Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

اِسلام اور عدلِ اجتماعی
باطل حق کے بھیس میں
فریبِ اوّل: سرمایہ داری اور لادینی جمہوریت
فریبِ دُوُم… اجتماعی عدل اور اشتراکیت
تعلیم یافتہ مسلمانوں کی ذہنی غلامی کی انتہا
عدالتِ اجتماعیہ کی حقیقت
اسلام ہی میں عدالتِ اجتماعیہ ہے
عدل ہی اسلام کا مقصود ہے
عدلِ اجتماعی
اِنسانی شخصیت کی نشوونما
انفرادی جواب دہی
اِنفرادی آزادی
اجتماعی ادارے اوراُن کا اقتدار
سرمایہ داری اور اشتراکیت کی خامیاں
اشتراکیت ظُلمِ اجتماعی کی بدترین شکل ہے
عدلِ اسلامی
آزادیٔ فرد کے حدود
اِنتقالِ دولت کی شرائط
تصرُّفِ دولت پر پابندیاں
معاشرتی خدمت
استیصالِ ظلم
مصالح عامہ کے لیے قومی ملکیت کے حدود
بیت المال میں تصرُّف کی شرائط
ایک سوال

اسلام اور عدلِ اجتماعی

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

اسلام ہی میں عدالتِ اجتماعیہ ہے

اس سلسلے میں سب سے پہلی بات جو مَیں اپنے مسلمان بھائیوں کو سمجھانا چاہتا ہوں وُہ یہ ہے کہ جو لوگ ’’اسلام میں بھی عدالت اجتماعیہ موجود ہے‘‘ کا نعرہ بلند کرتے ہیں وُہ بالکل ایک غلَط بات کہتے ہیں۔ صحیح بات یہ ہے کہ اسلام ہی میں عدالتِ اجتماعیہ ہے۔ اسلام وُہ دین حق ہے جو خالق کائنات اور رب کائنات نے انسان کی ہدایت کے لیے نازل فرمایا ہے اور انسانوں کے درمیان عدل قائم کرنا اور یہ طے کرنا کہ ان کے لیے کیا چیز عدل ہے اور کیا عدل نہیں ہے، انسانوں کے خالق ورب ہی کا کام ہے۔ دُوسرا کوئی نہ اس کا مجاز ہے کہ عدل وظلم کا معیار تجویز کرے اور نہ دوسرے کسی میں یہ اہلیت پائی جاتی ہے کہ حقیقی عدل قائم کر سکے۔ انسان اپنا آپ مالک اور حاکم نہیں ہے کہ وُہ اپنے لیے معیارِ عدل خود تجویز کر لینے کا مجاز ہو۔ کائنات میں اس کی حیثیت خدا کے مملوک اور رعیت کی ہے، اس لیے معیارِ عدل تجویز کرنا اس کا اپنا نہیں بلکہ اس کے مالک اور فرماں روا کا کام ہے۔ پھر انسان، خواہ کتنے ہی بلند مرتبے کا ہو، اور خواہ ایک انسان یا بہت سے بلند مرتبہ انسان مل کر بھی اپنا ذہن استعمال کر لیں، بہرحال انسانی علم کی محدودیت اور عقلِ انسانی کی کوتاہی ونارسائی اور انسانی عقل پر خواہشات وتعصبات کی دست بُرد سے کسی حال میں بھی مَفَر نہیں ہے۔ اس وجہ سے اس کا کوئی امکان نہیں ہے کہ انسان خود اپنے لیے کوئی ایسانظام بنا سکتے جو دَرحقیقت عدل پر مبنی ہو۔ انسان کے بنائے ہوئے نظام میں ابتدائً بظاہر کیسا ہی عدل نظر آئے، بہت جلدی عملی تجربہ یہ ثابت کر دیتا ہے کہ فی الحقیقت اس میں عدل نہیں ہے۔ اسی وجہ سے ہرانسانی نظام کچھ مدت تک چلنے کے بعد ناقص ثابت ہو جاتا ہے اور انسان اس سے بے زار ہو کر ایک دوسرے احمقانہ تجربے کی طرف پیش قدمی کرنے لگتا ہے۔ حقیقی عدل صرف اُسی نظام میں ہو سکتا ہے جو ایک عالم الغیب والشہادۃ اور سُبُّوح وقُدُّوْس ہستی نے بنایا ہے۔

شیئر کریں