اقامت صلوٰۃ کا منتہائے مقصود ایک ایسے معاشرے کو وجود میں لانا ور مضبوطی سے قائم رکھنا ہے‘ جس کے اندر ہر فرد انفرادی طور پر اور پوری ملت اسلامیہ بحیثیت وعی خدا کی یاد پر مبنی سوسائٹی کا عملی نمونہ ہو۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
اننی انا اللہ لا الٰہ الا انا فاعبدنی و اقم الصلوٰۃ لذکری۔ (۲۰:۱۴)
’’میں ہی اللہ ہوں‘ میرے سوا کوئی خدا نہیں ہے۔ پس تم میری بندگی کرو اور نماز قائم کرو میری یاد کے لیے‘‘
اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں نماز کی اصل غرض بیان فرما دی ہے اور وہ یہ ہے کہ انسان خدا کی یاد سے غافل نہ ہو جائے۔ نماز دن میں تھوڑے تھوڑے وقفہ کے بعد بار بار یاد دلاتی ہے کہ تم آزاد و خود مختار اور شتر بے مہار نہیں ہو بلکہ خدا کی مخلوق اور اس کے بندے ہو اور اپنی ایک ایک حرکت اور اپنے ایک ایک عمل کے لیے اپنے علیم و خبیر خدا کے سامنے جوابدہ ہو۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ نماز کا مقصود ایک ایسے معاشرے کی تعمیر اور قیام ہے جو اس مقصد کے لیے سرگرم عمل ہو کہ:
(1 ) حتی الامکان معاشرے کا کوئی فردخدا سے غافل اور اس کی سامنے جواب دہی کے شعور و احساس سے خالی نہ ہو۔ بلکہ اس کے اندر ہر شخص اس یقین محکم کے ساتھ زندگی بسر کرے کہ وہ خدا کی مخلوق‘ اس کا پروردہ اور اس کا پیدائشی بندہ ہے‘ جو کچھ بھی اس کے قبضہ و تصرت میں ہے‘ سب خدا کا عطیہ و امانت اور اسی کی فرمانبرداری میں صرف کرنے کے لیے ہے‘ اور ایک روز اسے اپنے رب کے روبرو حاضر ہو کر ایک ایک ذرے اور اپنی ایک ایک بات کا حساب دینا ہوگا۔
(2 ) جس ے ہر فرد کی زندگی کا متہائے مقصود یہ ہو کہ وہ جس قیمت پر بھی ہوسکے اپنے علیم و خبیر خدا اور رب عظیم و اعلیٰ کی خوشنودی اور اس کے حضور سرخروئی حاصل کرلے اور اس کے عتاب سے بچ جائے۔ اور اس دنیا میں اسے خواہ کتنی بھی بڑی سے بڑی تکلیف اٹھانی پڑے اور بڑے بڑے فائدے سے محروم ہونا پڑے لیکن وہ کسی کی حق تلفی یا ایذا رسانی کا سبب بن کر مالک یوم الدین کے روبرو جواب دہی کا خطرہ مول نہ لے۔
(3)جس کے افراد اپنے کسی بھائی پر خدا کا فضل دیکھ کر اس سے حسد و عناد میں مبتلا ہونے اور اسے اس سے محروم کرنے کے منصوبے اور بہانے سوچنے کے بجائے زمین و آسمان کے سارے خزانوں کے مالک رب العالمین سے خیر و برکت کی دعا کریں‘ تنگی میں صابر اور فراخی میں خدا کے شکر گزار بندے بن کر رہیں۔ و نشکرک ولا نکفرک۔
(4 ) جس کا ہر فرد اپنے حقوق سے پہلے اور ا سے بڑھ کر اپنے فرائض اور ذمہ داریوں کا خیال کرے اور ان کی ادائیگی کی فکر کرے۔ کیونکہ اسے خدا کے حضور جواب دہی اپنے حقوق کی نہیں‘ اپنے فرائض اور ذمہ داریوں کی کرنی ہے۔
ثم لتسئلن یومئذ عن النعیم۔ (۱۰۲:۸)
’’پھر ضرور اس روز تم سے ان نعمتوں کے بارے میں باز پرس کی جائے گی‘‘
(5)جس میں ہر فرد اور پورا معاشرہ ہدایت و رہنمائی کے لیے بھی اور امداد و استعانت کے لیے بھی اپنے رب سے رجوع کریں۔ ایاک نعبد و ایاک نستعین اور خدا کے نافرمان و سرکش اور مغضوب (زیر عتاب) اور اس کی راہ سے بھٹک جانے والے لوگوں یا ان کے طور طریقوں کے قریب بھی پھٹکنے سے لرزاں و ترساں ہیں۔
(6 ) ایسا معاشرہ جس کے افراد کی زبان و قلم‘ جسم و جان اور جملہ وسائل اور تمام طاقتیں خدا کی نافرمانی اور اس کی ناپسندیدہ چیزوں کو مٹانے اور اس کی اطاعت و بندگی اور پسندیدہ چیزوں کو فروغ دینے کے لیے وقف ہوں۔ التحیات للہ و الصلواۃ و الطیبات نیز و الیک نسعیٰ و نحفد۔
(7) جس میں ہر شخص دوسرے کا بلکہ پوری انسانیت اور مخلوق خدا کا بہی خواہ اور دل و جان سے اس کی سلامتی کا طالب اور اس کے لیے دن رات دعا گو رہتا ہو۔
(8)ایسا معاشرہ جس کا ہر فرد ایسا خوددار‘ جری اور بہادر ہو کہ وہ خدائے بزرگ و برتر کے سوا کسی کے جلال و عظمت سے خائف و مرعوب نہ ہو۔ نہ کسی دوسرے کی غلامی قبول کرنے کے لیے تیار ہو۔ اس کے دل میں ڈر ہو تو صرف خدائے بزرگ و برتر کا اور اسے کسی چیز کا لالچ ہو تو اپنے خالق و پروردگار کی خوشنودی اور انعام کا۔
(9)جس کے افراد کو دین و دنیا کے مختلف پہلوئوں سے کم از کم اتنا روشناس کرا دیا جائے کہ وہ دین حق اور اس کے تعلیم کردہ طرز حیات کو اجمالی طور پر اور روز مرہ کی ضروریات کی حد تک اچھی طرح سمجھ لیں اور ان ے اندر ان سے اس درجہ مناسبت‘ محبت اور یگانگت پیدا ہو جائے اور وہ ان سے حاصل ہونے والی برکات و حسنات کو اس طرح محسوس کرنے لگیں کہ اس طریق زندگی کی طرف رہنمائی کرنے والے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ان کے دل سے بے ساختہ درود و سلام کی صدائیں نکلنے لگیں۔ السلام علیک ایھا النبی و رحمۃ اللہ و برکاتہ اور اللھم صل علیٰ محمد و علیٰ آل محمد‘ اللھم بارک علیٰ محمد و علیٰ ال محمد کی دعائیں اس منظر کی تصویر کشی کرتی ہیں۔
مختصر یہ کہ ایک مسلم معاشرے کی انفرادی اور اجتماعی پوری کی پوری زندگی اور جملہ سرگرمیاں ان مقاصد نماز کی عکاس و ترجمان اور عملی تصویر ہونی چاہئیں۔ اور نماز کو اس کے تمام مشاغل‘ مصروفیتوں‘ عزائم اور آرزوئوں کے لیے روشنی کا مینار ہونا چاہئے۔ اگر یہ صورت نہیں ہے اور نہ اس صورت حال کو پیدا کرنے کے لیے کوئی فکر اور جدوجہد کی جارہی ہے تو ایسا نہ ہو کہ اس حالت کے ذمہ دار لوگوں کو نمازیوں کے اس گروہ میں شامل کر دیا جائے‘ جو اپنی نماز سے غافل‘ اور اس کے تقاضوں سے بے پرواہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو فویل للمصلین الذین ھم عن صلاتھم ساھون۔ (۱۰۷:۴۔۵) ’’تباہی ہے ان نمازیوں کے لیے جو اپنی نمازوں سے غافل اور بے پرواہ ہیں‘‘ کے زمرے میں شامل ہونے سے اپنی پناہ میں رکھے۔
آپ جانتے ہیں کہ پورے قرآن میں کسی ایک جگہ بھی نماز پڑھ لینے کا حکم نہیں دیا گیا بلکہ ہر جگہ اقامت صلوٰۃ ہی کا حکم دیا گیا ہے۔ اور اقامت صلوٰۃ کی یہی وہ حقیقت ہے جس کی بنا پر اسے دین کا ستون قرار دیا گیا ہے۔ (الصلوٰۃ عماد الدین) جسے گرا دینے کے بعد دین قائم نہیں رہ سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ نماز کو مومن اور کافر میں فرق کرنے والی چیز بتایا گیا ہے۔ ورنہ جہاں تک نماز کو محض ’’پڑھ لینے‘‘ کا تعلق ہے‘ یہ کام تو سب منافقین بھی کرتے تھے اور نہ صرف یہ کہ نماز مومنین کے ساتھ باجماعت پڑھتے تھے بلکہ دوسری اصلاحی عبادات اور ظاہری دیندارانہ افعال میں بھی مومنین سے پیچھے نہیں رہتے تھے لیکن جی چیز نے انہیں مسلمانوں کے زمرے سے خارج کرکے منافقین کے گروہ میں شامل کر دیا وہ یہی اقامت صلوٰۃ یعنی اللہ سے اپنے قول و قرار میں مخلص و صادق نہ ہونا اور ان کے مطابق جدوجہد میں یکسوئی اور دل کی گہرائیوں سے شریک نہ ہونا تھا۔
ان سب امور کو سامنے رکھ کر ٹھنڈے دل سے اپنے ایمان و اسلام‘ اپنی نماز اور اس کے مقتضیات اپنی سرگرمیوں اور مصروفیتوں اور اپنے عزائم اور آرزوئوں کا باہم موازنہ کیجئے اور پھر اسلام میں اپنے مقام‘ میدان حشر میں خدا اور رسولؐ کے سامنے اپنی حالت اور آخرت میں اپنا ٹھکانا معلوم کرنے کی کوشش کیجئے۔