Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

شہادتِ امام حسین
مقصد شہادت
ریاست کے مزاج، مقصد اور دستور کی تبدیلی
نقطہ انحراف
انسانی بادشاہی کا آغاز
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا تعطل
اسلامی دستور کے بنیادی اصول
آزادانہ انتخاب
شورائی نظام
اظہار رائے کی آزادی
خدا اور خلق کے سامنے جواب دہی
بیت المال ایک امانت
قانون کی حکومت
حقوق اور مراتب کے لحاظ سے کامل مساوات
امام حسین کا مومنانہ کردار

شہادتِ امام حسین رضی اللہ عنہ

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

اظہار رائے کی آزادی

اس دستور کا تیسرا اُصول یہ تھا کہ لوگوں کو اظہارِ رائے کی پوری آزادی ہو۔ امر بالمعروف ونہی عن المنکر کو اسلام نے ہر مسلمان کا حق ہی نہیں بلکہ فرض قرار دیا تھا۔ اسلامی معاشرے اور ریاست کے صحیح راستہ پر چلنے کا انحصار اس بات پر تھا کہ لوگوں کے ضمیر اور ان کی زبانیں آزاد ہوں، وہ ہر غلط کام پر بڑے سے بڑے آدمی کو ٹوک سکیں اور حق بات برملا کَہ سکیں۔ خلافتِ راشدہ میں صرف یہی نہیں کہ لوگوں کا یہ حق پوری طرح محفوظ تھا، بلکہ خلفائے راشدینؓ اسے ان کا فرض سمجھتے تھے اور اس فرض کے ادا کرنے میں ان کی ہمت افزائی کرتے تھے۔ ان کی مجلسِ شُورٰی کے ممبروں ہی کو نہیں، قوم کے ہر شخص کو بولنے اور ٹوکنے اور خود خلیفہ سے باز پرس کرنے کی مکمل آزادی تھی، جس کے استعمال پر لوگ ڈانٹ اور دھمکی سے نہیں بلکہ داد اور تعریف سے نوازے جاتے تھے۔ یہ آزادی اُن کی طرف سے کوئی عطیہ اور بخشش نہ تھی جس کے لیے وہ قوم پر اپنا احسان جتاتے، بلکہ یہ اسلام کا عطا کردہ ایک دستوری حق تھا جس کا احترام کرنا وہ اپنا فرض سمجھتے تھے، اور اسے بھلائی کے لیے استعمال کرنا ہر مسلمان پر خدا اور رسول ا کا عائد کردہ ایک فریضہ تھا جس کی ادائیگی کے لیے معاشرے اور ریاست کی فضا کو ہر وقت سازگار رکھنا ان کی نگاہ میں فرائض خلافت کا ایک اہم جز تھا۔ لیکن بادشاہی دَور کا آغاز ہوتے ہی ضمیروں پر قفل چڑھا دیے گئے اور منہ بند کر دیے گئے۔ اب قاعدہ یہ ہو گیا ہے کہ زبان کھولو تو تعریف میں کھولو، ورنہ چپ رہو۔ اور اگر تمھارا ضمیر ایسا زور آور ہے کہ حق گوئی سے تم باز نہیں رہ سکتے تو قید یا قتل کے لیے تیار ہو جائو۔ یہ پالیسی رفتہ رفتہ مسلمانوں کو پست ہمت‘ بزدل اور مصلحت پرست بناتی چلی گئی۔ خطرہ مول لے کر سچی بات کہنے والے ان کے اندر کم از کم ہوتے چلے گئے۔ خوشامد اور چاپلوسی کی قیمت مارکیٹ میں چڑھتی اور حق پرستی وراست بازی کی قیمت گرتی چلی گئی۔ اعلیٰ قابلیت رکھنے والے ایمان دار اور آزاد خیال لوگ حکومت سے بے تعلق ہو گئے۔ اور عوام کا حال یہ ہو گیا کہ کسی شاہی خاندان کی حکومت برقرار رکھنے کے لیے ان کے دلوں میں کوئی جذبہ باقی نہ رہا۔ ایک کو ہٹانے کے لیے جب دوسرا آیا تو انھوں نے مدافعت میں انگلی تک نہ ہلائی، اور گرنے والا جب گرا تو انھوں نے ایک لات اور رسید کرکے اسے زیادہ گہرے گڑھے میں پھینکا۔ حکومتیں جاتی اور آتی رہیں، مگر لوگوں نے تماشائی سے بڑھ کر اس آمدورفت کے منظر سے کوئی دل چسپی نہ لی۔

شیئر کریں