پہلے سوال کے دو حصے ہیں۔ ایک یہ کہ آیا اسلام نے کوئی معاشی نظام تجویزکیا ہے اور اگر کیا ہے تو اس نظام کا خاکہ کیا ہے؟ اور دوسرا حصہ یہ کہ اس خاکے میں زمین، محنت، سرمائے اور تنظیم کا کیا مقام ہے؟ سوال کے پہلے حصے کا جواب یہ ہے کہ اسلام نے یقیناً ایک معاشی نظام تجویز کیا ہے ۔ مگر اس کا مفہوم یہ نہیں ہے کہ ایک مفصل معاشی نظام اس نے ہر زمانے کے لیے بنا کر رکھ دیا ہے جس میں معاشی زندگی کے متعلق تمام تفصیلات طے کر دی گئی ہیں، بلکہ دراصل اس کا مفہوم یہ ہے کہ اس نے ہمیں ایسے بنیادی اصول دیئے ہیں جن کی بنا پر ہم ہر زمانے کے لیے ایک معاشی نظام خود بنا سکتے ہیں۔ اسلام کا قاعدہ یہ ہے، اور قرآن و حدیث کو بغور پڑھنے سے وہ اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے، کہ زندگی کے ہر شعبے کے متعلق وہ ایک طرح سے حدود اربعہ (four corners) مقرر کر دیتا ہے اور ہمیں بتا دیتا ہے کہ یہ حدود ہیں جن میں تم اپنی زندگی کے اس شعبہ کی تشکیل کرو۔ ان حدود سے باہر تم نہیں جاسکتے، البتہ ان کے اندر تم اپنے حالات، ضروریات اور تجربات کے مطابق تفصیلات طے کرسکتے ہو۔ نجی زندگی کے معاملات سے لے کر تہذیب و تمدن کے تمام شعبوں تک اسلام نے انسان کی رہنمائی اسی طریقے پر کی ہے، اور یہی اس کا طریقِ رہنمائی ہمارے نظامِ معیشت کے بارے میں بھی ہے۔ یہاں بھی اس نے کچھ اصول ہم کو دے دیئے ہیں اور کچھ حدودِ اربعہ مقرر کر دیے ہیں تا کہ ان کے اندر ہم اپنے معاشی نظام کی صورت گری کریں۔ تفصیلات طے کرنے کا کام ہر زمانے کے لحاظ سے ہونا چاہیے اور ہوتا رہا ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ انہی حدود اربعہ کے اندر ہمارے فقہاء نے اپنے زمانے میں معاشی نظام کے احکام بڑی تفصیل سے مرتب کیے تھے جو فقہ کی کتابوں میں ہمیں ملتے ہیں۔ فقہاء نے جو کچھ مرتب کیا ہے وہ ان اصولوں سے ماخوذ ہے جو اسلام نے دیئے ہیں اور ان حدود سے محدود ہے جو اس نے مقرر کر دی ہیں۔ ان تفصیلات میں سے جو چیزیں آج بھی ہماری ضروریات کے مطابق ہیں ان کو ہم جوں کا توں لے لیں گے، اور جو نئی ضروریات اب ہمیں لاحق ہیں ان کے لیے ہم مزید احکام کا استخراج کرسکتے ہیں۔ لیکن وہ لازماً اسلام کے دیئے ہوئے اصولوں سے ماخوذ ہونے چاہئیں اور اس کی مقرر کی ہوئی حدوں کے اندر رہنے چاہئیں۔