مولانا ایک دوسری جگہ فرماتے ہیں:
’’(متَّحدہ وطنی قومیت) کی مخالفت کا فتویٰ صرف اس بنا پر کہ وطنیت کا مفہوم مغرب کی اصطلاح میں آج ایسے اصولوں پر اطلاق کیا جاتا ہے جو کہ ہیئت اجتماعیہ انسانیہ سے تعلق رکھتے ہیں اور وہ یکسر مخالف مذہب ہیں، اسی مفہوم مصطلح سے مخصوص ہوگا۔ مگر یہ مفہوم نہ عام طور پر زندگی کے ذہن نشین ہے اور نہ اس کا کوئی مسلمان دیانت دار قائل ہوسکتا ہے اور نہ ایسے مفہوم کی اس وقت تحریک ہے۔ کانگریس اور اس کے کارکن اس کے محرک نہیں ہیں اور نہ اس کو ہم ملک کے سامنے پیش کر رہے ہیں‘‘۔ (صفحہ ۴۱)
اس دعوے کے ثبوت میں وہی پامال چیز پھر سامنے لائی گئی ہے جس کی حقیقت ایک سے زیادہ مرتبہ کھولی جاچکی ہے، یعنی ’’بنیادی حقوق کا اعلان‘‘ اور اس سے یہ نتیجہ نکالا گیا ہے کہ:
’’خود کانگریس بھی متَّحدہ قومیت کو ہندوستان میں پیدا کرنا چاہتی ہے ۔ اس میں کوئی ایسی بات نہیں چاہتی جس سے اہلِ ہند کے مذاہب یا ان کے کلچر و تہذیب اور پرسنل لاء پر کسی قسم کا ضرر رساں اثر پڑے۔ وہ فقہ انھی امور کو درست کرنا اور سلجھانا چاہتی ہے جو کہ مشترکہ مفاد اور ضروریاتِ ملکیہ سے تعلق رکھتے ہیں اور جن کو پردیسی حکومت نے اپنے قبضہ میں لے کر عام باشندگانِ ہند کو فنا کے گھاٹ اُتار دیا ہے۔ عموماً یہ اُمور وہی ہیں جو کہ نوٹیفائڈ ایریا، میونسپل بورڈوں، ڈسٹرکٹ بورڈوں، کونسلوں، اسمبلیوں وغیرہ میں داخلی اور خارجی حیثیات سے طے کیے جاتے ہیں۔ ان میں کسی قوم یا مذہب میں جذب ہوجانا ملحوظ نظر نہیں ہے‘‘۔ (صفحہ ۵۷)
یہ تحریک ایک روشن نمونہ ہے اس امر کا کہ اس نازک وقت میں کیسی سطح بینی اور سہل انگاری کے ساتھ مسلمانوں کی پیشوائی کی جارہی ہے۔ جن مسائل پر آٹھ کروڑ مسلمانوں کے صلاح و فساد کا انحصار ہے، جن میں ایک ذرا سی چُوک بھی اُن کی آیندہ صورتِ اجتماعی و اَخلاقی کو بگاڑ کر کچھ سے کچھ کرسکتی ہے، اُن کے تصفیہ کو ایسا ہلکا اور آسان کام سمجھ لیا گیا ہے کہ اس کے لیے اتنے مطالعہ اور غوروخوض اور تدبر کی بھی ضرورت نہیں سمجھی جاتی جس کا اہتمام ایک فردِ واحد کو طلاق اور وراثت کا کوئی جزئی مسئلہ بتانے میں کیا جاتا ہے۔ عبارت کا ایک ایک لفظ شہادت دے رہا ہے کہ مولانا نہ تو قومیت کے اصطلاحی مفہوم کو جانتے ہیں، نہ کانگریس کے مقصد و مُدعا کو سمجھتے ہیں، نہ بنیادی حقوق کے معنی پر انھوں نے غور کیا ہے، نہ ان کو خبر ہے کہ جن اجتماعی مجلسوں کا وہ بار بار اس قدر سادگی کے ساتھ ذکر فرما رہے ہیں ان کے حدودِ اختیار وعمل موجودہ دستور کے تحت کن کن راہوں سے اُس دائرے میں نفوذ کرتے ہیں ، جس کوتہذیب و تمدن اور عقائد و اَخلاق کا دائرہ کہا جاتا ہے۔ حد یہ ہے… اور یہ بات مَیں خوب سوچ سمجھ کر کَہ رہا ہوں کہ مولانا بایں ہمہ علم و فضل کلچر، تہذیب، پرسنل لا، وغیرہ الفاظ بھی جس طرح استعمال کر رہے ہیں اس سے صاف ظاہر ہورہا ہے کہ وہ ان کے معنی و مفہوم سے ناآشنا ہیں۔ میری یہ صاف گوئی ان حضرات کو یقینًا بہت بُری معلوم ہوگی جو رجال کو حق سے پہچاننے کے بجائے حق کو رجال سے پہچاننے کے خُوگر ہیں، اور اس کے جواب میں چند اور گالیاں سننے کے لیے میں نے اپنے آپ کو پہلے ہی تیار کرلیا ہے۔ مگر میں جب دیکھتا ہوں کہ مذہبی پیشوائی کی مسند ِ مقدس سے مسلمانوں کی غلط رہنمائی کی جارہی ہے، ان کو حقائق کے بجائے اوہام کے پیچھے چلایا جارہا ہے ، اور خندقوں سے بھری ہوئی راہ کو شاہراہِ مستقیم بتاکر انھیں اس کی طرف دھکیلا جارہا ہے، تو میں کسی طرح اس پر صبر نہیں کرسکتا، کوشش بھی کروں تو میرے اندر اس پر صبر کی طاقت نہیں ہے، لہٰذا مجھے اس پر راضی ہوجانا چاہیے کہ جو کوئی میری صاف گوئی پر ناراض ہوتا ہو تو ہوجائے۔وَاُفَوِّضُ اَمْرِیْ اِلَی اللہِ ۔