Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

اسلامی نظامِ تعلیم
قدیم نظامِ تعلیم
جدید نظامِ تعلیم
ایک انقلابی قدم کی ضرورت
مقصد کا تعین
دین ودنیا کی تفریق مٹا دی جائے
تشکیلِ سیرت
عملی نقشہ
ابتدائی تعلیم
ثانوی تعلیم
اعلیٰ تعلیم
اختصاصی تعلیم
لازمی تدابیر
عورتوں کی تعلیم
رسم الخط
انگریزی کا مقام

اسلامی نظامِ تعلیم

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

اعلیٰ تعلیم

اس کے بعد اعلیٰ تعلیم کو لیجئے۔ اس مرحلے میں ہم چاہتے ہیں کہ اسلامی تعلیم کے لیے ایک عام نصاب ہو جو تمام طلبہ اور طالبات کو پڑھایا جائے خواہ وہ کسی شعبۂ علم کی تعلیم حاصل کر رہے ہوں، اور ایک نصاب خاص ہو جو ہر شعبۂ علم کے طلبہ وطالبات کو ان کے مخصوص شعبے کی مناسبت سے پڑھایا جائے۔
عام نصاب میں میرے نزدیک تین چیزیں شامل ہونی چاہئیں:
۱۔ قرآن مجید، اس طرح پڑھایا جائے کہ ایک طرف طلبہ قرآن کی تعلیمات سے بخوبی واقف ہو جائیں اور دوسری طرف ان کی عربی اس حد تک ترقی کر جائے کہ وہ قرآن کو ترجمے کے بغیر اچھی طرح سمجھنے لگیں۔
۲۔ حدیث کا ایک مختصر مجموعہ جس میں وہ احادیث جمع کی جائیں جو اسلام کے بنیادی اصولوں پر، اس کی اخلاقی تعلیمات پر اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پاک کے اہم پہلوئوں پر روشنی ڈالتی ہوں۔ یہ مجموعہ بھی ترجمے کے بغیر ہونا چاہیے تاکہ طلبہ اس کے ذریعے سے دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ عربی زبان دانی میں بھی ترقی کر سکیں۔
۳۔ اسلامی نظامِ زندگی کا ایک جامع نقشہ، جس میں اسلام کی اعتقادی بنیادوں سے لے کر عبادات، اخلاق، معاشرت، تہذیب وتمدن، معیشت، سیاست اور صلح وجنگ تک ہر پہلو کو وضاحت کے ساتھ معقول اور مدلل طریقے سے بیان کیا جائے، تاکہ ہمارا ہر تعلیم یافتہ نوجوان اپنے دین کو اچھی طرح سمجھ لے اور جس شعبۂ زندگی میں بھی وہ آگے کام کرے، اس میں وہ اسلام کی اسپرٹ، اس کے اصول اور اس کے احکام کو ملحوظ رکھ سکیں۔
خاص نصاب ہر مضمون کی کلاسوں کے لیے اسلامی تصورات کی روشنی میں اور ان کے پس منظر کے ساتھ الگ پڑھایا جائے اور وہ صرف اسی مضمون کے طلبہ کے لیے ہو مثلاً:۔
جو فلسفہ لیں ان کو دوسرے فلسفیانہ نظاموں کے ساتھ اسلامی فلسفہ بھی پڑھایا جائے مگر یہ ملحوظِ خاطر رہے کہ اسلامی فلسفے سے مراد وہ فلسفہ نہیں ہے جو مسلمانوں نے ارسطو اور افلاطون اور فلاطینوس وغیرہ سے لیا اور پھر اس کو انہی خطوط پر آگے بڑھایا۔ اور اس سے مراد وہ علم کلام بھی نہیں ہے جسے یونانی منطق وفلسفہ سے متاثر ہو کر ہمارے متکلمین نے اس غرض کے لیے مرتب کیا تھا کہ اسلامی حقائق کو اپنے وقت کے فلسفیانہ نظریات کی روشنی میں اورمنطق کی زبان میں بیان کریں۔ یہ دونوں چیزیں اب صرف اپنی ایک تاریخی قدر وقیمت رکھتی ہیں۔ انہیں پڑھایا ضرور جائے، مگر اس حیثیت سے کہ یہ تاریخ فلسفہ کے دو اہم ابواب ہیں جن کو مغربی مصنفین بالعموم نظر انداز کرکے طالبانِ علم کے ذہن پر یہ اثر جماتے ہیں کہ دنیا کے عقلی ارتقاء میں قدیم یونانی فلاسفہ سے لے کر آج تک جو کچھ بھی کام کیا ہے صرف یورپ کے لوگوں نے کیا ہے۔ لیکن مسلمان فلسفہ اور متکلمین کا یہ کام نہ ’’اسلامی فلسفہ‘‘ تھا اور نہ اسے اس نام سے آج ہمیں اپنے طلبہ کو پڑھانا چاہیے، ورنہ یہ سخت غلط فہمی کا، بلکہ گمراہی کا موجب ہو گا۔ ’’اسلامی فلسفہ‘‘ دراصل کہیں مرتب شدہ نہیں ہے بلکہ اب اسے نئے سرے سے ان بنیادوں پر مرتب کرنے کی ضرورت ہے جو ہمیں قرآن میں ملتی ہیں۔ قرآن مجید ایک طرف انسانی علم وعقل کے حدود بتاتا ہے۔ دوسری طرف وہ محسوسات کے پیچھے چھپی ہوئی حقیقت کو تلاش کرنے کا صحیح راستہ بتاتا ہے۔ تیسری طرف وہ منطق کے ناقص طرز استدلال کو چھوڑ کر عقلِ عام کے مطابق ایک سیدھا سادا طرز استدلال بتاتا ہے۔ اور ان سب کے ساتھ وہ ایک پورا نظریۂ کائنات وانسان پیش کرتا ہے جس کے اندر ذہن میں پیدا ہونے والے ہر سوال کا جواب موجود ہے۔ ان بنیادوں پر ایک نیا فنِ استدلال، ایک نیا طریقِ تفلسف، ایک نیا فلسفہ مابعد الطبیعت، ایک نیا فلسفہِ اخلاق اور ایک نیا علم النفس مرتب کیا جا سکتا ہے جسے اب مرتب کرانے کی سخت ضرورت ہے تاکہ ہمارے فلسفے کے طلبہ فلسفہ کی قدیم وجدیدبھول بھلیوں میں داخل ہو کر پھنسے کے پھنسے نہ رہ جائیں بلکہ اس سے نکلنے کا راستہ بھی پا لیں اور دنیا کو ایک نئی روشنی دکھانے کے قابل بن سکیں۔
اسی طرح تاریخ کے طلبہ کو دنیا بھر کی تاریخ پڑھانے کے ساتھ اسلامی تاریخ بھی پڑھائی جائے اور فلسفہِ تاریخ کے دوسرے نظریات کے ساتھ اسلام کے فلسفہ تاریخ سے بھی روشناس کیا جائے۔ یہ دونوں مضمون بھی تشریح طلب ہیں، ورنہ مجھے اندیشہ ہے کہ ان کے بارے میں جو عام غلط فہمیاں موجود ہیں، ان کی وجہ سے میرا مدعا آپ کے سامنے واضح نہ ہو گا۔ اسلامی تاریخ کا مطلب بالعموم مسلمان قوموں اور ریاستوں کی تاریخ، یا ان کے تمدن اور علوم وآداب کی تاریخ سمجھا جاتا ہے اور اسلامی فلسفہِ تاریخ کا نام سن کر معاً ایک طالب علم ابنِ خلدون، کی طرف دیکھنے لگتا ہے۔ میں علم تاریخ کے نقطۂ نظر سے ان دونوں چیزوں کی قدر وقیمت کا انکار نہیں کرتا، نہ یہ کہتا ہوں کہ یہ چیزیں پڑھائی نہ جائیں۔ مگر یہ بات واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ اسلامی تاریخ اور مسلمانوں کی تاریخ دو الگ چیزیں ہیں، اور ابن خلدون کے فلسفۂ تاریخ کو اسلام کے فلسفۂ تاریخ سے کوئی دور کا واسطہ بھی نہیں ہے۔ اسلامی تاریخ کا اطلاق دراصل جس چیز پر ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ تاریخ کے دوران میں اسلام کے ان اثرات کا جائزہ لیا جائے جو مسلمان ہونے والی قوموں کے خیالات، علوم، آداب، اخلاق، تمدن، سیاست ، اور فی الجملہ پورے اجتماعی طرزِ عمل پر مترتب ہوئے۔ اور اس کے ساتھ یہ بھی دیکھا جائے کہ ان اثرات کے ساتھ دوسرے غیر اسلامی اثرات کی آمیزش کس کس طرح ہوتی رہتی ہے اور اس آمیزش کے کیا نتائج رونما ہوئے ہیں۔ اسی طرح اسلامی فلسفہِ تاریخ سے مراد درحقیقت قرآن کا فلسفۂِ تاریخ ہے جس میں وہ ہمیں انسانی تاریخ کو دیکھنے کے لیے ایک خاص زاویۂ نگاہ دیتا ہے۔ اس سے نتائج اخذ کرنے کا ایک خاص ڈھنگ بتاتا ہے اور قوموں کے بننے اور بگڑنے کے اسباب پر مفصّل روشنی ڈالتا ہے۔ افسوس ہے کہ اسلامی فلسفے کی طرح اسلامی تاریخ اور اسلامی فلسفہِ تاریخ پر بھی اس وقت تک کوئی کتاب نہیں لکھی گئی ہے جو نصاب کے طور پر پڑھائی جا سکے۔ ان دونوں موضوعات پر اب کتابیں لکھنے اور لکھوانے کی ضرورت ہے کہ اس خلا کو بھرا جا سکے جو ان کے بغیر ہماری تعلیمی تاریخ میں رہ جائے گا۔
جہاں تک علومِ عمرانی (Social Sciences) کا تعلق ہے، ان میں سے ہر ایک میں اسلام کا ایک مخصوص نقطۂ نظر ہے، اور ہر ایک میں وہ اپنے اصول رکھتا ہے‘ لہٰذا ان میں سے ہر ایک کی تعلیم میں اس علم سے متعلق اسلامی تعلیمات کو بھی لازماً شامل ہونا چاہیے۔ مثلاً معاشیات میں اسلامی اصولِ معیشت اور سیاسیات میں اسلام کا سیاسی نظریہ اور نظام وغیرہ۔ رہے فنی علوم، مثلاً انجینئرنگ، طب اور سائنس کے مختلف شعبے، تو ان سے اسلام بحث نہیں کرتا، اس لیے ان میں کسی خاص اسلامی نصاب کی حاجت نہیں ہے۔ ان کے لیے وہی عام نصاب اور اخلاقی تربیّت کافی ہے جس کا ابھی اس سے پہلے میں ذکر کر چکا ہوں۔

شیئر کریں