یہ فتنہ جس کے ظاہر ہونے کا سیّدالکونینؐ کو اندیشہ تھا، حقیقت میں ویسا ہی مہلک ثابت ہوا جیسا آپؐ نے فرمایا تھا۔ قرنِ اوّل سے آج تک اسلام اور مسلمانوں پر جو تباہی بھی نازل ہوئی ہے اسی کی بدولت ہوئی ہے۔ وصالِ نبویؐ کے چند ہی برس بعد ہاشمی اقتدار کے خلاف اُموی عصبیّت کا فتنہ اُٹھا اور اس نے اسلام کے اصلی نظامِ سیاست کو ہمیشہ کے لیے درہم برہم کر دیا۔ پھر اس نے عربی عجمی اور ترکی عصبیت کی شکل میں ظہور کیا اور اسلام کی سیاسی وحدت کا بھی خاتمہ کر دیا۔ پھر مختلف ممالک میں جو مسلمان سلطنتیں قائم ہوئیں ، ان سب کی تباہی میں سب سے زیادہ اسی فتنہ کا ہاتھ تھا۔ قریب ترین زمانہ میں دو سب سے بڑی مسلمان سلطنتیں ہندوستان اور ترکی کی تھیں۔ ان دونوں کو اسی فتنہ نے تباہ کیا۔ ہندوستان میں مغل اور ہندوستانی کی تفریق نے سلطنت مغلیہ کو ختم کیا اور ترکی میں ترک، عرب اور کرد کی تفریق تباہی کی موجب ہوئی۔
اسلام کی پوری تاریخ اُٹھا کر دیکھ جایئے، جہاں کوئی طاقت ور سلطنت آپ کو نظر آئے گی، اس کی بنیاد میں آپ کو بلاامتیاز جنسیت ، مختلف نسلوں اور مختلف قوموں کا خون ملے گا۔ ان کے مدبر، ان کے سپہ سالار، ان کے اہلِ قلم، ان کے اہلِ سیف ، سب کے سب مختلف الاجناس پائے جائیں گے۔ آپ عراقی کو افریقہ میں، شامی کو ایران میں، افغانی کو ہندوستان میں، مسلمان حکومتوں کی اسی جاں بازی، دیانت، صداقت اور امانت کے ساتھ خدمت کرتے ہوئے دیکھیں گے جس سے وہ خود اپنے وطن کی خدمت کرتا۔ مسلمان سلطنتیں کبھی اپنے مردانِ کار کی فراہمی میں کسی ایک ملک یا ایک نسل کے وسائل پر منحصر نہیں رہیں، ہر جگہ سے قابل دماغ اور کارپرداز ہاتھ ان کے لیے جمع ہوئے اور انھوں نے ہر دارالاسلام کو اپنا وطن اور گھر سمجھا۔
مگر جب نفسانیت ، خود غرضی اور عصبیت کا فتنہ اُٹھا اور مسلمانوں میں مرزبوم اور رنگ و نسل کے امتیازات نے راہ پائی تو وہ ایک دوسرے سے بُغض و حسد کرنے لگے۔ دھڑے بندیوں اور سازشوں کا دور دورہ ہوا۔ جو قوتیں دشمنوں کے خلاف صرف ہوتی تھیں، وہ آپس میں ایک دوسرے کے خلاف صرف ہونے لگیں۔ مسلمانوں میں خانہ جنگی برپا ہوئی اور بڑی بڑی مسلمان طاقتیں صفحۂ ہستی سے مٹ گئیں۔