Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

عرضِ ناشر
تصریح
دیباچہ
باب اوّل: سُنّت کی آئینی حیثیت
ڈاکٹر صاحب کا پہلا خط
جواب
ڈاکٹر صاحب کا دوسرا خط
جواب
سُنّت کیا چیز ہے؟
سُنّت کس شکل میں موجود ہے؟
کیا سُنّت متفق علیہ ہے؟ اور اس کی تحقیق کا ذریعہ کیا ہے؟
چار بنیادی حقیقتیں
دوسرے خط کا جواب
چار نکات
نکتۂ اُولیٰ
رسول اللّٰہa کے کام کی نوعیت
حضور a کی شخصی حیثیت اور پیغمبرانہ حیثیت کا فرق
قرآن سے زائد ہونا اور قرآن کے خلاف ہونا ہم معنی نہیں ہے
کیا سُنّت قرآن کے کسی حکم کو منسوخ کر سکتی ہے؟
نکتۂ دوم
نکتۂ سوم
احادیث کو پرکھنے میں روایت اور درایت کا استعمال
نکتۂ چہارم
اشاعت کا مطالبہ
باب دوم: منصبِ نبوت
ڈاکٹر صاحب کا خط
جواب
۱۔ منصب ِنبوّت اور اس کے فرائض
۲۔ رسول پاکﷺ کے تشریعی اختیارات
۳۔ سُنّت اور اتباع سُنّت کا مفہوم
۴۔رسولﷺ پاک کس وحی کے اتباع پر مامور تھے، اور ہم کس کے اتباع پر مامور ہیں؟
۵۔ مرکزِ ملّت
۶۔ کیا حضورﷺ صرف قرآن پہنچانے کی حد تک نبی تھے؟
۷۔ حضورﷺ کی اجتہادی لغزشوں سے غلط استدلال
۸۔ موہوم خطرات
۹۔ خلفائے راشدین پر بہتان
۱۰۔ کیا حضورﷺ پر قرآن کے علاوہ بھی وحی آتی تھی؟
سُنّت کے متعلق چند مزید سوالات
جواب
وحی پر ایمان کی وجہ
مَااَنْزَلَ اللّٰہُ سے کیا چیز مراد ہے؟
سُنّت کہاں ہے؟
وحی سے مراد کیا چیز ہے؟
محض تکرارِ سوال
ایمان وکفر کا مدار
کیا احکامِ سُنّت میں رد وبدل ہو سکتا ہے؟
باب سوم : اعتراضات اور جوابات
۱۔ بزمِ طلوع اِسلام سے تعلق؟
۲۔ کیا گشتی سوال نامے کا مقصد علمی تحقیق تھا؟
۳۔ رسولﷺ کی حیثیت ِ شخصی و حیثیتِ نبویﷺ
۴۔ تعلیماتِ سنّت میں فرقِ مراتب
۵۔ علمی تحقیق یا جھگڑالو پن؟
۶۔ رسولﷺ کی دونوں حیثیتوں میں امتیاز کا اصول اور طریقہ
۷۔ قرآن کی طرح احادیث بھی کیوں نہ لکھوائی گئیں؟
۸۔ دجل وفریب کا ایک نمونہ
۹۔ حدیث میں کیا چیز مشکوک ہے اور کیا مشکوک نہیں ہے
۱۰۔ ایک اور فریب
۱۱۔ کیا امت میں کوئی چیز بھی متفق علیہ نہیں ہے؟
۱۲۔ سُنّت نے اختلافات کم کیے ہیں یا بڑھائے ہیں؟
۱۳۔ منکرینِ سُنّت اور منکرینِ ختم نبوت میں مماثلت کے وجوہ
۱۴۔ کیا آئین کی بنیاد وہی چیز ہو سکتی ہے جس میں اختلاف ممکن نہ ہو؟
۱۵۔ قرآن اور سُنّت دونوں کے معاملے میں رفعِ اختلاف کی صورت ایک ہی ہے
۱۶۔ ایک دل چسپ مغالطہ
۱۷۔ شخصی قانون اور ملکی قانون میں تفریق کیوں؟
۱۸۔ حیثیت ِرسول ﷺ کے بارے میں فیصلہ کن بات سے گریز
۱۹۔ کیا کسی غیر نبی کو نبی کی تمام حیثیات حاصل ہو سکتی ہیں
۲۰۔ اِسلامی نظام کے امیر اور منکرینِ حدیث کے مرکزِ ملت میں عظیم فرق
۲۱۔ عہد رسالت میں مشاورت کے حدود کیا تھے؟
۲۲۔ اذان کا طریقہ مشورے سے طے ہوا تھا یا الہام سے؟
۲۳۔ حضورﷺ کے عدالتی فیصلے سند وحجت ہیں یا نہیں؟
۲۴۔ کج بحثی کا ایک عجیب نمونہ
۲۵۔ کیا اللہ تعالیٰ بھی غلطی کرسکتا ہے؟
۲۶۔حضورﷺ کے ذاتی خیال اور بربنائے وحی کہی ہوئی بات میں واضح امتیاز تھا
۲۷۔ کیا صحابہؓ اس بات کے قائل تھے کہ حضورﷺ کے فیصلے بدلے جا سکتے ہیں؟
۲۸۔ مسئلہ طلاق ثلاثہ میں حضرت عمرؓ کے فیصلے کی اصل نوعیت
۲۹۔ مؤلفۃ القلوب کے بارے میں حضرت عمرؓ کے استدلال کی نوعیت
۳۰۔ کیا مفتوحہ اراضی کے بارے میں حضرت عمرؓ کا فیصلہ حکم رسولﷺ کے خلاف تھا؟
۳۱۔ وظائف کی تقسیم کے معاملے میں حضرت عمرؓ کا فیصلہ
۳۲۔ کیا قرآن کے معاشی احکام عبوری دور کے لیے ہیں؟
۳۳۔ ’’عبوری دور‘‘ کا غلط مفہوم
۳۴۔ حضورﷺکیا صرف شارح قرآن ہی ہیں یا شارع بھی؟
۳۵۔ بصیرت رسولﷺ کے خداداد ہونے کا مفہوم
۳۶۔ وحی کی اقسام ازروئے قرآن
۳۷۔ وحی غیرمتلو پر ایمان، ایمان بالرسول کا جُز ہے
۳۸۔ کیا وحی غیر متلو بھی جبریل ہی لاتے تھے؟
۳۹۔ کتاب اور حکمت ایک ہی چیز یا الگ الگ
۴۰۔ لفظ تلاوت کے معنی
۴۱۔ کتاب کے ساتھ میزان کے نزول کا مطلب
۴۲۔ ایک اور کج بحثی
۴۳۔ تحویلِ قبلہ والی آیت میں کون سا قبلہ مراد ہے؟
۴۴۔ قبلے کے معاملے میں رسولﷺ کی پیروی کرنے یا نہ کرنے کا سوال کیسے پیدا ہوتا تھا؟
۴۵۔ نبی پر خود ساختہ قبلہ بنانے کا الزام
۴۶۔ لَقَدْ صَدَقَ اللّٰہُ رَسُوْلَہُ الرُّؤْیَا کا مطلب
۴۷۔ کیا وحی خواب کی صورت میں بھی ہوتی ہے؟
۴۸۔ بے معنی اعتراضات اور الزامات
۴۹۔ کیا آنحضورﷺ نے صحابہؓ کو دھوکا دیا تھا؟
۵۰۔ کیا آنحضورﷺ اپنے خواب سے متعلق متردد تھے؟
۵۱۔دروغ گویم بر رُوئے تو
۵۲۔ رُو در رُو بہتان
۵۳۔ نَبَّأَنِیَ الْعَلِیْمُ الْخَبِیْرُ کا مطلب

سنت کی آئینی حیثیت

انکار سنت کا فتنہ اسلامی تاریخ میں سب سے پہلے دوسری صدی ہجری میں اُٹھا تھا اور اس کے اُٹھانے والے خوارج اور معتزلہ تھے۔ خوارج کو اس کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ مسلم معاشرے میں جو انارکی وہ پھیلانا چاہتے تھے، اس کی راہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وہ سنت حائل تھی جس نے اس معاشرے کو ایک نظم و ضبط پر قائم کیا تھا، اور اس کی راہ میں حضور کے وہ ارشادات حائل تھے جن کی موجودگی میں خوارج کے انتہا پسندانہ نظریات نہ چل سکتے تھے۔ اس بنا پر اُنھوں نے احادیث کی صحت میں شک اور سنت کے واجب الاتباع ہونے سے انکار کی دو گونہ پالیسی اختیار کی۔ معتزلہ کو اس کی ضرورت اس لیے لاحق ہوئی کہ عجمی اور یونانی فلسفوں سے پہلا سابقہ پیش آتے ہی اسلامی عقائد اور اصول و احکام کے بارے میں جو شکوک و شبہات ذہنوں میں پیدا ہونے لگے تھے، اُنھیں پوری طرح سمجھنے سے پہلے وہ کسی نہ کسی طرح اُنھیں حل کر دینا چاہتے تھے۔ خود ان فلسفوں میں ان کو وہ بصیرت حاصل نہ ہوئی تھی کہ ان کا تنقیدی جائزہ لے کر ان کی صحت و قوت جانچ سکتے۔ اُنھوں نے ہر اس بات کو جو فلسفے کے نام سے آئی، سراسر عقل کا تقاضا سمجھا اور یہ چاہا کہ اسلام کی عقائد اور اصولوں کی ایسی تعبیر کی جائے جس سے وہ ان نام نہاد عقلی تقاضوں کے مطابق ہو جائیں۔ اس راہ میں پھر وہی حدیث و سنت مانع ہوئی۔ اس لیے اُنھوں نے بھی خوارج کی طرح حدیث کو مشکوک ٹھیرایا اور سنت کو حجت ماننے سے انکار کیا۔ اس کتاب میں مولانا مودودیؒ نے مخالفانہ دلائل کو ایک ایک کرکے اس طرح بیان کیا ہے کہ اس کے بعد کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ سید مودودیؒ کتاب کے آخر میں رقم طراز ہیں: ”ہم نے ایک ایک دلیل کا تفصیلی جائزہ لے کر جو بحث کی ہے اسے پڑھ کر ہر صاحب علم آدمی خود یہ رائے قائم کر سکتا ہے کہ ان دلائل میں کتنا وزن ہے اور ان کے مقابلے میں سنت کے ماخذ قانون اور احادیث کے قابل استناد ہونے پر جو دلیلیں ہم نے قائم کی ہیں وہ کس حد تک وزنی ہیں۔ ہم خاص طور پر خود فاضل جج سے اور مغربی پاکستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اور ان کے رفقا سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ پورے غور کے ساتھ ہماری اس تنقید کو ملاحظہ فرمائیں اور اگر ان کی بے لاگ رائے میں، جیسی کہ ایک عدالت عالیہ کے فاضل ججوں کے رائے بے لاک ہونی چاہیے، یہ تنقید فی الواقع مضبوط دلائل پر مبنی ہو تو وہ قانون کے مطابق کوئی ایسی تدبیر عمل میں لائیں جس سے یہ فیصلہ آئیندہ کے لیے نظیر نہ بن سکے۔ عدالتوں کا وقار ہر ملک کے نظام عدل و انصاف کی جان ہوتا ہے اور بہت بڑی حد تک اسی پر ایک مملکت کے استحکام کا انحصار ہوتا ہے۔ اس وقار کے لیے کوئی چیز اس سے بڑھ کر نقصان دہ نہیں ہے کہ ملک کی بلند ترین عدالتوں کے فیصلے علمی حیثیت سے کمزور دلائل اور ناکافی معلومات پر مشتمل ہوں۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ جب ایمان دارانہ تنقید سے ایسی کسی غلطی کی نشان دہی ہو جائے تو اولین فرصت میں خود حاکمان عدالت ہی اس کی تلافی کی طرف توجہ فرمائیں۔“ حدیث کے حوالے سے شکوک وشبہات کا اظہار کرنے والے افراد کے لیے اس کتاب کو پڑھنا بہت اہم ہے۔

اعتراضات کا تفصیلی جائزہ

ان امور کو نگاہ میں رکھ کر فردًا فردًا ان احادیث کو ملاحظہ فرمائیے جو فاضل جج نے پیش کی ہیں:
O پہلی حدیث میں حضرت عائشہؓ دراصل یہ بتانا چاہتی ہیں کہ نبی ﷺاگرچہ رہبانیت سے بالکل دور تھے، اور اپنی بیویوں سے وہی ربط وتعلق رکھتے تھے جودُنیا کے ہر شوہر کا اپنی بیوی سے ہوتا ہے، لیکن اس کے ساتھ اللّٰہ تعالیٰ سے آپﷺ کا ایسا گہرا تعلق تھا کہ بستر میں بیوی کے ساتھ لیٹ جانے کے بعد بھی بسا اوقات یکایک آپ ﷺ پر عبادت کا شوق غالب آ جاتا تھا اور آپﷺ دُنیا کا لطف وعیش چھوڑ کر اس طرح اٹھ جاتے تھے کہ گویا آپﷺ کو خدا کی بندگی کے سوا کسی چیز سے دل چسپی نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ نبی ﷺ کی حیات طیبہ کا یہ مخفی گوشہ آپﷺ کی اہلیہ کے سوا اور کون بتا سکتا تھا؟ اور اگر یہ روشنی میں نہ آتا تو آپﷺ کے اخلاص للہ کی صحیح کیفیت دُنیا کیسے جانتی؟ مجلسِ وعظ میں خدا کی مَحبّت اور خشیت کا مظاہرہ کون نہیں کرتا۔ سچی اور گہری مَحبّت وخشیّت کا حال تو اسی وقت کھلتا ہے جب معلوم ہو کہ گوشۂ تنہائی میں آدمی کا رنگ زندگی کیا ہوتا ہے۔
O دوسری حدیث میں دراصل بتانے کا مقصود یہ ہے کہ بوسہ بجائے خود وضو توڑنے والی چیز نہیں ہے جب تک کہ غلبۂ جذبات سے کوئی رطوبت خارج نہ ہو جائے۔ عام طور پر لوگ خود بوسے ہی کو ناقضِ وضو سمجھتے تھے اور ان کا خیال یہ تھا کہ اس سے اگر وضو ٹوٹتا نہیں ہے تو کم از کم طہارت میں فرق ضرور آ جاتا ہے۔ حضرت عائشہؓ کو ان کا شک دور کرنے کے لیے یہ بتانا پڑا کہ حضورﷺ نے خود اس کے بعد وضو کیے بغیر نماز پڑھی ہے۔ یہ مسئلہ دوسرے لوگوں کے لیے چاہے کوئی اہمیت نہ رکھتا ہو، مگر جنھیں نماز پڑھنی ہو ان کو تو یہ معلوم ہونے کی بہرحال ضرورت ہے کہ کس حالت میں وہ نماز پڑھنے کے قابل ہوتے ہیں اور کس حالت میں نہیں ہوتے۔
O تیسری حدیث میں ایک خاتون کو اس مسئلے سے سابقہ پیش آ جاتا ہے کہ اگر ایک عورت اسی طرح کا خواب دیکھے جیسا عام طور پر بالغ مرد دیکھا کرتے ہیں تو وہ کیا کرے؟ یہ صورت چوں کہ عورتوں کو بہت کم پیش آتی ہے اس لیے عورتیں اس کے شرعی حکم سے ناواقف تھیں۔ ان خاتون نے جا کر مسئلہ پوچھ لیا اور حضورﷺ نے یہ بتا کر کہ عورت کو بھی مرد ہی کی طرح غسل کرنا چاہیے، نہ صرف ان کو بلکہ تمام عورتوں کو ایک ضروری تعلیم دے دی۔ اس پر اگر کسی کو اعتراض ہے تو گویا وہ یہ چاہتا ہے کہ عورتیں اپنی زندگی کے مسائل کسی سے نہ پوچھیں اور شرم کے مارے خود ہی جو کچھ اپنی سمجھ میں آئے کرتی رہیں۔ رہا حدیث کا دوسرا ٹکڑا تو اس میں ایک خاتون کے اظہارِ تعجب پر حضورﷺ نے یہ علمی حقیقت بیان فرمائی ہے کہ عورت سے بھی اسی طرح مادہ خارج ہوتا ہے جس طرح مرد سے ہوتا ہے۔ اولاد ان دونوں کے ملنے سے پیدا ہوتی ہے اور دونوں میں سے جس کا نطفہ بھی غالب رہتا ہے بچے میں اسی کی خصوصیات زیادہ نمایاں ہوتی ہیں۔ اس حدیث کی جو تفصیلات بخاری و مسلم کے مختلف ابواب میں آئی ہیں ان کو ملا کر دیکھیے۔ ایک روایت میں حضورﷺ کے الفاظ یہ ہیں:
وَھَلْ یَکٔوْنُ الشِّبْہُ اِلاَّ مِنْ قِبَلِ ذَالِکَ اِذَا عَلاَ مَا ئُ ھَا مَائَ الرَّجُلِ اَشْبَہَ الْوَلَدُ اَخَوَالَہ‘ وَاِذَا عَلاَ مَائُ الرَّجُلِ مَائَ ھَا اَشْبَہَ الْوَلَدُ اَعْمَامَہ۔
اور کیا اولاد کی مشابہت اس کے سوا کسی اور وجہ سے ہوتی ہے؟ جب عورت کا نطفہ مرد کے نطفے پر غالب رہتا ہے تو بچہ ننھیال پر جاتا ہے اور جب مرد کا نطفہ اس کے نطفے پر غالب رہتا ہے تو بچہ ددھیال پرجاتا ہے۔
منکرین حدیث نے جہالت یا شرارت سے ان احادیث کو یہ معنی پہنائے ہیں کہ مجامعت میں اگر مرد کا انزال عورت سے پہلے ہو تو بچہ باپ پر جاتا ہے ورنہ ماں پر۔ ہم اس ملک کی حالت پر حیران ہیں کہ یہاں جہلا اور اشرار علانیہ اس قسم کی علمی دغا بازی کر رہے ہیں اور اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ تک تحقیق کے بغیر اس سے متاثر ہو کر اس غلط فہمی میں پڑ رہے ہیں کہ احادیث ناقابل یقین باتوں سے لبریز ہیں۔
O چوتھی حدیث میں حضرت عائشہؓ نے یہ بتایا ہے کہ زوجین ایک ساتھ غسل کر سکتے ہیں اور حضورﷺ نے خود ایسا کیا ہے۔ اس مسئلے کے معلوم کرنے کی ضرورت دراصل ان لوگوں کو پیش آئی تھی جن کے ہاں بیویاں اور شوہر سب نماز کے پابند تھے۔ فجر کے وقت ان کو بارہا اس صورت حال سے سابقہ پیش آتا تھا کہ وقت کی تنگی کے باعث یکے بعد دیگرے غسل کرنے سے ایک کی جماعت چھوٹ جاتی تھی۔ایسی حالت میں ان کو یہ بتانا ضروری تھا کہ دونوں کا ایک ساتھ غسل کر لینا نہ صرف جائز ہے بلکہ اس میں کوئی قباحت بھی نہیں ہے۔ اس سلسلے میں یہ بھی جان لینا چاہیے کہ مدینے میں اس وقت بجلی کی روشنی والے غسل خانے نہیں تھے اور فجر کی نماز اس زمانے میں اول وقت ہوا کرتی تھی، اور عورتیں بھی صبح اور عشا کی نمازوں میں مسجد جایا کرتی تھیں۔ ان باتوں کو نگاہ میں رکھ کر ہمیں بتایا جائے کہ اس حدیث میں کیا چیز ماننے کے لائق نہیں ہے۔
O پانچویں حدیث میں حضرت عائشہؓ نے بتایا ہے کہ خواب سے غسل کس حالت میں واجب ہوتا ہے اور کس حالت میں واجب نہیں ہوتا۔
چھٹی حدیث میں انھوں نے یہ بتایا ہے کہ
O بیداری کی حالت میں غسل کب واجب ہوجاتا ہے۔ ان دونوں حدیثوں کو آدمی اس وقت تک پوری طرح نہیں سمجھ سکتا جب تک اُسے یہ نہ معلوم ہو کہ وجوبِ غسل کے معاملے میں اس وقت صحابہ کرام اور تابعینؒ کے درمیان ایک اختلاف پیدا ہو گیا تھا۔ بعض صحابہ ؓاور ان کے شاگرد اس غلط فہمی میں مبتلا تھے کہ غسل صرف اس وقت واجب ہوتا ہے جب مادہ خارج ہو۔ اس غلط فہمی کو رفع کرنے کے لیے حضرت عائشہؓ کو یہ بتانا پڑا کہ یہ حکم صرف خواب کی حالت کے لیے ہے، بیداری میں مجرد دخول موجب غسل ہو جاتا ہے اور نبی ﷺ کا اپنا عمل اسی طریقے پر تھا۔ ظاہر ہے کہ یہ معاملہ نماز پڑھنے والوں کے لیے بڑی اہمیت رکھتا تھا کیوں کہ جو شخص صرف خروجِ مادہ پر غسل واجب ہونے کا قائل ہوتا، وہ مباشرت بلا اخراجِ مادہ کے بعد نماز پڑھنے کی غلطی کر سکتا تھا، نبیﷺ کا اپنا عمل بتانے ہی سے اس مسئلے کا قطعی فیصلہ ہوا۔
O احادیث نمبر ۷، ۸،۹،۱۰ ،اور ۱۱ کو سمجھنے کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ جنابت اور حیض کی حالت میں انسان کے ناپاک ہونے کا تصور قدیم شریعتوں میں بھی تھا اور شریعتِ محمدیہﷺ میں بھی پیش کیا گیا، لیکن قدیم شریعتوں میں یہودیوں اور عیسائی راہبوں کی مبالغہ آرائی نے اس تصور کو حدِ اعتدال سے اتنا بڑھا دیا تھا کہ وہ اس حالت میں انسان کے وجود ہی کو ناپاک سمجھنے لگے تھے، اور ان کے اثر سے حجاز کے، اور خصوصاً مدینے کے باشندوں میں بھی یہ تصور حدِ مبالغہ کو پہنچ گیا تھا۔ خصوصاً حائضہ عورت کا تو اس معاشرے میں گویا پورا مقاطعہ ہو جاتا تھا۔ چنانچہ اسی کتاب مشکوٰۃ میں، جس سے فاضل جج نے یہ حدیث نقل کی ہیں، باب الحیض کی پہلی حدیث یہ ہے کہ ’’جب عورت کو حیض آتا تھا تو یہودی اس کے ساتھ کھانا پینا اور اس کے ساتھ رہنا سہنا چھوڑ دیتے تھے۔ نبیﷺ نے لوگوں کو بتایا کہ اس حالت میں صرف فعل مباشرت ناجائز ہے، باقی ساری معاشرت اسی طرح رہنی چاہیے جیسی عام حالت میں ہوتی ہے۔‘‘ لیکن اس کے باوجود ایک مدت تک لوگوں میں قدیم تعصبات باقی رہے اور لوگ یہ سمجھتے رہے کہ جنابت اور حیض کی حالت میں انسان کا وجود کچھ نہ کچھ گندا تو رہتا ہی ہے، اور اس حالت میں اس کا ہاتھ جس چیز کو لگ جائے وہ بھی کم از کم مکروہ تو ضرور ہو جاتی ہے۔ ان تصورات کو اعتدال پر لانے کے لیے حضرت عائشہؓ کو یہ بتانا پڑا کہ حضورؐ خود اس حالت میں کوئی اجتناب نہیں فرماتے تھے۔ آپؐ کے نزدیک نہ پانی گندا ہوتا تھا، نہ بستر، نہ جا نماز۔ نیز یہ بھی انھوں نے ہی بتایا کہ حائضہ بیوی کے ساتھ اس کا شوہر صرف ایک فعل نہیں کر سکتا، باقی ہر قسم کا اختلاط جائز ہے۔ ان تعصبات کو حضورﷺ کا اپنا فعل بتا کر حضرت عائشہؓ اور دوسری ازواج مطہرات نے نہ توڑ دیا ہوتا تو آج ہمیں اپنی گھریلو معاشرت میں جن تنگیوں سے سابقہ پیش آ سکتا تھا ان کا اندازہ کیا جا سکتا ہے لیکن اپنے ان محسنوں کا شکریہ ادا کرنے کے بجائے ہم اب بیٹھے یہ سوچ رہے ہیں کہ بھلا نبیﷺ کی بیوی اور ایسی باتیں بیان کرے!

شیئر کریں