یہاں تک جو کچھ بیان کیا گیا ہے، یہ نماز کے فوائد و منافع کا صرف ایک پہلو ہے۔ یعنی یہ کہ نماز افراد کس طرح تیار کرتی ہے۔ اب دوسرے پہلو کی طرف توجہ کرنے سے پہلے فرد کی تیاری کے اس پروگرام پر مجموعی نظر ڈال لیجیے۔ اس پروگرام کے پانچ حصے ہیں:
(۱) آدمی کے ذہن میں اس حقیقت کے ادراک کو تازہ رکھنا کہ وہ دنیا میں ایک خود مختار وجود نہیں ہے بلکہ رب العالمین کا بندہ ہے اور یہاں اسی حیثیت سے اسے کام کرنا ہے۔
(۲) بندہ کی حیثیت سے اسے فرض شناس بنانا اور اس میں ادائے فرض کی عادت پیدا کرنا۔
(۳) فرض شناس اور نافرض شناس میں تمیز کرنا اور نافرض شناس افراد کو چھانٹ کر الگ کر دینا۔
(۴) خیالات کا ایک پورا نظام، ایک پوری آئیڈیالوجی آدمی کے ذہن میں اتار دینا اور اسے ایسا مستحکم کرنا کہ ایک پختہ سیرت بن جائے۔
(۵) آدمی میں یہ قوت پیدا کرنا کہ اپنے عقیدے اور اپنے علم و بصیرت کے مطابق جس طرز عمل کو صحیح سمجھتا ہو اس پر عمل کرسکے، اور اپنے جسم و نفس کی تمام طاقتوں سے اس راہ میں کام لے سکے۔ اس کے کیریکٹر میں اس قسم کا ڈھیلا پن نہ رہ جائے کہ صحیح تو سمجھتا ہو ایک طریقہ کو، مگر اپنے نفس کی خواہش سے مجبور ہو کر چلے دوسرے طریقہ پر۔
اسلام جو سوسائٹی بناتا ہے اس کے ایک ایک فرد کو وہ اس طرح نماز کے ذریعہ سے تیار کرتا ہے۔ دس برس کی عمر کے بعد اس سوسائٹی کے ہر لڑکے اور لڑکی پر نماز فرض کر دی گئی ہے۔ اور یہ فرض کسی حال میں اس سے ساقط نہیں ہوتا، اِلاَّیہ کہ وہ اپنے ہوش و حواس میں نہ ہو یا عورت حیض و نفاس کی حالت میں ہو۔ بیماری میں، سفر میں، جنگ کے معرکے تک میں، یہ فرض اسے ادا کرنا پڑے گا۔ اٹھ نہ سکے تو بیٹھ کر پڑھے، بیٹھنا ممکن نہ ہو، لیٹ کر پڑھے، ہاتھ پائوں حرکت نہ کرسکتے ہوں، اشارے سے پڑھے، پانی نہ ملتا ہو مٹی سے تیمم کرکے پڑھے۔ قبلے کی سمت نہ معلوم ہو، جدھر گمان ہو اسی طرف منہ کرکے پڑھے۔ غرض کوئی عذر اس معاملہ میں مسموع نہیں ہے۔ نماز کا وقت جب آجائے تو ہرحال میں مسلمان مامور ہے کہ اس فرض کو ادا کرے۔
بلاخوف تردید کہا جاسکتا ہے کہ اسلام کے سوا دنیا میں کوئی دوسرا اجتماعی نظام ایسا نہیں ہے جس نے اپنے اجزائے ترکیبی، یعنی اپنے افراد کو فردًا فردًا تیار کرنے کا ایسا مکمل انتظام کیا ہو۔ دنیا کے اجتماعی نظامات میں جماعت (community) کی ہیئت ترکیبی بنانے اور افراد کو بیرونی بندشوں سے جکڑنے ہی پر تمام زوردیا جاتا ہے، مگر جماعت کے ایک ایک جز کو اندر سے تیار کرنے اور جماعتی اصولوں کے مطابق بنانے کی کوشش کم کی جاتی ہے۔ حالانکہ جماعت کی حیثیت ایک دیوار کی سی ہے، جو اینٹوں سے بنتی ہے، ایک ایک اینٹ اگر مضبوط نہ ہو تو دیوار بحیثیت مجموعی کم زور ہوگی۔ اسی طرح افراد کی سیرت میں اگر کم زوری ہو، اگر ان کے خیالات جماعتی اصولوں کے مطابق نہ ہوں، اور اگر عملاً وہ جماعتی راہ کے خلاف چلنے کے لیے میلانات رکھتے ہوں تو محض بیرونی بندشیں جماعت کے نظام کو زیادہ عرصے تک قائم نہیں رکھ سکتیں۔ آخر کار بغاوت رونما ہوگی اور نظام ٹوٹ جائے گا۔