Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

اسلامی حکومت کس طرح قائم ہوتی ہے؟
نظامِ حکومت کا طبعی اِرتقا
اصولی حکومت
خلافتِ الٰہیہ
اسلامی انقلاب کی سبیل
خام خیالیاں
اِسلامی تحریک کا مخصوص طریقِ کار

اسلامی حکومت کس طرح قائم ہوتی ہے؟

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

اصولی حکومت

اب ہمیں دیکھنا یہ چاہیے کہ وہ حکومت جسے ہم ’’اسلامی حکومت‘‘ کہتے ہیں اس کی نوعیت کیا ہے؟ اس سلسلہ میں سب سے پہلی خصوصیت جو اسلامی حکومت کو تمام دوسری حکومتوں سے ممتاز کرتی ہے وہ یہ ہے کہ قومیت کا عنصر اس میں قطعی ناپید ہے۔ وہ مجرد ایک اصولی حکومت ہے۔ انگریزی میں اسے مَیں (ideological state)کہوں گا۔ یہ اصولی حکومت وہ چیز ہے جس سے دنیا ہمیشہ ناآشنا رہی ہے۔ قدیم زمانہ میںلوگ صرف خاندانوں یا طبقوں کی حکومت سے واقف تھے۔ بعد میں نسلی اور قومی حکومتوں سے واقف ہوئے۔ محض ایک اصولی حکومت اس بنیاد پر کہ جو اس اصول کو قبول کرے وہ بلا لحاظ قومیت اسٹیٹ کے چلانے میں حصہ دار ہوگا، دنیا کے تنگ ذہن میں کبھی نہ سما سکی۔ عیسائیت نے اس تخیل کا ایک بہت ہی دھندلا سا نقش پایا مگر اسے وہ مکمل نظامِ فکر نہ مل سکا جس کی بنیاد پر کوئی اسٹیٹ تعمیر ہوتی۔ انقلاب فرانس میں اصولی حکومت کے تخیل کی ایک ذرا سی جھلک انسان کی نظر کے سامنے آئی مگر نیشلزم کی تاریکی میں گم ہوگئی، اشتراکیت نے اس تخیل کا خاصا چرچا کیا، حتّٰی کہ ایک حکومت بھی اس کی بنیاد پر تعمیر کرنے کی کوشش کی اور اس کی وجہ سے دنیا کی سمجھ میں یہ تخیل کچھ کچھ آنے لگا تھا، مگر اس کے رگ و پے میں بھی آخر کار نیشلزم گھس گیا۔ ابتدا سے آج تک تمام دنیا میں صرف اسلام ہی وہ مسلک ہے جو قومیت کے ہر شائبہ سے پاک کرکے حکومت کا ایک نظام خالص آئیڈیالوجی کی بنیاد پر تعمیر کرتا ہے اور تمام انسانوں کو دعوت دیتا ہے کہ اس آئیڈیالوجی کو قبول کرکے غیر قومی حکومت بنائیں۔
یہ چیز چونکہ نرالی ہے، اور گرد و پیش کی تمام دنیا اس کے خلاف چل رہی ہے اس لیے نہ صرف غیر مسلم بلکہ خود مسلمان بھی اسے اور اس کے جملہ تضمنات (implications)کو سمجھنے سے قاصر ہو رہے ہیں۔ جو لوگ مسلمانوں کے گھر میں پیدا ہوئے ہیں، مگر جن کے اجتماعی تصورات تمام تر یورپ کی تاریخ، اور یورپ ہی کے سیاسیات اور علوم عمران (social sciences) سے بنے ہیں ان کے ذہن کی گرفت میں یہ تصور کسی طرح نہیں آتا۔ بیرونِ ہند کے وہ ممالک جن کی بیش تر آبادی مسلمان اور سیاسی حیثیت سے آزاد ہے، وہاں اس قسم کے لوگوں کے ہاتھ میں جب زمامِ کار آئی تو انھیں حکومت کا کوئی نقشہ قومی حکومت (national state) کے سوا نہ سوجھا۔ کیوں کہ وہ اسلام کے علمِ شعور اور اصولی حکومت کے تصور سے بالکل خالی الذہن تھے۔ ہندوستان میں جن لوگوں نے اس طرز کی دماغی تربیت پائی ہے وہ بھی اسی مشکل میں مبتلا ہیں۔ اسلامی حکومت کا نام لیتے ہیں مگر بے چارے اپنے ذہن کی ساخت سے مجبور ہیں کہ ہر پھر کر جو نقشہ بھی نظر کے سامنے آتا ہے، قومی حکومت ہی کا آتا ہے، قوم پرستانہ طرز فکر (nationalistic ideology) ہی میں دانستہ و نادانستہ پھنس جاتے ہیں اور جو پروگرام سوچتے ہیں وہ بنیادی طور پر قوم پرستانہ ہی ہوتا ہے۔ ان کے نزدیک پیش نظر مسئلہ کی نوعیت بس یہ ہے کہ ’’مسلمان‘‘ کے نام سے جو ایک ’’قوم‘‘ بن گئی ہے اس کے ہاتھ میں حکومت آجائے یا کم از کم اسے سیاسی اقتدار نصیب ہو جائے۔ اس نصب العین تک پہنچنے کے لیے یہ جتنا بھی دماغ پر زور ڈالتے ہیں، اس کے سوا کوئی طریقہ کار انھیں نظر نہیں آتا کہ دنیا کی قومیں عموماً جو تدابیر اختیار کیا کرتی ہیں، وہی اس قوم کے لیے بھی اختیار کی جائیں جن اجزا سے یہ قوم مرکب ہے، انھیں جوڑ کر ایک ٹھوس مجموعہ بنایا جائے ان میں نیشلزم کا جوش پھونکا جائے، ان کے اندر مرکزی اقتدار ہو، ان کے نیشنل گارڈز منظم ہوں، ان کی ایک قومی ملیشیا تیار ہو، وہ جہاں اکثریت میں ہوں، وہاں اقتدار اکثریت (majority rule)کے مسلم جمہوری اصول پر ان کی قومی اسٹیٹ بن جائیں، اور جہاں ان کی تعداد کم ہو وہاں ان کے ’’حقوق‘‘ کا تحفظ ہو جائے، ان کی انفرادیت اسی طرح محفوظ ہو جس طرح دنیا کے ہر ملک میں ہر قومی اقلیت (national minority)اپنی انفرادیت محفوظ کرنا چاہتی ہے، ملازمتوں میں اور تعلیمی و انتخابی ادارات میں ان کا حصہ مقرر ہو، اپنے نمایندے یہ خود چنیں۔ وزارتوں میں یہ ایک قوم کی حیثیت سے شریک کیے جائیں، وغیر ذالک من القومیات۔ یہ سب باتیں کرتے ہوئے یہ لوگ امت، جماعت، ملت، ملیت، امیر، اطاعتِ امیر اور اسی قسم کے دوسرے الفاظ اسلامی اصطلاحات سے لے کر بولتے ہیں، مگر اساسی فکر کے اعتبار سے یہ سب ان کے لیے مذہب قوم پرستی کی اصطلاحوں کے مترادفات ہیں جو خوش قسمتی سے پرانے ذخیرے سے گھڑے گھڑائے مل گئے ہیں اور غیر اسلامی فکر کو چھپانے کے لیے اسلامی رنگ کے غلاف کا کام دینے لگے ہیں۔
اصولی حکومت کی نوعیت آپ سمجھ لیں تو آپ کو یہ بات سمجھنے میں ذرہ برابر بھی دقت پیش نہ آئے گی کہ اس کی بنا رکھنے کے لیے یہ طرز فکر، یہ اندازِ تحریک، یہ عملی پروگرام نقطۂ آغاز کا بھی کام نہیں دے سکتا، کجا کہ تعمیر کے انجام تک پہنچا سکے، بلکہ زیادہ صحیح یہ ہے کہ اس کا ہر جزو ایک تیشہ ہے جس سے اصولی حکومت کی جڑ کٹ جاتی ہے۔ اصولی حکومت کے تخیل کی تو بنیادہی یہ ہے کہ ہمارے سامنے قومیں اور قومیتیں نہیں صرف انسان ہیں۔ ہم ان کے سامنے ایک اصول اس حیثیت سے پیش کرتے ہیں کہ اس پر تمدن کا نظام اور حکومت کا ڈھانچا تعمیر کرنے میں ان کی اپنی فلاح ہے اور جو اسے قبول کرلے وہ اس نظام کو چلانے میں برابر کا حصہ دار ہے۔ غور کیجیے اس تخیل کو لے کر وہ شخص کس طرح اٹھ سکتا ہے جس کے دماغ، زبان، افعال و حرکات، ہر چیز پر قومیت اور قوم پرستی کا ٹھپا لگا ہوا ہو؟ اس نے تو وسیع تر انسانیت کو اپیل کرنے کا دروازہ پہلے ہی بند کر دیا۔ پہلے ہی قدم پر اپنی پوزیشن کو آپ غلط کرکے رکھ دیا۔ قوم پرستی کے تعصب میں جو قومیں اندھی ہو رہی ہیں، جن کے لڑائی جھگڑوں کی ساری بنیاد ہی قوم پرستی اور قومی ریاستیں ہیں، انھیں انسانیت کے نام پر پکارنے اور انسانی فلاح کے اصول کی طرف دعوت دینے کا آخر یہ کون سا ڈھنگ ہے کہ ہم خود اپنے قومی حقوق کے جھگڑے اور اپنی قومی اسٹیٹ کے مطالبے سے اس دعوت کی ابتدا کریں؟ کس طرح آپ کی عقل یہ بات قبول کرتی ہے کہ مقدمہ بازی سے لوگوں کو روکنے کی تحریک خود ایک مقدمہ عدالت میں دائر کرنے سے شروع کی جاسکتی ہے۔

شیئر کریں