Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

اسلامی نظمِ معیشت کے اُصول اور مقاصد(۱)
اسلام نظامِ معیشت کے بنیادی مقاصد
شخصی آزادی کی حفاظت
اخلاقی اصلاح پر زور اور جبر کا کم سے کم استعمال
اسلام نظام معیشت کے بنیادی اصول
شخصی ملکیت محدود حق
مساوی تقسیم کے بجائے منصفانہ تقسیم ِ دولت
کمائی کے ذرائع میں حلال وحرام کی تمیز
استعمالِ دولت کے طریقوں میں حلال و حرام کی تمیز
افراد کی دولت پر معاشرے کے حقوق
زکوٰۃ
زکوٰۃ اور ٹیکس کا فرق
ٹیکس لگانے کے اختیارات
قانونِ وراثت
اسلامی نظامِ معیشت کی خصوصیات
معاشی عوامل اور ان کا تناسب
دوسرے سوال کا جواب
تیسرے سوال کا جواب
چوتھے سوال کا جواب

اسلامی نظمِ معیشت کے اُصول اور مقاصد

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

افراد کی دولت پر معاشرے کے حقوق

پھر اسلام انفرادی دولت پر جماعت کے حقوق عائد کرتا ہے اور مختلف طریقوں سے کرتا ہے۔ قرآن مجید میں آپ دیکھیں گے کہ ذوی القُربیٰ کے حقوق بیان کیے گئے ہیں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ایک آدمی کی کمائی پر اس کی اپنی ذات کے سوا اس کے رشتے داروں کا حق بھی ہے۔ معاشرے کے اندر ایک ایک آدمی کی یہ ذمہ داری ہے کہ اگر وہ اپنی ضرورت سے زائد دولت رکھتا ہے اور اس کے اپنے رشتہ داروں میں ایسے لوگ ہیں جن کو ضرورت سے کم دولت مل رہی ہے تو اس شخص کے اوپر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ اپنی استطاعت کی حد تک ان کی مدد کرے۔ کسی قوم میں ایک ایک خاندان کے لوگ اپنی اس ذمے داری کو محسوس کریں تو بحیثیت مجموعی قوم کے بیشتر خاندانوں کو سنبھالنے کا انتظام ہوسکتا ہے اور کم ہی خاندان ایسے باقی رہ سکتے ہیں جو بیرونی امداد کے محتاج ہوں۔ اسی لیے آپ دیکھیں گے کہ قرآن مجید حقوق العباد میں سب سے پہلے ماں، باپ اور رشتے داروں کے حق کا ذکر کرتا ہے۔
اسی طرح قرآن آدمی کی دولت پر اس کے ہمسایوں کا حق بھی عائد کرتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر محلے، ہر گلی اور ہر کوچے میں جو لوگ نسبتاً خوش حال ہوں وہ ان لوگوں کو سنبھالیں جو اسی محلے اور گلی اور کوچے میں نسبتاً بدحال اور دست گیری کے محتاج پائے جاتے ہوں۔
ان دو ذمہ داریوں کے بعد قرآن ہر کھاتے پیتے آدمی پر یہ ذمے داری بھی ڈالتا ہے کہ وہ اپنی حدِ وسع تک ہر اس شخص کی مدد کرے جو مدد مانگے یا مدد کا محتاج ہو۔ وَفِیْ اَمْوَالِھِمْ حَقٌّ للِّسَّائِلِ وَالْمَحْرُوْمِ، (لوگوں کے مالوں میں حق ہے سائل کا اور محروم کا)۔ سائل وہ ہے جو آپ کے پاس مدد مانگنے کے لیے آتا ہے۔ اس سے مراد یہ پیشہ ور بھیک منگے نہیں ہیں جنھوں نے بھیک کو ہی وسیلۂ معاش بنا رکھا ہے، بلکہ اس سے مراد ایسا شخص ہے جو واقعی حاجت مند ہو اور آپ سے آکر درخواست کرے کہ آپ اس کی مدد کریں۔ آپ یہ اطمینان ضرور کرلیں کہ یہ واقعی حاجت مند ہے۔ لیکن اگر معلوم ہوجائے کہ وہ حاجت مند ہے، اور آپ اپنی ضرورت سے زائد روپیہ بھی رکھتے ہیں جس سے اس کی مدد کرنا آپ کے لیے ممکن ہے، تو پھر آپ کو جاننا چاہیے کہ آپ کے مال میں اس کا بھی حق ہے۔ رہا محروم تو اس سے مراد وہ شخص ہے جو آپ کے پاس مدد مانگنے کے لیے تو نہیں آتا مگر آپ کو معلوم ہے کہ وہ اپنا رزق پانے سے یا پوری طرح پانے سے محروم رہ گیا ہے۔ یہ شخص بھی آپ کے مال میں حقدار ہے۔
ان حقوق کے علاوہ اسلام نے مسلمانوں کو انفاق فی سبیل اللہ کا عام حکم دے کر پورے معاشرے اور ریاست کا حق بھی ان کے مالوں میں قائم کر دیا ہے ۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ مسلمان کو ایک فیاض، فراخ دل، حساس اور ہمدردِ خلائق ہستی ہونا چاہیے، اور اس کو کسی خود غرضانہ جذبے سے نہیں بلکہ محض اللہ کی خوشنودی کے لیے بھلائی کے ہر کام میں، دین اور معاشرے کی ہر ضرورت کو پورا کرنے میں کھلے دل سے اپنی دولت خرچ کرنی چاہیے۔ یہ ایک زبردست اخلاقی روح ہے جسے اسلام اپنی تعلیم اور تربیت سے اور اسلامی معاشرے کے اجتماعی ماحول سے ہر فرد مسلم میں پیدا کرتا ہے تا کہ وہ کسی جبر سے نہیں بلکہ اپنے دل کی رضا سے اجتماعی فلاح میں مددگار ہو۔

شیئر کریں