درحقیقت یہ ظلمِ اجتماعی کی وُہ بدترین صورت ہے جو کبھی کسی نمرود، کسی فرعون اور کسی چنگیز خاں کے دَور میں بھی نہ رہی تھی۔ آخر اس چیز کو کون صاحب عقل اجتماعی عدل سے تعبیر کر سکتا ہے کہ ایک شخص یا چند اشخاص بیٹھ کر اپنا ایک اجتماعی فلسفہ تصنیف کر لیں، پھر حکومت پر زبردستی قبضہ کرکے اور اس کے غیر محدود اختیارات سے کام لے کر اس فلسفے کو ایک پورے ملک کے رہنے والے کروڑوں افراد پر زبردستی مسلط کر دیں۔ لوگوں کے اموال ضبط کریں، زمینوں پر قبضہ کریں، کارخانوں کو قومی ملکیت بنائیں اور پورے ملک کو ایک ایسے جیل خانے میں تبدیل کر دیں جس میں تنقید، فریاد، شکایت، استغاثے اور عدالتی انصاف کا ہر دروازہ لوگوں کے لیے مسدود ہو۔ ملک کے اندر کوئی جماعت نہ ہو، کوئی تنظیم نہ ہو، کوئی پلیٹ فارم نہ ہو جس پر لوگ زبان کھول سکیں، کوئی پریس نہ ہو جس میں لوگ اظہارِ خیال کر سکیںاور کوئی عدالت نہ ہو جس کا دروازہ انصاف کے لیے کھٹکھٹاسکیں۔ جاسوسی کا نظام اتنے بڑے پیمانے پر پھیلا دیا جائے کہ ہر ایک آدمی دوسرے آدمی سے ڈرنے لگے کہ کہیں یہ جاسوس نہ ہو، حتّٰی کہ اپنے گھر میں بھی ایک آدمی زبان کھولتے ہوئے پہلے چاروں طرف دیکھ لے کہ کوئی کان اس کی بات سننے اور کوئی زبان اسے حکومت تک پہنچانے کے لیے کہیں پاس ہی موجود نہ ہو۔ پھر جمہوریت کا فریب دینے کے لیے انتخابات کرائے جائیں، مگر پوری کوشش کی جائے کہ اس فلسفے کی تصنیف کرنے والوں سے اختلاف رکھنے والا کوئی شخص ان انتخابات میں حصہ نہ لے سکے، اور نہ کوئی ایسا شخص ان میں دخیل ہو سکے جو خود اپنی کوئی رائے بھی رکھتا ہو اور اپنا ضمیر فروخت کرنے والا بھی نہ ہو۔
بالفرض اس طریقے سے اگر معاشی دولت کی مساوی تقسیم ہو بھی سکے…… درآں حالیکہ آج تک کوئی اشتراکی نظام ایسا نہیں کر سکا ہے …… تب بھی کیا عدل محض معاشی مساوات کا نام ہے؟ مَیں یہ سوال نہیں کرتا کہ اس نظام کے حاکموں اور محکوموں کے درمیان بھی معاشی مساوات ہے یا نہیں؟ مَیں یہ نہیں پوچھتا کہ اس نظام کا ڈکٹیٹر اور اس کے اندر رہنے والا ایک کسان کیا اپنے معیارِ زندگی میں مساوی ہیں؟ مَیں صرف یہ پوچھتا ہوں کہ اگر ان سب کے درمیان واقعی پوری معاشی مساوات قائم بھی ہو جائے تو کیا اس کا نام اجتماعی عدل ہو گا؟ کیا عدل یہی ہے کہ ڈکٹیٹر اور اس کے ساتھیوں نے جو فلسفہ گھڑا ہے اسے تو وُہ پولیس، فوج اور جاسوسی نظام کی طاقت سے بالجبر ساری قوم پر مسلط کر دینے میں بھی آزاد ہوں۔ مگر قوم کا کوئی فرد اُن کے فلسفے پر، یا اس کی تنفیذ کے کسی چھوٹے سے چھوٹے جزوی عمل پر محض زبان سے ایک لفظ نکالنے تک میں آزاد نہ ہو؟ کیا یہ عدل ہے کہ ڈکٹیٹر اور اس کے چند مٹھی بھر حامی اپنے فلسفے کی ترویج کے لیے تمام ملک کے ذرائع ووسائل استعمال کرنے اور ہر قسم کی تنظیمات بنانے کے حق دار ہوں، مگر ان سے مختلف رائے رکھنے والے دو آدمی بھی مل کر کوئی تنظیم نہ کر سکیں، کسی مجمع کو خطاب نہ کر سکیں، اور کسی پریس میں ایک لفظ بھی شائع نہ کرا سکیں؟ کیا یہ عدل ہے کہ تمام زمین داروں اور کارخانہ داروں کو بے دخل کرکے پورے ملک میں صرف ایک ہی زمین دار اور کارخانہ دار رہ جائے جس کا نام حکومت ہو، اور وُہ حکومت چند گنے چنے آدمیوں کے ہاتھ میں ہو، اور وُہ آدمی ایسی تمام تدابیر اختیار کر لیں جن سے پوری قوم بالکل بے بس ہو جائے اور حکومت کے اختیارات کا ان کے ہاتھ سے نکل کر دوسروں کے ہاتھوں میں چلا جانا قطعی ناممکن ہو جائے؟ انسان اگر محض پیٹ کا نام نہیں ہے، اور انسانی زندگی اگر صرف معاش تک محدود نہیں ہے، تو محض معاشی مساوات کو عدل کیسے کہا جا سکتا ہے؟ زندگی کے ہر شعبے میں ظلم وجور قائم کرکے، اور انسانیت کے ہر رُخ کو دبا کر، صرف معاشی دولت کی تقسیم میں لوگوں کو برابر بھی کر دیا جائے، اور خود ڈکٹیٹر اور اس کے ساتھی بھی اپنے معیارِ زندگی میں لوگوں کے برابر ہو کر رہیں، تب بھی اس ظُلمِ عظیم کے ذریعہ سے یہ مساوات قائم کرنا اجتماعی عدل قرار نہیں پا سکتا، بلکہ یہ، جیسا کہ ابھی مَیں آپ سے عرض کر چکا ہوں، وُہ بدترین اجتماعی ظلم ہے جس سے تاریخِ انسانی کبھی اس سے پہلے آشنا نہ ہوئی تھی۔