جب اُن کی حالت یہ ہو گئی تو خدا نے اُن کی معزولی کا بھی فیصلہ کر لیا اور ہندستان کے انتظام کا منصب، پھر نئے امیدواروں کے لیے کھل گیا۔ اس موقع پر چار اُمیدوار میدان میں تھے:
۱۔ مرہٹے ۲۔ سکھ ۳۔ انگریز ۴۔ بعض مسلمان رئیس
آپ خود انصاف کے ساتھ، قومی تعصب کی عینک اُتار کر، اس دَور کی تاریخ اور بعد کے حالات کو دیکھیں گے تو آپ کا دل گواہی دے گا کہ دوسرے امیدواروں میں سے، کسی میں بھی بنائو کی وہ صلاحیتیں نہ تھیں جو انگریزوں میں تھیں اور جتنا بگاڑ انگریزوں میں تھا، اُس سے کہیں زیادہ بگاڑ مرہٹوں، سکھوں اور مسلمان امیدواروں میں تھا۔ جو کچھ انگریزوں نے بنایا، وہ ان میں سے کوئی نہ بناتا اور جو کچھ انھوں نے بگاڑا اُس سے بہت زیادہ یہ امید وار بگاڑ کر رکھ دیتے۔
مطلقاً دیکھیے تو انگریزوں میں، بہت سے پہلوؤں سے، بے شمار برائیاں آپ کو نظر آئیں گی، مگر مقابلتاً دیکھیے تو اپنے ہم عصر حریفوں سے، ان کی برائیاں بہت کم اور اُن کی خوبیاں بہت زیادہ نکلیں گی۔ یہی وجہ ہے کہ خدا کے قانون نے، پھر ایک مرتبہ انسانوں کے اُس من مانے اُصول کو توڑ دیا ،جو انھوں نے بغیر کسی حق کے بنا رکھا ہے کہ: ہر ملک خود ملکیوں کے لیے ہے، خواہ وہ اسے بنائیں یا بگاڑیں۔
اُس نے تاریخ کے اٹل فیصلے سے ثابت کیا کہ نہیں،مالک تو خدا ہے۔ وہی یہ طے کرنے کا حق رکھتا ہے کہ اُس کا انتظام کس کے سپرد کرے اور کس سے چھین لے۔ اُس کا فیصلہ کسی نسلی، قومی یا آبائی حق کی بِنا پر نہیں ہوتا، بلکہ اس بنیاد پر ہوتا ہے کہ مجموعی بھلائی کون سے انتظام میں ہے۔(چنانچہ قرآن پاک میں ارشاد ہوا:)
قُلِ الّٰلھُمَّ مٰلِکَ الْمُلْکِ تُؤْتِی الْمُلْکَ مَنْ تَشَآئُ وَ تَنْزِعُ الْمُلْکَ مِمَّنْ تَشَآئُ وَ تُعِزُّمَنْ تَشَآئُ وَ تُذِلُّ مَنْ تَشَآئُ بِیَدِکَ الْخَیْرُ اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ آل عمران3:26
کہو: خدایا! ملک کے مالک! تو جسے چاہے، حکومت دے اور جس سے چاہے چھین لے، جسے چاہے، عزت بخشے اور جسے چاہے، ذلیل کر دے۔ بھلائی تیرے اختیار میں ہے۔ بے شک تُو ہر چیز پر قادر ہے۔
اس طرح اللہ تعالی ہزاروں میل کے فاصلے سے، ایک ایسی قوم کو لے آیا، جو کبھی یہاں تین چار لاکھ کی تعداد سے زیادہ نہیں رہی اور اس نے یہیں کے ذرائع اور یہیں کے آدمیوں سے یہاں کی ہندو، مسلم، سکھ سب طاقتوں کو زیر کرکے، اس ملک کا انتظام اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ یہاں کے کروڑوں باشندے، اُن مٹھی بھر انگریزوں کے تابع فرمان بن کر رہے۔ ایک ایک انگریز نے تن تنہا، ایک ایک ضلعے پر حکومت کی، بغیر اس کے کہ اس کی قوم کا کوئی دُوسرا فرد، اس کا ہاتھ مضبوط کرنے کے لیے، اس کے پاس موجود ہوتا۔ اس تمام دوران میں ہندستانیوں نے، جو کچھ کیا، پیشِ خدمت کی حیثیت سے کیا، نہ کہ کار فرما کی حیثیت سے۔
ہم سب کو یہ ماننا پڑے گا، اور نہ مانیں گے تو حقیقت کو جھٹلائیں گے کہ اس ساری مدت میں، جب کہ انگریز یہاں رہے، بنائو کا جو کچھ بھی کام ہوا، انگریزوں کے ہاتھوں سے اور ان کے اثر سے ہوا۔ جس حالت میں انھوں نے ہندستان کو پایا تھا، اس کے مقابلے میں آج کی حالت دیکھیے تو آپ اس بات سے انکار نہ کرسکیں گے کہ بگاڑ کے باوجود، بنائو کا بہت سا کام ہوا، جس کے خود اہلِ ملک کے ہاتھوں انجام پانے کی ہر گز توقع نہ کی جا سکتی تھی۔ اس لیے تقدیرِ الٰہی کا وہ فیصلہ غلط نہ تھا، جو اُس نے اٹھارہویں صدی کے وسط میں کر دیا تھا۔