Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

انسان کا معاشی مسئلہ اور اس کا اسلامی حل
جُز پرستی کا فتنہ
اصل معاشی مسئلہ
معاشی انتظام کی خرابی کا اصل سبب
نفس پرستی اور تعیش
سرمایہ پرستی
نظامِ محاربہ
چند سری نظام
اِشتراکیت کا تجویز کردہ حل
نیا طبقہ
نظامِ جبر
شخصیت کا قتل
فاشزم کا حل
اسلام کا حل
بنیادی اصول
حصولِ دولت
حقوقِ ملکیت
اصولِ صَرف
سرمایہ پرستی کا استیصال
تقسیم ِ دولت اور کفالتِ عامہ
سوچنے کی بات

انسان کا معاشی مسئلہ اور اس کا اسلامی حل

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

اصل معاشی مسئلہ

اب اگر ہم اصطلاحی اور فنی پیچیدگیوں سے بچ کر ایک سیدھے سادھے طریقے سے دیکھیں تو انسان کا معاشی مسئلہ ہم کو یہ نظر آتا ہے کہ تمدن کی رفتارِترقی کو قائم رکھتے ہوئے کس طرح تمام انسانوں کو ان کی ضروریاتِ زندگی بہم پہنچنے کا انتظام ہو، اور کس طرح سوسائٹی میں ہر شخص کو اپنی استعداد اور قابلیت کے مطابق ترقی کرنے اور اپنی شخصیت کو نشوونما دینے اور اپنے کمالِ لائق تک پہنچنے کے مواقع حاصل رہیں۔
قدیم ترین زمانے میں انسان کے لیے معاش کا مسئلہ قریب قریب اتنا ہی سہل تھا جتنا حیوانات کے لیے ہے ۔ خدا کی زمین پر بے شمار سامانِ زندگی پھیلا ہوا ہے۔ ہر مخلوق کے لیے جس قدر رزق کی ضرورت ہے ،وہ بافراط مہیا ہے۔ ہر ایک اپنا رزق تلاش کرنے کے لیے نکلتا ہے اور جا کر خزائن رزق میں سے حاصل کرلیتا ہے۔ کسی کو نہ اس کی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے اور نہ اس کا رزق کسی دوسری مخلوق کے قبضے میں ہے۔ تقریباً یہی حالت انسان کی بھی تھی کہ گیا اور قدرتی رزق ، خواہ وہ پھلوں کی شکل میں ہو یا شکار کے جانوروں کی شکل میں ، حاصل کرلیا۔ قدرتی پیداوار سے بدن ڈھانکنے کا انتظام کرلیا۔ زمین میں جہاں موقع دیکھا ،سر چھپانے اور پڑ رہنے کی ایک جگہ بنالی۔
لیکن خدانے انسان کو اس لیے پیدا نہیں کیا تھا کہ وہ زیادہ مدت تک اسی حال میں رہے۔ اس نے انسان کے اندر ایسے فطری داعیات رکھے تھے کہ وہ انفرادیت چھوڑ کر اجتماعی زندگی اختیار کرے اور اپنی صنعت سے اپنے لیے ان ذرائع زندگی سے بہتر ذرائع پیدا کرلے جو قدرت نے مہیا کیے تھے۔ عورت اور مرد کے درمیان دائمی تعلق کی فطری خواہش، انسانی بچے کا طویل مدت تک ماں باپ کی پرورش کا محتاج ہونا، اپنی نسل کے ساتھ انسان کی گہری دلچسپی، اور خونی رشتوں کی محبت، یہ وہ چیزیں تھیں جو اسے اجتماعی زندگی پر مجبور کرنے کے لیے خود فطرت ہی نے اس کے اندر رکھ دی تھیں۔ اسی طرح انسان کا خود رو پیداوار پر قانع نہ ہونا اور زراعت سے اپنے لیے خود غلہ پیدا کرنا، پتوں سے جسم ڈھانکنے پر قانع نہ ہونا اور اپنی صنعت سے اپنے لیے لباس تیار کرنا، غاروں اور بھٹوں میں رہنے پر مطمئن نہ ہونا اور اپنے لیے خود مکان بنانا، اپنی ضروریات کے لیے جسمانی آلات پر اکتفا نہ کرنا اور پتھر، لکڑی، لوہے وغیرہ کے آلات ایجاد کرنا، یہ بھی فطرت ہی نے اس کے اندر ودیعت کیا تھا اور اس کا بھی لازمی نتیجہ یہی تھا کہ وہ رفتہ رفتہ متمدن ہو۔ پس اگر انسان متمدن ہوا تو اس نے کوئی جرم نہیں کیا۔ بلکہ عین اس کی فطرت کا تقاضا اور اس کے خالق کا منشا یہی تھا۔
تمدن کی پیدایش کے ساتھ چند چیزیں ناگزیر تھیں:
ایک یہ کہ انسان کی ضروریاتِ زندگی بڑھیں اور ہر شخص خود اپنی تمام ضروریات فراہم نہ کرسکے بلکہ اس کی کچھ ضرورتیں دوسروں سے اور دوسروں کی اس سے متعلق ہوں۔
دوسرے یہ کہ ضروریاتِ زندگی کا مبادلہ (exchange) عمل میں آئے اور رفتہ رفتہ مبادلۂ اشیا کا ایک واسطہ (medium of exchange) مقرر ہو جائے۔
تیسرے یہ کہ اشیائے ضروریات تیار کرنے کے آلات اور حمل و نقل کے وسائل میں اضافہ ہو اور جتنی نئی چیزیں انسان کے علم میں آئیں ان سب سے وہ فائدہ اٹھاتا چلا جائے۔
چوتھے یہ کہ آدمی کو اس امر کا اطمینان حاصل ہو کہ وہ چیزیں جن کو اس نے خود اپنی محنت سے حاصل کیا ہے، وہ آلات جن سے وہ کام کرتا ہے، وہ زمین جس پر اس نے گھر بنایا ہے، وہ جگہ جس میں وہ اپنے پیشے کا کام کرتا ہے، یہ سب اسی کے قبضے میں رہیں گی اور اس کے بعد ان لوگوں کی طرف منتقل ہوں گی جو دوسروں کی بہ نسبت اس سے قریب تر ہیں۔
اس طرح مختلف پیشوں کا پیدا ہونا، خرید و فروخت، اشیاکی قیمتوں کا تعین، روپے کا معیار قیمت کی حیثیت سے جاری ہونا، بین الاقوامی لین دین اور درآمد برآمد تک نوبت پہنچنا، نئے نئے آلات و وسائل پیدایش (means of production) کا استعمال میں آنا، یہ سب عین مقتضاے فطرت تھا اور ان میں سے کوئی چیز بھی گناہ نہ تھی کہ اب اس سے توبہ کرنے کی ضرورت ہو۔
مزید برآں تمدن کے نشوونما کے ساتھ یہ بھی ضروری تھا کہ:
۱۔ مختلف انسانوں کی قوتوں اور قابلیتوں کے درمیان جو فرق خود فطرت نے رکھا ہے، اس کی وجہ سے بعض انسانوں کو اپنی اصلی ضرورت سے زیادہ کمانے کا موقع مل جائے اور بعض اپنی ضرورت کے مطابق اور بعض اس سے کم کمائیں۔
۲۔ وراثت کے ذریعے سے بھی بعض کو زندگی کا آغاز کرنے کے لیے اچھے وسائل مل جائیں اور بعض کم وسائل کے ساتھ اور بعض بے وسیلہ کار زارِ حیات میں قدم رکھیں۔
۳۔ قدرتی اسباب سے ہر آبادی میں ایسے لوگ موجود رہیں جو کسبِ معاش کے کام میں حصہ لینے اور اسبابِ زندگی کے مبادلہ میں شریک ہونے کے قابل نہ ہوں، مثلاً بچے، بوڑھے، بیمار، معذور وغیرہ۔
۴۔ بعض انسان خدمت لینے والے اور بعض خدمت انجام دینے والے ہوں اور اس طرح آزادانہ صنعت و تجارت اور زراعت کے علاوہ نوکری اور مزدوری کی صورتیں بھی پیدا ہو جائیں۔
یہ سب بھی بجائے خود انسانی تمدن کے فطری مظاہر اور قدرتی پہلو ہیں۔ ان صورتوں کا رونما ہونا بھی اپنی جگہ کوئی برائی یا گناہ نہیں ہے کہ ا ن کے استیصال کی فکر کی جائے۔ تمدن کی خرابی کے دوسرے اسباب سے جو برائیاں پیدا ہوئی ہیں ان کے اصل سبب کو نہ پا کر بہت سے لوگ گھبرا اٹھتے ہیں اور کبھی شخصی ملکیت کو، کبھی روپے کو، کبھی مشین کو، کبھی انسانوں کی فطری نامساوات، اور کبھی خود تمدن ہی کو کوسنے لگتے ہیں۔ لیکن درحقیقت یہ غلط تشخیص اور غلط تجویزِ علاج ہے۔ انسانی فطرت کے تقاضے سے تمدن میں جو نشوونما ہوتا ہے اور اس نشوونما سے فطرتاً جو صورتیں رونما ہوتی ہیں، ان کو روکنے کی ہر کوشش نادانی ہے اور اس کے نتیجے میں فلاح کے بجائے تباہی و نقصان کا زیادہ امکان ہے۔ انسان کا اصل معاشی مسئلہ یہ نہیں ہے کہ تمدن کی ترقی کو کس طرح روکا جائے ، یا اس کے قدرتی مظاہر کو کس طرح بدلا جائے، بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ تمدن کے نشوونما کی فطری رفتار کو برقرار رکھتے ہوئے اجتماعی ظلم و بے انصافی کو کیسے روکا جائے، اور فطرت کا یہ منشا کہ ہر مخلوق کو اس کا رزق پہنچے، کیوں کر پورا کیا جائے، اور ان رکاوٹوں کو کس طرح دور کیا جائے جن کی بدولت بہت سے انسانوں کی قوتیں اور قابلیتیں محض وسائل کے فقدان کی وجہ سے ضائع ہو جاتی ہیں۔

شیئر کریں