مسلمانوں میں جب اسلامی نظام قائم کرنے کا احساس پیدا ہو تو انہیں خود اس کی فکر ہوگی کہ ہمیں منظم ہو کر کام کرنا چاہئے۔ اس وقت ان کے سامنے تحریک اسلامی کے نصب العین اور طریق کار اور اس کے کام کو پیش کرکے ان سے متعارف کرا دیا جائے اور انہیں بتا دیا جائے کہ ہم یہ کام کر رہے ہیں اگر ہمارے اس کام اور طریق کار سے اطمینان و اتفاق ہے تو ہمارے ساتھ شریک ہو جائیے‘ اگر یہ نہیں اور کسی دوسری جگہ بھی آپ کے علم میں یہ کام ہو رہا ہے‘ اور وہاں آپ کو اطمینان ہے تو وہاں شریک ہو جائیے اور اگر یہ بھی نہیں تو پھر اپنے جیسے ہم خیال لوگوں کے ساتھ مل کر اس کام کے لیے اپنے آپ کو منظم کیجئے۔ بہرحال اقامت دین کے لیے جماعتی طریق پر منظم جدوجہد کے بغیر نہ دین کو برپا کیا جاسکتا ہے‘ نہ اس کا منشاء پورا ہوتا ہے اور نہ خدا کے حضور کوئی مسلمان اپنے اس دینی فریضہ سے بری الذمہ ہوسکتا ہے۔
ظاہر بات ہے کہ اس وقت جب کہ پوری دنیا پر باطل کا غلبہ اور کافرانہ نظام زندگی قاہرانہ قوت کے ساتھ چھایا ہوا ہے‘ اس کو ہٹا کر اس کی جگہ دین حق (نظام اطاعت الٰہی) کو قائم کرنا کوئی کھیل نہیں ہے۔ یہ انتہائی مشکل اور جان جوکھوں کاکام ہے۔ اس میں جان و مال بلکہ ہر چیز کے نقصان کا خطرہ ہے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے ان نقصانات ہی کو اس منزل کے نشانات راہ بتایا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے:
ولنبلونکم بشئی من الخوف والجوع و نقص من الاموال والانفس و الثمرات ویشرالصبرین۔ (البقرہ: ۱۵۵)
’’ہم ضرور ہی تمہیں خوف و خطر‘ فقر و فاقہ‘ جان و مال کے اور پھلوں کے نقصانات میں مبتلا کرکے تمہاری آزمائش کریں گے‘ جو لوگ اس کے باوجود ثابت قدم رہیں‘ ان کے لیے (ان کے رب کی طرف سے عنایات اور رحمت کی) بشارت ہے‘‘
اور اس کی وجہ یہ بتائی کہ:
ام حسبتم ان تدخلوا الجنۃ ولما یعلم اللہ الذین جاھدوا منکم و یعلم الصبرین۔ (ال عمران:۱۴۳)
’’کیا تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ یوں ہی جنت میں چلے جائو گے حالانکہ ابھی اللہ نے یہ تو دیکھا ہی نہیں کہ تم میں سے کون وہ لوگ ہیں جو فی الواقع اس کی راہ میں جانیں لڑانے والے اور اس کی خاطر صبر کرنے والے ہیں‘‘
نیز یہ کہ:
احسب الناس ان یترکوا ان یقولوا امنا وھم لا یفتنون و لقد فتنا الذین من قبلھم فلیسلعلمن اللہ الذین صدقوا ولیعلمن الکذبین۔ (العنکبوت: ۲۔۳)
’’کیا لوگ اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ محض (زبان سے) کہہ دینے سے کہ ہم ایمان لے آئے‘ چھوڑ دئیے جائیں گے اور انہیں آزمایا نہیں جائے گا؟ حالانکہ ان سے پہلے (سب) لوگوں کی آزمائش کی گئی؟ یقینا اللہ یہ معلوم کر کے رہے گا کہ کون اس سے اپنے عہد میں صادق ہیں اور کون محض زبانی جمع خرچ کرنے والے ہیں‘‘
ام حسبتم ان تترکوا ولما یعلم اللہ الذین جاھدوا منکم ولم یتخذوا من دون اللہ ولا رسولہ ولا المومنین ولیجۃ۔ (التوبہ: ۱۶)
’’کیا تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ بس یوں ہی چھوڑ دئیے جائو گے حالانکہ ابھی اللہ نے یہ تو دیکھا ہی نہیں کہ تم میں سے کون لوگ واقعی اللہ کی راہ میں لڑ جانے والے ہیں اور انہوں نے فی الواقع اللہ اور اس کے رسول اور مومنین کے علاوہ کسی اور کو اپنا جگری دوست نہیں بنا رکھا ہے‘‘
اس لیے اگر دین حق اور اطاعت الٰہی کو رسماً نہیں بلکہ سوچ سمجھ کر اختیار کیا ہے کہ فی الواقع اللہ کے سوا کسی اور کا الٰہ نہ ہونا ایک حقیقت ہے اور محمدؐ کے دامن کے سوا کہیں عافیت کی جگہ نہیں ہے‘ اور ہلاکت و بربادی اور حزن و خسران سے بچنے اور دنیا و آخرت میں کامیابی کی بس یہی ایک راہ ہے تو خوب جان لو کہ پھر تو یہ مکہ کی گلیوں‘ طائف کے بازاروں‘ غار ثور اور بدر و حنین کے میدانوں ہی میں سے گزر کر منزل تک پہنچتی ہے۔ اس لیے اس راہ کے مسافروں کو ان منازل میں سے گزرنے کی تیاری کرنی چاہئے۔ کتاب و سنت میں مومنین‘ صالحین‘ صدیقین‘ شہداء اور اس راہ کے مسافروں کی جو صفات بتائی گئی ہیں‘ ان کو اپنے اندر پرورش کرنا چاہئے‘ جو صفات منافقین‘ فاسقین اور ظالمین کی اور راہ حق میں روک بننے والی بتائی گئی ہیں‘ ان کو اپنے اندر سے دور کرنا چاہئے‘ اپنے کردار‘ اعمال‘ اخلاق‘ معاملات اور عبادات ہر چیز کو خدا کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت کی کسوٹی پر کس کو ان کی حقیقی قدر و قیمت معلوم کرتے رہنا چاہئے اور اللہ کی راہ میں جان و مال کی ساری قوتوں کے ساتھ جہاد کرنے کے جذبے‘ شوق اور ہمت و حوصلے کو بار بار ناپ کر اپنے ایمان اور اللہ سے اپنے تعلق کی گہرائی کا اندازہ کرتے رہنا چاہئے۔ آپ کا قلب خود بتاتا چلا جائے گا کہ آپ ایمان کے کس مقام پر ہیں؟