اسلام کے اصول پر ہم ان مسائل کو کس طرح حل کرسکتے ہیں؟ اس کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے ایک مرتبہ واضح طور پر اس اصل الجھن کو سمجھ لیا جائے جس سے اس وقت دنیا دو چار ہے اور ہم کو بھی دو چار ہونا پڑ رہا ہے۔
مختصر الفاظ میں وہ الجھن یہ ہے:
اگر ہم بے قید معیشت کے اصول اختیار کرتے ہیں جن کی رُو سے ہر شخص کو بے روک ٹوک یہ موقع حاصل رہتا ہے کہ جس قدر ذرائع پیداوار کو چاہیے اپنے قبضے میں لائے اور جس طرح چاہے اپنے نفع کے لیے سعی و جہد کرے، نیز جن کی رو سے سوسائٹی میں عدل و توازن قائم کرنے کے لیے صرف مقابلہ و مسابقت اور کسر و انکسار کے خود رو قوانین ہی پر اعتماد کرلیا جاتا ہے، تو اس سے سرمایہ داری نظام کی وہ خرابیاں پیدا ہوتی ہیں اور ہماری سوسائٹی کی حد تک جاگیرداری نظام کی بھی وہ بہت سی خرابیاں باقی رہ جاتی ہیں جن کا ذکر اس سے پہلے ہم ’’نظام جاگیرداری‘‘ اور ’’جدید نظام سرمایہ داری‘‘ کے زیر عنوان کرچکے ہیں۔
اور اگر ہم انفرادی ملکیت کے طریقے کو ختم کرکے تمام ذرائع پیداوار پر اجتماعی قبضہ و تصرف قائم کردیتے ہیں، تو بلاشبہ مذکورہ بالا خرابیوں کا تو بڑی حد تک تدارک ہوجاتا ہے مگر اول تو یہ بنیادی تغیر ہی جان و مال کی اس بے دریغ بربادی اور مذہب و اخلاق سے اس کھلی بغاوت کے بغیر نہیں ہوسکتا جس کی مثال روس کے اشتراکی انقلاب میں ہم کو ملتی ہے۔ دوسرے اگر بالفرض یہ تغیر پر امن جمہوری طریقوں سے ہو بھی جائے تو اجتماعی ملکیت کا نظام بہرحال انفرادی آزادی کو قطعی ختم کردیتا ہے۔ جمہوری طریقوں سے سوشلزم قائم کرنا درحقیقت جمہوریت کے ذریعے سے جمہوریت کو ختم کرنا ہے۔ اس لیے کہ جمہوریت تو اس کے بغیر چل ہی نہیں سکتی کہ سوسائٹی میں کم از ک ایک بہت بڑی اکثریت آزاد پیشہ ور لوگوں کی موجود رہے۔ لیکن سوشلزم اس کے برعکس آزاد پیشوں کو ختم کردیتا ہے۔ معیشت کا جو شعبہ بھی اجتماعی نظام میں لیا جائے گا، اس کے تمام کارکن ایسے ہی ہو جائیں گے جیسے سرکاری ملازم۔ ملازمت پیشہ طبقہ میں جتنی کچھ آزادی رائے اور آزادی عمل پائی جاتی ہے ہر شخص اس کو جانتا ہے۔ یہ طریقِ کار جتنا جتنا معیشت میں پھیلتا چلا جائے گا، آزادیِ فکر، آزادیِ گفتار، آزادیِ اجتماع، آزادی تحریر اور آزادی کار کی سرحدیں سکڑتی چلی جائیں گی، یہاں تک کہ جس روز پوری معیشت پورے اجتماعی انتظام میں چلی جائے گی اسی روز ملک کی پوری آبادی سرکاری ملازمین میں تبدیل ہوجائے گی۔ اس طرح کے نظام کی عین فطرت یہی ہے کہ جو گروہ ایک مرتبہ برسر اقتدار آجائے گا وہ پھر ہٹایا نہ جاسکے گا۔
اور اگر ہم انفرادی ملکیت کے نظام کو مٹانے کے بجائے صرف اس پر ایک مضبوط سرکاری تسلط (Government Control) قائم کردیتے ہیں اور پوری قومی معیشت کو ایک مرکزی منصوبہ بندی کے مطابق چلاتے ہیں ، جیسا کہ فاشیت اور نازیت نے کیا، تب بھی نظام سرمایہ داری کی بہت سی خرابیوں کا مداوا تو ہوجاتا ہے۔ مگر انفرادی آزادی کے لیے اتنی ضابطہ بندی بھی مہلک ثابت ہوتی ہے۔ اس کے نتائج عملاً وہی کچھ ہیں جو سوشلزم کے نتائج ہیں۔
اور اگر ہم نظام سرمایہ داری کو اس کی اصل بنیادوں پر قائم رکھتے ہوئے اس کے اندر اس طرح کی اصلاحات کرتے ہیں جیسی اب تک امریکہ اور انگلستان وغیرہ ممالک میں ہوئی ہیں تو ان سے جمہوریت اور انفرادی آزادی تو برقرار رہتی ہے مگر ان بڑی اور اصل خرابیوں میں سے کوئی ایک بھی دور نہیں ہوتی جن کی بدولت نظام سرمایہ داری دنیا کے لیے ایک لعنت اور مصیبت بن چکا ہے۔
گویا ایک طرف کنواں ہے تو دوسری طرف کھائی، اجتماعی فلاح کا انتظام کیا جاتا ہے تو افراد کی آزادی ختم ہوجاتی ہے۔ افراد کی آزادی کو بچایا جاتا ہے تو اجتماعی فلاح غارت ہوجاتی ہے۔ ایسا کوئی نظام زندگی دنیا نہیں پا سکی ہے جس میں صنعتی انقلاب تو اپنی تمام برکات کے ساتھ جوں کا توں چلتا اور بڑھتا رہے اور پھر انفرادی آزادی اور اجتماعی فلاح دونوں بہ یک وقت پورے اعتدال کے ساتھ نبھ جائیں۔ اس قسم کے ایک نظام کی دریافت پر دنیا کا مستقبل معلق ہے۔ اگر وہ نہ ملا تو صنعتی انقلاب ہی کے پستول سے انسان خود کشی کرلے گا اور اگر وہ مل گیا تو جو ملک بھی اس کا ایک کامیاب نمونہ دنیا کے سامنے پیش کردے گا وہی دنیا کا امام بن جائے گا۔