’’مجلس اقوامِ متحدہ انسانی حقوق اور سب کے لیے اساسی آزادیوں کے عالم گیر احترام اور ان کی نگہداشت میں اضافہ کرے گی۔‘‘
اس پورے منشور کے کسی جز سے کوئی اختلاف کسی بھی قوم کے نمایندوں نے نہیں کیا۔ اختلاف نہ کرنے کی وجہ یہ تھی کہ یہ صرف عام اصولوں کا اعلان واظہار تھا، کسی نوعیت کی پابندی کسی پر بھی عائد نہ ہوتی تھی۔ یہ کوئی معاہدہ نہیں ہے جس کی بنا پر دستخط کرنے والی تمام حکومتیں اس کی پابندی پر مجبور ہوں اور بین الاقوامی قانون کے مطابق ان پر قانونی وجوب عائد ہوتا ہو۔ اس میں واضح طور پر یہ بتا دیا گیا ہے کہ یہ ایک معیار ہے جس تک پہنچنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ پھر بھی بعض ملکوں نے اس کے حق میں یا اس کے خلاف ووٹ دینے سے اجتناب کیا۔
اب دیکھ لیجیے کہ اس منشور کے عین سائے میں انسانیت کے بالکل ابتدائی حقوق کا قتل عام دنیا میں ہو رہا ہے اور خود مہذب ترین اور سرکردہ ممالک کے اپنے ہاں ہو رہا ہے جو اسے پاس کرنے والے تھے۔
اس مختصر بیان سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اوّل تو مغربی دنیا میں انسانی حقوق کا تصوّر ہی دو تین صدیوں سے پہلے اپنی کوئی تاریخ نہیں رکھتا۔ دوسرے اگر آج ان حقوق کا ذکر کیا بھی جا رہا ہے تو ان کے پیچھے کوئی سند (Authority) اور کوئی قوتِ نافذہ (Sanction) نہیں ہے، بلکہ یہ صرف خوش نُما خواہشات ہیں۔ اس کے مقابلہ میں اسلام نے حقوقِ انسان کا جو منشور قرآن میں دیا اور جس کا خلاصہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر نشر فرمایا، وہ اس سے قدیم تر بھی ہے اور ملتِ اسلام کے لیے اعتقاد، اخلاق اور مذہب کی حیثیت سے واجب الاتباع بھی۔ پھر ان حقوق کو عملاً قائم کرنے کی بے مثل نظیریں بھی حضور پاک a اور خلفائے راشدینؓ نے چھوڑی ہیں۔
اب میں ان حقوق کا مختصر تذکرہ کرتا ہوں جو اسلام نے انسان کو دئیے ہیں۔