑپ کر بے ہوش ہو جائے گا اور محض بددعا کی تاثیر سے ٹینکوں اور ہوائی جہازوں میں کیڑے پڑ جائیں گے۔
عقیدۂِ ظہور مہدی کے متعلق عام لوگوں کے تصورات کچھ اسی قسم کے ہیں۔ مگر مَیں جو کچھ سمجھا ہوں اس سے مجھے معاملہ بالکل برعکس نظر آتا ہے۔ میرا اندازہ یہ ہے کہ آنے والا اپنے زمانہ میں بالکل جدید ترین طرز کا لیڈر ہو گا۔ وقت کے تمام علومِ جدیدہ پر اسے مجتہدانہ بصیرت حاصل ہو گی۔ زِندگی کے سارے مسائلِ مہمہ کو وہ خوب سمجھتا ہو گا۔ عقلی و ذہنی ریاست، سیاسی تدبر اور جنگی مہارت کے اعتبار سے وہ تمام دُنیا پر اپنا سکہ جما دے گا اور اپنے عہد کے تمام جدیدوں سے بڑھ کر جدید ثابت ہو گا۔ مجھے اندیشہ ہے کہ اس کی ’’جدتوں‘‘ کے خلاف مولوی اور صوفی صاحبان ہی سب سے پہلے شورش برپا کریں گے۔ پھر مجھے یہ بھی امید نہیں کہ اپنی جسمانی ساخت میں وہ عام انسانوں سے کچھ بہت مختلف ہو گا کہ اس کی علامتوں سے اسے تاڑ لیا جائے، نہ میں یہ توقع رکھتا ہوں کہ وہ اپنے مہدی ہونے کا اعلان کرے گا۔ بلکہ شاید اسے خود بھی اپنے مہدیٔ ِ موعود ہونے کی خبر نہ ہو گی اور اس کی موت کے بعد اس کے کارناموں سے دُنیا کو معلوم ہو گا کہ یہی تھا وہ خلافت کو منہاج النبوۃ پر قائم کرنے والا جس کی آمد کا مژدہ سنایا گیا تھا ۔ ({ FR 6709 }) جیسا کہ میں پہلے اشارہ کر چکا ہوں، نبی کے سوا کسی کا یہ منصب نہیں ہے کہ دعوے سے کام کا آغاز کرے اور نہ نبی کے سوا کسی کو یقینی طور پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ کس خدمت پر مامور ہوا ہے۔ مہدویت دعوٰی کرنے کی چیز نہیں، کرکے دکھا جانے کی چیز ہے۔ اس قسم کے دعوے جو لوگ کرتے ہیں اور جو ان پر ایمان لاتے ہیں، میرے نزدیک دونوں اپنے علم کی کمی اور ذہن کی پستی کا ثبوت دیتے ہیں۔
مہدی کے کام کی نوعیت کا جو تصور میرے ذہن میں ہے وہ بھی ان حضرات کے تصور سے بالکل مختلف ہے مجھے اس کے کام میں کرامات و خوارق، کشوف و الہامات اور چلوں اور ’’مجاہدوں‘‘ کی کوئی جگہ نظر نہیں آتی۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ انقلابی لیڈر کو دُنیا میں جس طرح شدید جدوجہد اور کش مکش کے مرحلوں سے گزرنا پڑتا ہے انھی مرحلوں سے مہدی کو بھی گزرنا ہو گا۔ وہ خالص اِسلام کی بنیادوں پر ایک نیا مذہب فکر (school of thougt) پیدا کرے گا۔ ذہنیتوں کو بدلے گا، ایک زبردست تحریک اٹھائے گا جو بیک وقت تہذیبی بھی ہو گی اور سیاسی بھی، جاہلیّت اپنی تمام طاقتوں کے ساتھ اسے کچلنے کی کوشش کرے گی، مگر بالآخر وہ جاہلی اقتدار کو الٹ کر پھینک دے گا اور ایک ایسی زبردست اسلامی اسٹیٹ قائم کرے گا جس میں ایک طرف اِسلام کی پوری روح کارفرما ہو گی اور دوسری طرف سائنٹیفک ترقی اوجِ کمال پر پہنچ جائے گی۔ جیسا کہ حدیث میں ارشاد ہوا ہے ’’اس کی حکومت سے آسمان والے بھی راضی ہوں گے اور زمین والے بھی، آسمان دل کھول کر اپنی برکتوں کی بارش کرے گا اور زمین اپنے پیٹ کے سارے خزانے اگل دے گی۔‘‘
اگر یہ توقع صحیح ہے کہ ایک وقت میں اِسلام تمام دُنیا کے افکار، تمدن اور سیاست پر چھا جانے والا ہے تو ایسے ایک عظیم الشان لیڈر کی پیدائش بھی یقینی ہے جس کی ہمہ گیر و پُرزور قیادت میں یہ انقلاب رونما ہو گا۔ جن لوگوں کو ایسے لیڈر کے ظہور کا خیال سن کر حیرت ہوتی ہے مجھے ان کی عقل پر حیرت ہوتی ہے۔ جب خدا کی اس خدائی میں لینن اور ہٹلر جیسے آئمہ ضلالت کا ظہور ہو سکتا ہے تو آخر ایک امامِ ہدایت ہی کا ظہور کیوں مستبعد ہو؟