Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

اسلام میں قانون سازی کا دائرہ عمل اور اس میں اجتہاد کا مقام
ایک منکر حدیث کے اعتراضات اور ان کا جواب
مسئلہ اجتہاد کے بارے میں چند شبہات
اجتہاد اور اُس کے تقاضے
مسئلہ اجتہاد میں الفاظ اور رُوح کی حیثیت
قانون سازی، شوریٰ اور اجماع
نظامِ اسلامی میں نزاعی امور کے فیصلے کا صحیح طریقہ
سنت ِرسول بحیثیت ِماخذ قانون
اسلام میں ضرورت و مصلحت کا لحاظ اور اس کے اصول و قواعد
دین میں حکمت ِ عملی کا مقام
غیبت کی حقیقت اور اس کے احکام
غیبت کے مسئلے میں ایک دو ٹوک بات
غیبت کے مسئلے میں بحث کا ایک اور رُخ
دو اہم مبحث:
اسلام اور عدل اجتماعی
یتیم پوتے کی وراثت کا مسئلہ
عائلی قوانین کے کمیشن کا سوالنامہ اور اُس کا جواب
اہلِ کتاب کے ذبیحہ کی حِلّت و حُرمت
انسان کے بنیادی حقوق
مسئلہ خلافت میں امام ابوحنیفہؒ کا مسلک حاکمیت
شہادتِ حسین ؑ کا حقیقی مقصد ۱؎
اقوامِ مغرب کا عبرت ناک انجام
دنیائے اِسلام میں اسلامی تحریکات کے لیے طریق کار

تفہیمات (حصہ سوم)

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

اقوامِ مغرب کا عبرت ناک انجام

(یہ مقالہ دراصل ایک اداریہ ہے جو ستمبر ۱۹۳۹ئ کو ترجمان القرآن میں اشاعت کے لیے مصنف نے لکھا تھا۔ اس وقت جنگ عظیم ثانی کی ابتدا ہو چکی تھی۔ اداریے میں چونکہ مغربی اقوام پر تنقید کی گئی تھی اس لیے اس وقت کی حکومت پنجاب نے شائع کرنے کی اجازت نہ دی تھی۔ چنانچہ یہ اداریہ، ترجمان القرآن کی فائل میں محفوظ تھا، ۱۹ سال کے بعد پہلی مرتبہ ترجمان القرآن بابت فروری ۹۱۵۸ئ میں شائع ہوا)
ظَہَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ اَيْدِي النَّاسِ ۔ الروم 41:30
آخر کار وہ فساد جس کا مادّہ مدتوں سے پک رہا تھا، زمین پر پھوٹ پڑا اور اس نے خشکی اور تری اور ہوا سب کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ جن مفسد انسانوں اور متاعِ حیاتِ دنیا کی حریص جماعتوں کے ہاتھ میں اس وقت عالم انسانی کی باگیں ہیں، ان کے کرتوت آخرکار عذابِ الٰہی کی صورت میں نہ صرف خود ان پر مسلّط ہو کر رہے، بلکہ اس دنیا کو بھی انہوں نے آ گھیرا جس نے خدا کی بندگی چھوڑ کر ان مفسدوں کی بندگی قبول کر رکھی ہے۔ اب زمین پر وہ سب کچھ ہو گا جس پر خدا نے لعنت بھیجی ہے۔ بستیاں غارت ہوں گی۔ کھیتیاں اور نسلیں تباہ کی جائیں گی۔ انسان کو انسان بھیڑیوں سے بھی زیادہ درندگی کے ساتھ پھاڑے اور چیرے گا۔ بچوں اور عورتوں اور بوڑھوں اور بیماروں تک کو امان نصیب نہ ہو گی۔ انسان نے صدیوں میں جو کچھ اپنی محنت اور ذہانت سے بنایا ہے وہ آن کی آن میں بگاڑ کر رکھ دیا جائے گا۔ کمزور قوموں کے آدمی زمین کے ہر گوشے سے کھینچ کھینچ کر لائے جائیں گے اور شیاطین مغرب کی قربان گاہِ حرص و ہوس پر ان کو بھیڑوں اور بکریوں کی طرح ذبح کرا دیا جائے گا۔ غریب اور بے بس قوموں کی گاڑھی کمائیاں طرح طرح سے سونتی جائیں گی اور ان کو اس آتش بازی میں پھونک دیا جائے گا جو زمین کی خداوندی کے جھوٹے مدعیوں نے ایک دوسرے کے مقابلے میں شروع کی ہے۔ غرض اب نوعِ انسان کے لیے اپنے اس گناہ کی پوری سزا پانے کا وقت آ گیا ہے کہ اس نے ان سرکشوں کو اپنا مطاع اور پیشوا بنایا جو خدا کو بھولے ہوئے ہیں اور شیطان کی بندگی میں حد سے گزر گئے ہیں۔ وَمَا کَانَ رَبُّکَ لِیُہْلِکَ الْقُرٰی بِظُلْمٍ وَّاَہْلُہَا مُصْلِحُوْنَ۔ ہود 117:11
ابھی اس فسادِ عظیم کو صرف ۲۱ سال ہی گزرے ہیں جس نے پورے چار برس تک دنیا کو تہہ و بالا کر رکھا تھا۔ ایک کروڑ آدمیوں کا ہلاک اور تین کروڑ کا زخمی ہونا، ۱۰ کھرب روپے کے سرمایے پر پانی پھر جانا، ملکوں اور سلطنتوں کا تباہ ہونا اور دنیا کے اس سرے سے اس سرے تک قوموں کی اخلاقی و روحانی اور تمدنی و سیاسی زندگی میں ایک شدید بحرانی کیفیت کا پیدا ہو جانا، یہ اس فتنہ کبریٰ کے نتائج تھے جسے دنیا جنگ ِعظیم کے نام سے یاد کرتی ہے۔ مگر اتنے بڑے ہولناک حادثے سے بھی یورپ کے خدا ناشناس اربابِ سیاست کی آنکھیں نہ کھلیں اور انھوں نے چند ہی سال بعد ایک دوسرے اور عظیم تر فتنے کا جھنڈا بلند کر دیا۔ درآنحالیکہ ابھی پچھلے فساد کے دل دہلا دینے والے نتائج ان کی آنکھوں کے سامنے موجود ہیں۔ یہ دراصل اس بات کا ثبوت ہے کہ ان کے دل کی آنکھیں بالکل اندھی ہو چکی ہیں یہ اپنی روح شیطان کے ہاتھ فروخت کر چکے ہیں اور اب یہ کسی چیز سے عبرت و نصیحت حاصل نہ کریں گے یہاں تک کہ قضائے الٰہی ان کے شر اور ان کی سرکشی کی جڑ کاٹنے کا آخری فیصلہ کر دے اور انھیں خود ان کے ہاتھوں سے اس طرح تباہ و برباد کرا دے کہ یہ آیندہ نسلوں کے لیے افسانہ بن کر رہ جائیں۔ وَکَذٰلِکَ اَخْذُ رَبِّکَ اِذَا اَخَذَ الْقُرٰی وَہِیَ ظَالِمَۃٌ اِنَّ اَخْذَہٗ اَلِیْمٌ شَدِیْدٌ۔ ھود 102:11
یورپ کے مدبّرین سیاست کی امتیازی خصوصیات میں سے ایک یہ ہے کہ ایک طرف تو یہ اندر ہی اندر فتنہ انگیزیاں کرتے رہتے ہیں اور دوسری طرف جب ان کی شرارتوں کا میگزین پھٹنے پر آتا ہے تو ان میں سے ہر ایک اصلاح اور امن پسندی کا مدعی، حق و انصاف کا حامی اور ظلم و زیادتی کا دشمن بن کر اٹھتا ہے اور دنیا کو یقین دلانا چاہتا ہے کہ میں تو صرف خیر و صلاح چاہتا ہوں مگر میرا مد مقابل ظلم و بے انصافی پر تلا ہوا ہے۔ لہٰذا آئو اور میری مدد کرو۔ حقیقت میں تو یہ سب ایک تھیلی کے چٹے بٹے ہیں۔ سب ظلم و فساد کے امام ہیں۔ ان میں سے ہر ایک کا دامن مظلوموں کے خون سے سرخ ہے۔ ہر ایک کا نامہ اعمال ان سب گناہوں سے سیاہ ہے جن کا الزام یہ ایک دوسرے پر لگاتے ہیں لیکن یہ ان کی پرانی عادت ہے کہ جب یہ اپنی مفسدانہ اغراض کے لیے لڑتے ہیں تو اخلاق اور انسانیت اور جمہوریت اور کمزور قوموں کے حقوق کی حمایت کا سراسر جھوٹا دعویٰ لے کر دنیا کو دھوکا دینے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ وہ بہت سے بے وقوف انسان جو ان کے قبضہ قدرت میں ہیں، ان کی لڑائی کو حق اور انصاف کی لڑائی سمجھ کر ان کی ناپاک خواہشات کے حصول میں مدد گار بن جائیں اور وہ بہت سے خوشامدی لوگ جو اپنی ذلیل اغراض کے لیے ان کا ساتھ دینے پر آمادہ ہیں، اپنے آپ کو ایک مقصد ِحق کا حمایتی بنا کر پیش کریں اور سُرخ رو بن جائیں۔
فساد انگیزی کے ساتھ اِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُوْنَ کے ان جھوٹے دعوئوں کی حقیقت پچھلی جنگ میں پوری طرح کُھل چکی ہے۔ جنگ ِعظیم اوّل کی تاریخ آج کسی سے پوشیدہ نہیں۔ سب کو معلوم ہے کہ ایک طرف انگلستان، فرانس، روس اور اٹلی اور دوسری طرف جرمنی اور آسٹریا کی جتھہ بندی کِن اغراض کے لیے ہوئی تھی۔ کس قسم کے مفاد تھے جن کے لیے یہ دونوں جتھے ایک دوسرے کے مقابل لڑنے پر آمادہ ہوئے تھے اور پھر ملکوں کی تقسیم اور سلطنتوں کے بٹوارے کی کیا کیا سازشیں انھوں نے آپس میں کی تھیں۔ مگر کچھ یاد ہے کہ جنگ کے آغاز میں اور جنگ کے دوران میں ہر فریق نے کیسے کیسے بلند بانگ دعوئوں کے ساتھ دنیا کو یہ فریب دینے کی کوشش کی تھی کہ ہم دنیا کو ظلم و ستم کے تسلّط سے بچانے اور ضعیف قوموں کو آزادی کی نعمت سے بہرہ اندوز کرنے کے لیے لڑ رہے ہیں؟
پھر جب لڑائی میں ایک فریق کو فتح نصیب ہوئی تو اس نے کس طرح اپنے وعدوں اور معاہدوں کو پورا کیا؟ اپنی حق پرستی اور انصاف پسندی کی کیسی روشن مثالیں پیش کیں؟ ضعیف قوموں پر آزادی کی نعمت اور مظلوم انسانیت پر عدل کی رحمت کس کس طرح برسائی؟ اس کی شہادت ہندوستان، عراق، شام، فلسطین، مصر، سمرنا، تھریس، تیونس، الجزائر اور مراقش کا ایک ایک ذرّہ دے رہا ہے۔
اب یہ لوگ پھر وہی خرقۂ سالوس پہن کر ہمارے سامنے آئے ہیں۔ کہتے ہیں کہ اس جنگ کے میدان میں ہم کسی خود غرضی کی بنا پر نہیں کودے ہیں بلکہ ان اصولوں کی حفاظت کے لیے کودے ہیں جو تمام عالم انسانی کی فلاح سے تعلق رکھتے ہیں۔ ہمارا مقصد بین الاقوامی عدل اور بین الاقوامی اخلاق کو تباہی سے بچانا ہے۔ ہم یہ اصول دنیا میں قائم کرنا چاہتے ہیں کہ مہذّب انسان اپنے اختلافات کا فیصلہ معقولیت اور استدلال سے کرے نہ کہ حیوانی قوت کے زور سے۔ ہماری خواہش یہ ہے کہ انسانوں کے معاملات میں جنگل کا قانون جاری نہ ہونے پائے یعنی ایسا نہ ہو کہ بلا لحاظ حق و انصاف ہر طاقت ور کی بات کمزور کو ماننی پڑے۔ اگر ہم ان مقاصد عالیہ کے لیے جنگ نہ کریں تو دنیا میں مہذب انسانوں کی زندگی دوبھر ہو جائے گی۔ انسانی روح کے لیے کوئی آزادی باقی نہ رہے گی اور انسانی تہذیب و تمدن کے پرامن نشوونما کا راستہ بند ہو جائے گا کیونکہ ہمارا مدمقابل جبروز ور کی بالاتری قائم کرنے کے لیے جو کچھ کر رہا ہے اس کے کامیاب ہو جانے کے معنی انسانی تہذیب کی کامل بربادی کے ہیں۔
یہ وعظ سن کر بے اختیار منہ سے نکلتا ہے۔
اتنی نہ بڑھا پاکیٔ داماں کی حکایت
دامن کو ذرا دیکھ ذرا بندِ قبا دیکھ
اللہ اللہ! جناب اور بین الاقوامی عدل؟ جناب اور بین الاقوامی اخلاق؟ یہ انسانی روح کی آزادی کس تاریخ سے جناب کی نگاہ میں اس قدر عزیز ہو گئی کہ اس کے لیے آپ اپنا مال اور اپنی جان تک قربان کرنے کے لیے آمادہ ہو گئے؟ آپ نے کب سے یہ اصول تسلیم فرما لیا کہ مہذب انسان اپنے اختلافات کا فیصلہ حیوانی قوت کے بجائے معقولیت اور استدلال سے کرے؟ جنگل کا قانون آپ کے حدودِ اختیار میں کس روز منسوخ ہوا اور کب وہ ساعت سعید آئی کہ کمزور کے مقابلے میں جنابِ والا حق و انصاف کا لحاظ فرمانے لگے؟ فَلَا تُزَكُّوْٓا اَنْفُسَكُمْ۝۰ۭ ہُوَاَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقٰىo النجم 32:53 آپ کے تو نامۂ اعمال کا ورق ورق ان تمام جرائم کی شہادت دے رہا ہے جن کے سدباب کا آج آپ اعلان فرما رہے ہیں۔ آپ کے وسیع مقبوضات گواہ ہیں کہ دنیا میں جنگل کا قانون نافذ کرنے والے سب سے پہلے اور سب سے بڑھ کر آپ ہیں۔ آپ کی جہانگیرانہ تاریخ کا صفحہ صفحہ اس بات کا ثبوت دے رہا ہے کہ بین الاقوامی عدل‘ بین الاقوامی اخلاق کو اپنی تجارتی اور سیاسی اغراض پر قربان کرنے میں آپ نے کبھی دریغ نہیں کیا اور جہاں آپ کی حیوانی قوت کا زور چل سکا وہاں آپ نے کبھی یہ اصول تسلیم نہ کیا کہ مہذب انسان کو اپنے اختلافات کا فیصلہ معقولیت اور استدلال سے کرنا چاہیے۔ پچھلی تاریخ کو چھوڑیئے۔ آج عین اس وقت جب کہ حضور کی زبانِ مبارک سے ان مقاصد عالیہ کا اعلان ہو رہا ہے۔ آپ کے اپنے ہاتھوں سے فلسطین میں وہ سارے مقاصد پامال ہو رہے ہیں جن کی حمایت کا آپ دعویٰ فرماتے ہیں۔ یہ نئے اور پرانے دھبے اپنے دامن پر رکھتے ہوئے جناب کا اظہارِ پاک دامنی اندھوں کو تو دھوکا دے سکتا ہے مگر آنکھوں والے دھوکا نہیں کھا سکتے۔ یہ کاٹھ کی ہنڈیا آخر کب تک چڑھتی رہے گی؟
لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ يَفْرَحُوْنَ بِمَآ اَتَوْا وَّيُحِبُّوْنَ اَنْ يُّحْمَدُوْا بِمَا لَمْ يَفْعَلُوْا فَلَا تَحْسَبَنَّھُمْ بِمَفَازَۃٍ مِّنَ الْعَذَابِ۝۰ۚ آل عمران 188:3
یہ جنگ جواب شروع ہوئی ہے اس کے اسباب کسی سے چھپے ہوئے نہیں ہیں۔ اس کی بنا اسی روز رکھ دی گئی تھی جس روز پچھلی جنگ ِعظیم ختم ہوئی تھی۔ آج جو حق و انصاف اور بین الاقوامی عدل کے مدعی بن کر اٹھے ہیں انھوں نے پچھلی جنگ میں فتح حاصل کرتے ہی دنیا میں ’’جنگل کا قانون‘‘ نافذ کر دیا تھا۔ انھوں نے ملکوں کا اس طرح بٹوارہ شروع کیا جس طرح ڈاکو مال لوٹنے کے بعد آپس میں تقسیم کرتے ہیں۔ انھوں نے قوموں کو بھیڑوں اور بکریوں کی طرح آپس میں بانٹا اور ان کا لین دین کیا۔ وہ اس وقت اپنے دورانِ جنگ کے بلند بانگ دعوے سب بھول گئے اور انھوں نے ٹھیک اسی طرح مغلوب قوموں کے ساتھ برتائو کیا جس طرح جنگل میں کوئی درندہ اپنے شکار کے ساتھ کرتا ہے، یعنی بلا لحاظ حق و انصاف محض طاقت کے بل پر کمزور کو اپنے فیصلے کے آگے جھکنے پر مجبور کرنا۔ انھوں نے زندہ اور احساسِ خودداری رکھنے والی قوموں کے سر اور سینے پر اتنی ٹھوکریں لگائیں اور لگاتے چلے گئے کہ بالآخر وہ جوشِ غضب سے دیوانی ہو گئیں۔ انھوں نے اپنا دماغی توازن کھو دیا اور ان پر ایک شدید انقلابی بحران طاری ہو گیا۔ اسی بحران کا نتیجہ ہے کہ ایک طرف وہ ترکی قوم جو پانسو برس تک مسلم دنیا کے ساتھ گہرے روحانی رابطوں میں بندھی ہوئی تھی، ایک سخت قسم کے قوم پرستانہ مسلک کی پیرو بن گئی اور اب تک اس کا توازن درست نہیں ہو سکا ہے۔ دوسری طرف اسی بحران کی بدولت وہ عظیم الشان جرمن قوم جو دورِ جدید میں سائنس اور فلسفہ اور علوم اجتماع کی علمبردار رہی ہے اور جس کے علمی کارنامے اس عہد کی تاریخ میں سب سے زیادہ درخشاں ہیں، قوم پرستی کے انتہائی سخت جنون میں مبتلا ہو گئی اور اس نے اپنے آپ کو اس جاہلانہ فلسفہ حیات اور اس جابرانہ نظامِ سیاسی کے سپرد کر دیا جس کو معمولی حالات میں دنیا کی کوئی مہذب، تعلیم یافتہ اور صاحب ِعقل و خرد قوم قبول نہیں کر سکتی۔
پس جرمنی میں نازیت کا عروج اور اس پر جبر و قہر و استبداد کے دیوتا کا تسلّط اور اس پر جنگجوئی و جہانگیری کے بھوت کا غلبہ براہِ راست نتیجہ ہے ان لوگوں کی حد سے بڑھی ہوئی حرص و ہوس کا جو آج دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم بین الاقوامی عدل قائم کرنے اور جنگل کے قانون کو مٹا کر اخلاق اور تہذیب کا قانون نافذ کرنے اٹھے ہیں۔ یہ بِمَا کَسَبَتْ اَیْدِیَ النَّاسِ کی تفسیر ہے اور یہ تفسیر اب آگ اور خون سے لکھی جا رہی ہے۔
اور اب بھی یہ دعویٰ سراسر باطل ہے کہ انھوں نے اپنی حرص و ہوس کے نتائج کو محسوس کر لیا ہے اور اس سے ہاتھ اٹھا کر اب یہ صرف اس لیے لڑ رہے ہیں کہ بین الاقوامی عدل قائم ہو۔ بین الاقوامی عدل تو کئی سال سے ان کی آنکھوں کے سامنے پامال ہو رہا ہے۔ چین، حبش، البانیا، آسٹریا، بوہیمیا ،اسپین، میمل، ہر ایک اس کی پامالی کا نوحہ خواں ہے۔ پھر ان میں سے کسی موقع پر انصاف پسندی اور حمایت تہذیب انسانی کی رگ کیوں نہ پھڑکی؟ کیا انسان صرف پولینڈ ہی میں بستے ہیں کہ صرف انھی کو جنگل کے قانون سے بچانے کی ضرورت لاحق ہوئی ہے اور وہ کروڑوں، چینی، حبشی، البانوی اور چیک وغیرہ انسان نہ تھے کہ جنگل کا قانون ان پر ٹھنڈے دل سے نافذ ہو جانے دیا گیا؟
صاف کیوں نہیں کہتے کہ اصل معاملہ مقبوضات ماوراء بحر کا ہے اور خطرہ دراصل یہ ہے کہ پولینڈ پر ہاتھ صاف کرنے کے بعد جرمنی پہلے اپنی ان نو آبادیات کا مطالبہ کرے گا جو پچھلی جنگ میں اس سے چھین لی گئی تھیں اور پھر دنیا کے وسیع عرصۂ حیات میں جہاں اب تک آپ ہی کی کبریائی کا ڈنکا بج رہا ہے، یہ نئی ابھرنے والی طاقت آپ کی برتری کو چیلنج کرے گی۔ لہٰذا آپ چاہتے ہیں کہ اس سے پہلے کہ یہ اس طرف پیش قدمی کرے، دروازے ہی پر اسے کیوں نہ روک دو۔ یہ ہے اصل غرض میدانِ جنگ میں کودنے کی، نہ کہ اس انسانیت کی حفاظت و حمایت جس پر جنگل کا قانون پہلے ہی نافذ ہو چکا ہے اور ڈیڑھ صدی سے نافذ چلا آ رہا ہے۔
پھر جب کہ لڑائی کی اصلی غرض یہ ہے تو دنیا سخت احمق ہو گی اگر وہ اس جنگ کے متعلق یہ سمجھے گی کہ ایک طرف حق ہے اور دوسری طرف باطل۔ حقیقت میں دونوں طرف باطل ہی باطل ہے۔ حق اور انصاف کا کسی فریق کے مقاصد جنگ میں شائبہ تک نہیں۔ دونوں فریق اپنی اپنی اغراض کے لیے لڑ رہے ہیں۔ ایک چاہتا ہے کہ جن انسانوں پر میں جنگل کا قانون نافذ کر چکا ہوں، اب ان پر کوئی دوسرا اس قانون کو نافذ نہ کرنے پائے۔ دوسرا چاہتا ہے کہ جہاں یہ قانون پہلے سے نافذ ہے وہاں اس کا نفاذ ایک دفعہ پھر ہو جائے۔ اس صورتِ حال میں اگر کوئی فریب خوردہ انسان کسی فریق کو برسر حق سمجھتا ہے تو خدا اس کی عقل پر رحم کرے، اور کوئی فریب کار انسان حقیقت واقعہ کو جاننے کے باوجود اپنی ناپاک اغراض پر حق پسندی کا خوشنما پردہ ڈالتا ہے تو خدا اس کا پردہ کھول دے۔
اس عجائب کی دنیا میں شاید اس سے زیادہ عجیب کوئی بات نہیں ہے کہ جہاں ڈیڑھ صدی سے جنگل کا قانون نافذ ہے اور جن لوگوں کے ساتھ معقولیت اور استدلال کے بجائے ہمیشہ حیوانی قوت ہی کے زور سے اختلافات کا فیصلہ کیا جاتا رہا ہے وہاں ٹھیک انھی لوگوں سے آج کہا جا رہا ہے کہ ہم اس جنگل کے قانون اور اس حیوانی طریق عمل کو مٹانے جا رہے ہیں، آئو ہماری مدد کرو۔ جو لوگ خود انسانی آزادی سے محروم اور طاقت کی حکمرانی سے مغلوب ہیں، ان کو پکارا جاتا ہے کہ انسانی آزادی کی حفاظت کے لیے اور طاقت کی حکمرانی ختم کرنے کے لئے اپنی جان و مال قربان کرو۔ اور پھر انھیں بے وقوف بناتے ہوئے ارشاد ہوتا ہے۔
’’یہ اعلیٰ درجے کے اصول (جن کو قائم کرنے کے لیے ہم لڑ رہے ہیں) ہندوستان سے بڑھ کر دنیا میں کہیں قدرو عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھے جاتے اور ہندوستان سے زیادہ کسی نے ان کی حفاظت کو اہمیّت نہیں دی ہے … اور ہمیں پور ابھروسا ہے کہ ایسے وقت میں جب کہ وہ سب کچھ خطرے میں ہے جو انسانی تہذیب کے لیے نہایت قیمتی ہے، ہندوستان طاقت کی حکمرانی کے مقابلے میں انسانی آزادی کی حمایت پر اپنا زور صرف کرے گا اور اس مرتبے کے شایانِ شان اس کام میں حصّہ لے گا جو اسے دنیا کی بڑی قوموں اور تاریخی تہذیبوں میں حاصل ہے۔‘‘
کیا خوب ارشاد ہے! اس کا ایک ایک لفظ اس قابل ہے کہ ’’اخلاقی جسارت‘‘ کی زرّین مثال کے طور پر تاریخ میں محفوظ کر دیا جائے۔
عین اس وقت جب کہ یہ پیغام ہندوستان کو دیا جا رہا تھا، ہندوستان کے کمانڈر انچیف صاحب چیٹ فیلڈر پوٹ پر تقریر کرتے ہوئے فرما رہے تھے کہ ہندوستان کی اصلی سرحدیں ایک طرف ملایا اور سنگاپور ہیں اور دوسری طرف مصر و عدن اور خلیج فارس، یہ ممالک اگر ہندوستان کے دوستوں کی ملکیت میں نہ ہوں تو سمجھو کہ اس ملک کے سینے پر دو طرف سے پستول کی شست بندھی ہوئی ہے۔
دفاع کا یہ نظریہ کہ ایک ملک کی قدرتی سرحدوں سے سینکڑوں ہزاروں میل آگے اس کی سیاسی اور دفاعی سرحدیں قائم کی جائیں اور پھر یہ اطمینان کرنے کے لیے کہ وہ سرحدیں اس ملک کے ’’دوستوں‘‘ کے قبضے میں رہیں، یا تو براہِ راست ان پر قبضہ کر لیا جائے یا ان کی حکومتوں کو اپنے زیر اثر لایا جائے، یہی قیصریت اور جہانگیری کی جان ہے، یہی بِس کی گانٹھ ہے، یہی لڑائیوں کی بنیاد ہے، اسی سے ان مفادات اور واجبات کا کبھی نہ ختم ہونے والا سلسلہ پیدا ہوتا ہے جن کی حفاظت اور بجا آوری کے لیے ایک امپریلسٹ طاقت اپنی حدود سے بڑھتی اور بڑھتی چلی جاتی ہے، یہاں تک کہ اسے پورا اطمینان اس وقت تک نصیب نہیں ہوتا جب تک کہ تمام روئے زمین کو وہ اپنے ’’دوستوں‘‘ کے قبضے میں نہ دیکھ لے۔ کیونکہ جن مقامات کو وہ اپنی سرحد قرار دیتی ہے ان کے تحفظ کے لیے ہزار دو ہزار میل اور آگے ایک نئی سرحد قائم ہوتی ہے اور پھر وہ اپنی حفاظت کا مطالبہ کرتی ہے جس کی خاطر پھر سرحدیں ہزار دو ہزار میل آگے بڑھ جاتی ہیں۔
یہ جہانگیرانہ نظریات اس وقت بھی ان لوگوں کے دماغ میں چکر لگا رہے ہیں جب کہ یہ دنیا کو یقین دلا رہے ہیں کہ ہم ایک دشمن انسانیت کی جنگجوئی کا سر کچلنے جا رہے ہیں۔ اس کے بعد اس امر میں کیا شک باقی رہ جاتا ہے کہ ان میں اور ان کے حریف میں اخلاقی حیثیت سے کوئی فرق نہیں۔ انسانیت کے لیے دونوں میں ایک کو انتخاب کرنے کا کوئی موقع نہیں ہے۔ دونوں کے نظریات ایک، اصول ایک، مقاصد ایک اور طرزِ عمل ایک پھر آخر وجہ ترجیح کیا ہے؟
جو لوگ اپنے کچھ اصول نہیں رکھتے بلکہ حالات کے لحاظ سے شخصی یا قومی اغراض کے لیے سودا کرتے ہیں ان کا راستہ تو تاریکی میں ہے۔ اور وہ اسی راستے کو ٹٹول ٹٹول کر چلیں گے۔ مگر مسلمان کا راستہ بالکل صاف ہے۔ اس کا مسلمان ہونا ہی یہ معنی رکھتا ہے کہ وہ اپنی زندگی کے لیے ایک اصول، ایک ضابطہ، ایک قانون رکھتا ہے دنیا میں خواہ کچھ ہوا کرے، مسلمان کا کام اپنے اصول کی پابندی کرنا ہے۔ اس سے ہٹنے کے معنی ان لوگوں میں جا ملنے کے ہیں جو اصولِ اسلام سے ہٹے ہوئے ہیں۔
ایک بنیادی اور اصولی بات جو مسلمان کے حق میں قرآن نے ہمیشہ کے لیے طے کر دی ہے وہ یہ ہے کہ:
اِنَّ اللہَ اشْتَرٰي مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ اَنْفُسَھُمْ وَاَمْوَالَھُمْ بِاَنَّ لَھُمُ الْجَنَّۃَ۝۰ۭ التوبہ 111:9
اللہ نے مومنوں سے ان کی جان و مال کو جنت کے معاوضے میں خرید لیا ہے۔
یعنی مومن ایمان لانے کے ساتھ ہی خدا کے ہاتھ فروخت ہو چکا۔ اب وہ اپنی جان و مال کا مختار نہیں رہا کہ جہاں چاہے اس بکی ہوئی چیز کو پھر فروخت کر دے یا اسے ضائع کر دے۔ اس کی جان اور مال خدا کی مِلک ہے اور وہ خدا کی طرف سے اس کا امین ہے۔ خدا کی راہ میں اس کے احکام اور قوانین کے مطابق اس امانت کو قربان کر دینا تو اس کا اخلاقی فرض ہے۔ کیونکہ خریدوفروخت کا جو معاملہ وہ پہلے کر چکا ہے اس کا مقتضا یہی ہے کہ یہ متاع اب جس خریدار کی مِلک ہے، اس کا منشا پورا کیا جائے لیکن اگر خدا کے سوا کسی اور کے ہاتھ وہ اسے بیچتا ہے تو گویا فروخت کی ہوئی چیز کو پھر فروخت کرتا ہے جو کھلا ہوا جرم ہے اور اگر وہ خود اپنی مرضی سے اس کو کہیں ضائع کرتا ہے تو خیانت کا مجرم ہے۔
مسلمان نے جو سودا خدا کے ساتھ کیا ہے اور جس سودے کی بنا پر ہی وہ مسلمان بنا ہے اس کی رو سے مسلمان کا فرض یہ ہے کہ جان دینے اور جان لینے کے معاملے میں وہ خدا کے قانون کی پیروی کرے۔ اور خدا کا قانون یہ ہے کہ لاَ تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰہُ اِلاَّ بِالْحَقِّ۔ انسانی جان، جس کو اللہ نے حرام کیا ہے، اس کو ہلاک نہ کرو مگر حق کی خاطر۔ اہلِ ایمان کی تعریف ہی قرآن میں یہ کی گئی ہے کہ لَا یَقْتُلوْنَ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰہُ اِلاَّ بِالْحَقِّ۔ یعنی وہ کسی جان کو جسے اللہ نے حرام کیا ہے حق کے سوا کسی اور وجہ سے ہلاک نہیں کرتے۔ ان دونوں آیتوں میں جان سے مراد ہر شخص کی اپنی جان بھی ہے اور دوسرے انسانوں کی جان بھی۔ یعنی مسلمان حق کے سوا کسی دوسری غرض کے لیے نہ اپنی جان دے گا اور نہ کسی کی جان لے گا۔
پھر حق کی تصریح قرآن یوں کرتا ہے:-
وَقٰتِلُوْھُمْ حَتّٰى لَا تَكُوْنَ فِتْنَۃٌ وَّيَكُوْنَ الدِّيْنُ لِلہِ البقرہ193:2
ان سے جنگ کرو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور جنسِ دین (اطاعت وفرمانبرداری کی پوری جنس) اللہ کے لیے خاص ہو جائے۔
یعنی دنیا میں اللہ کے سوا کسی اور کی بندگی و اطاعت ہونا اور کسی دوسرے کا قانون چلنا، یہ فتنہ ہے اور اس فتنے کو فرو کرنا وہ حق ہے جس کی خاطر مسلمان کو نفس انسانی جیسی محترم چیز کے ضائع اور ہلاک کرنے کا ارتکاب کرنا چاہیے کیونکہ دنیا میں فتنے کا برپا ہونا قتل سے زیادہ برا ہے۔ وَالْفِتْنَۃُ اَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ۔
اسی مطلب کو دوسری جگہ قرآن میں یوں بیان کیا گیا ہے:
اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا يُقَاتِلُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ۝۰ۚ وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا يُقَاتِلُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ الطَّاغُوْتِ
النسائ 76:4
جو مومن ہیں وہ اللہ کے راستے میں لڑتے ہیں اور جو کافر ہیں وہ طاغوت کی راہ میں۔
یہ مسلمان اور کافر کے درمیان بنیادی اور اصولی فرق ہے۔ مسلمان کا کام اس لیے لڑنا ہے کہ اﷲ کا کلمہ بلند ہو یعنی اس کا وہ قانون انسانی زندگی پر حکومت کرے جو اس نے انسانی معاملات میں عدل قائم کرنے کے لیے اپنے انبیا کے ذریعے سے بھیجا ہے۔ بخلاف اس کے کافروں کا کام یہ ہے کہ وہ طاغوت یعنی سرکشی ظلم، زیادتی اور حد جائز سے تجاوز کرنے والوں کی اغراض کے لیے جنگ کریں۔
حدیث میں آیا ہے:
جَآئَ رَجُلٌ اِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ الرُّجُلُ یُقَاتِلُ لِلْمَغْنَمِ، وَالرَّجُلُ یُقَاتِلُ لِلذِّکْرِ، وَالرَّجُلُ یُقَاتِلُ لِیُرٰی مَکَانُہٗ فَمَنْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ؟ قَالَ مَنْ قَاتَلَ لِتَکُوْنَ کَلِمَۃُ اللّٰہِ ہِیَ الْعُلْیَا فَہُوَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ۔
ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے پوچھا کہ کوئی آدمی اس لیے لڑتا ہے کہ اسے مال ہاتھ آئے۔ کوئی اس لیے لڑتا ہے کہ اس کی نام وری ہو۔ کوئی اس لیے لڑتا ہے کہ اس کو ممتاز مرتبہ حاصل ہو۔ ان میں سے کس کی جنگ فی سبیل اللہ ہے؟ فرمایا فی سبیل اللہ تو صرف اس کی جنگ ہے جو اس لیے لڑے کہ اﷲ ہی کا کلمہ بلند ہو۔
دوسری حدیث میں ہے:
جَآئَ رَجُلٌ اِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ مَا الْقِتَالُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَاِنَّ اَحَدَنَا یُقَاتِلُ غَضَبًا وَیُقَاتِلُ حَمِیَّۃً؟ فَرَفَعَ اِلَیْہِ رَاْسَہٗ فَقَالَ مَنْ قَاتَلَ لِتَکُوْنَ کَلِمَۃُ اللّٰہِ ہِیَ الْعُلْیَا فَہُوَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ۔
ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ یا رسول اللہ! وہ کون سی لڑائی ہے جو اللہ کی راہ میں ہو؟ ہم میں سے کوئی تو جوشِ انتقام میں لڑتا ہے اور کوئی حمیّت ِقومی کے جذبے سے! یہ سن کر آپؐ نے سر اٹھایا اور فرمایا جس نے جنگ اس لیے کی کہ اللہ ہی کا بول بالا ہو بس اسی کی جنگ راہِ خدا میں ہے۔
اس کے برعکس جو شخص انسانوں کا بول بالا کرنے کے لیے لڑے اور اس لیے جنگ کرے کہ کچھ انسان دوسرے انسانوں کے مقابلے میں اپنی اغراض کامیابی کے ساتھ پوری کریں۔ اس کے حق میں رسول اﷲ کا ارشاد ہے۔
یَجِیْئُ الرَّجُلُ اٰخِذًا بِیَدِ الرَّجُلِ فَیَقُوْلُ اِنَّ ہٰذَا قَتَلَنِیْ فَیَقُوْلُ اللّٰہُ لِمَ قَتَلْتَہٗ فَیَقُوْلُ لِتَکُوْنَ الْعِزَّۃُ لِفُلاَنٍ فَیَقُوْلُ اِنَّمَا لَیْسَتِ الْعِزَّۃُ لِفُلاَنٍ فَیَبُؤٓئُ بِاِثْمِہٖ۔
قیامت کے روز ایک آدمی دوسرے آدمی کا ہاتھ پکڑے ہوئے آئے گا اور اﷲ سے عرض کرے گا کہ اس نے مجھے قتل کیا تھا۔ اﷲ پوچھے گا تو نے اسے کیوں قتل کیا؟ وہ کہے گا اس لیے کہ فلاں کی عزت و برتری قائم ہو۔ اﷲ جواب دے گا کہ عزت اور برتری اس فلاں کا حق تو نہ تھی۔ پھر اس مقتول کے گناہوں کا بوجھ اس قاتل پر لاد دیا جائے گا۔
یہ ساری تعلیمات صاف اور واضح ہیں۔ جو کچھ ہو رہا ہے اسلامی نقطۂ نظر سے یہ سب فتنہ ہے۔ مسلمان اگر لڑ سکتا ہے تو اس فتنے کو بہ حیثیت مجموعی مٹا دینے اور اللہ کا بول بالا کرنے کے لیے لڑ سکتا ہے رہا یہ کہ وہ خود فتنہ و فساد میں کسی طرف سے حصّہ لے اور کفر کے جھنڈے تلے کفر کا بول بالا کرنے کے لیے جنگ کرے، تو یہ کام مسلمان ہوتے ہوئے وہ نہیں کر سکتا۔ جس کو یہ حرکت کرنی ہو وہ بہتر ہے کہ مسلمان کے نام کو بٹّا لگانے کے بجائے کھلّم کھلا انھی میں جا ملے جن کا وہ بول بالا کرنا چاہتا ہے۔ (ترجمان القرآن۔ جمادی الاولیٰ ۱۳۷۷ھ فروری ۱۹۵۸ء)
٭…٭…٭…٭…٭

شیئر کریں