رابعاً، قربانی کے لیے اس دن کے انتخاب میں ایک اور مصلحت بھی تھی ہجرت کے بعد پہلے ہی سال جب حج کا زمانہ آیا تو مسلمانوں کو یہ بات بری طرح کَھل رہی تھی کہ کفار نے ان پر حرم کے دروازے بند کر رکھے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اس غم کی تلافی اس طرح فرمائی کہ ایام حج کو مدینے میں ان کے لیے ایام عید بنا دیا۔ آپؐ نے انھیں ہدایت فرمائی کہ ۹۔ ذی الحجہ (یعنی یوم الحج) کی صبح سے جب کہ حاجی عرفات کے لیے روانہ ہوتے ہیں، وہ ہر نماز کے بعد اَللّٰہُ اَکْبَرْ اَللّٰہُ اَکْبَرْ لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکْبَرْ اَللّٰہُ اَکْبَرْ وَلِلّٰہِ الْحَمْدْ کا ورد شروع کریں اور۱۳۔ذی الحجہ تک (یعنی جب تک حجاج منیٰ میں ایام تشریق گزارتے ہیں) اس کا سلسلہ جاری رکھیں۔ نیز۱۰۔ ذی الحجہ کو جب کہ حجاج مزدلفہ سے منیٰ کی طرف پلٹتے ہیں اور قربانی اور طواف کی سعادت حاصل کرتے ہیں، وہ بھی دوگانہ نماز ادا کرکے قربانی کریں۔ یہ طریقہ فتح مکہ سے پہلے تک تو مسلمانوں کے لیے گویا ایک طرح کی تسلی کا ذریعہ تھا کہ حج سے محروم کر دیے گئے تو کیا ہوا، ہمارا دل حج میں مشغول ہے اور ہم اپنے گھر ہی میں بیٹھے ہوئے حجاج کے شریک حال ہیں۔ لیکن فتح مکہ کے بعد اسے جاری رکھ کر عملاً اسے تمام دنیائے اسلام کے لیے حج کی توسیع بنا دیا گیا۔ اس کے معنی یہ ہوگئے کہ حج صرف مکہ میں حاجیوں تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ جس زمانے میں چند لاکھ حاجی وہاں مناسک حج ادا کر رہے ہوتے ہیں اسی زمانے میں ساری دنیائے اسلام کے کروڑوں مسلمان ان کے شریک حال ہوتے ہیں، ہر مسلمان، جہاں بھی وہ ہے، اس کا دل ان کے ساتھ ہوتا ہے، اس کی زبان اللہ اکبر کی تکبیر بلند کرتی رہتی ہے، وہ ان کی قربانی اور طواف کے وقت اپنی جگہ ہی نماز اور قربانی ادا کر رہا ہوتا ہے۔