اسلام کی دعوتِ انقلاب کا خلاصہ یہ ہے:
یَاَیُّھَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ۔۔۔ (البقرہ:۲۱)
’’لوگو! صرف اپنے اُس رب کی بندگی کرو‘ جس نے تمہیں پیدا کیا ہے‘‘۔
اسلام مزدوروں یا زمینداروں یا کاشت کاروں یا کارخانہ داروں کو نہیں پکارتا‘ بلکہ تمام انسانوں کو پکارتا ہے۔ اس کا خطاب انسان سے بحیثیت انسان ہے اور وہ کہتا ہے کہ اگر تم خدا کے سوا کسی کی بندگی و اطاعت اور فرماں برداری کرتے ہو‘ تو اسے چھوڑ دو۔ اگر خود تمہارے اندر خدائی کا داعیہ ہے‘ تو اسے بھی دماغ سے نکال دو‘ کیونکہ دوسروں سے اپنی بندگی کرانے اور دوسروں کا سر اپنے آگے جھکوانے کا حق تم میں سے کسی کو بھی حاصل نہیں ہے۔ تم سب کو ایک خدا کی بندگی قبول کرنی چاہیے اور اس بندگی میں سب کو ایک سطح پر آجانا چاہیے۔
تَعَالَوْا اِلٰی کَلِمَۃٍ سَوَآئٍم بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمْ اَلَّا نَعْبُدَ اِلَّا اللّٰہَ وَلَانُشْرِکَ بِہٖ شَیْئًا وَّلَا یَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ۔۔۔ (آل عمران:۶۴)
’’آؤ ہم اور تم ایک ایسی بات پر جمع ہوجائیں جو ہمارے اور تمہارے درمیان یکساں ہے۔ وہ یہ کہ ہم اﷲ کے سوا کسی کی بندگی نہ کریں اور خداوندی میں کسی کو اس کا شریک بھی نہ ٹھہرائیں‘ اور ہم میں سے کوئی اﷲ کے سوا کسی کو اپنا رب نہ بنائے‘‘۔
یہ عالمگیر اور کلی انقلاب کی دعوت تھی۔ اس نے پکار کر کہا کہ اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلَّہِ۔۔۔ ’’حکومت‘ سوائے خدا کے اور کسی کی نہیں ہے‘‘۔ کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ بذاتِ خود انسانوں کا حکمران بن جائے اور اپنے اختیار سے جس چیز کا چاہے‘ حکم دے اور جس چیز سے چاہے‘ روک دے۔ کسی انسان کو بالذات اَمرونَہی کا مالک سمجھنا دراصل خدائی میں اسے شریک کرنا ہے اور دنیا میں یہی اصل بِنائے فساد ہے۔ اللہ نے انسان کوجس صحیح فطرت پر پیدا کیا ہے اور زندگی بسر کرنے کا جو سیدھا راستہ اسے بتایا ہے‘ اس سے انسان کے ہٹنے کی وجہ صرف یہ ہے کہ لوگ خدا کو بھول جاتے ہیں۔۔۔ اور نتیجتاً خود اپنی حقیقت کو بھی فراموش کردیتے ہیں۔ اس کا انجام پھر لازمی طور پر یہی ہوتا ہے کہ ایک طرف بعض اشخاص یا خاندان یا طبقے خدائی کا کھلا یا چھپا داعیہ لے کر اٹھتے ہیں اور اپنی طاقت سے ناجائز فائدہ اٹھا کر لوگوں کو اپنا بندہ بنالیتے ہیں۔۔۔ اور دوسری طرف اسی خدا فراموشی و خود فراموشی کا نتیجہ یہ بھی ہوتا ہے کہ لوگوں کا ایک حصہ طاقتوروں کی خداوندی مان لیتا ہے اور ان کے اس حق کو تسلیم کرلیتا ہے کہ وہ حکم کریں اور یہ اس حکم کے آگے سرجھکادیں۔ یہی دنیا میں ظلم و فساد اور ناجائز اِنتفاع (Exploitation) کی بنیاد ہے اور اسلام پہلی ضرب اسی پر لگاتا ہے۔ وہ ہانکے پکارے کہتا ہے:
وَلَا تُطِیْعُوْا اَمْرَ الْمُسْرِفِیْنَ o الَّذِیْنَ یُفْسِدُوْنَ فِیْ الْاَرْضِ وَلَا یُصْلِحُوْنَo (الشعراء: ۱۵۱و۱۵۲)
’’اور ان لوگوں کا حکم ہرگز نہ مانو‘ جو اپنی جائز حد سے گزرگئے ہیں اور زمین میں فساد پھیلاتے ہیں اور اصلاح نہیں کرتے‘‘۔
وَلَاتُطِعْ مَنْ اَغْفَلْنَا قَلْبَہُ عَنْ ذِکْرِنَا وَاتَّبَعَ ھَوٰہُ وَکَانَ اَمْرُہُ فُرُطًا (الکہف:۲۸)
’’اور اس شخص کی اطاعت ہرگز مت کرو‘ جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کردیا ہے اور جو اپنی خواہشاتِ نفس کا بندہ بن گیا ہے اور جس کا کام افراط و تفریط پر مبنی ہے‘‘۔
۔۔۔اَلَالَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الظّٰلِمِیْنَ o الَّذِیْنَ یَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَیَبْغُوْنَھَا عِوَجًا۔۔۔ (ھود:۱۹)
’’خدا کی لعنت ان ظالموں پر‘ جو خدا کے بنائے ہوئے زندگی کے سیدھے راستے سے لوگوں کو روکتے ہیں اور اس کو ٹیڑھا کرنا چاہتے ہیں‘‘۔
وہ لوگوں سے پوچھتا ہے کہ
ئَاَرْبَابٌ مُّتََفرِّقُوْنَ خَیْرٌ اَمِ اللّٰہُ الْوَاحِدُ الْقَھَّارُ؟ (یوسف:۳۹)
’’بہت سے چھوٹے بڑے خدا‘ جن کی بندگی میں تم پسے جارہے ہو‘ ان کی بندگی قبول ہے‘ یا اس ایک خدا کی جو سب سے زبردست ہے‘‘؟
اگر اس خدائے واحد کی بندگی قبول نہ کروگے تو ان چھوٹے اور جھوٹے خداؤں کی آقائی سے تمہیں کبھی نجات نہ مل سکے گی۔ یہ کسی نہ کسی طور سے تم پر تسلط پائیں گے‘ اور فساد برپا کرکے رہیں گے:
۔۔۔اِنَّ الْمُلُوْکَ اِذَا دَخَلُوْا قَرْیَۃً اَفْسَدُوْھَا وَجَعَلُوْا اَعِزَّۃَ اَھْلِھَآ اَذِلَّۃً وَکَذٰالِکَ یَفْعَلُوْنَo (النمل:۳۴)
’’یہ بادشاہ جب کسی بستی میں گھستے ہیں‘ تو اس کے نظامِ حیات کو تہ و بالا کرڈالتے ہیں اور اس کے عزت والوں کو ذلیل کردیتے ہیں اور ان کا یہی وطیرہ ہے‘‘۔
وَاِذَا تَوَلّٰی سَعٰی فِی الْاَرْضِ لِیُفْسِدَ فِیْھَا وَیُھْلِکَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَط وَاللَّہُ لَایُحِبُّ الْفَسَادَo (بقرہ:۲۰۵)
’’اور جب اسے اقتدار حاصل ہوجاتا ہے‘ تو زمین میں اس کی ساری دوڑ دھوپ اس لیے ہوتی ہے کہ فساد پھیلائے‘ کھیتوں کو غارت کرے اور نسلِ انسانی کو تباہ کرے۔۔۔ اور اﷲ فساد کو پسند نہیں کرتا‘‘۔
یہاں پوری تفصیل کا موقع نہیں۔ مختصراً میں یہ بات آپ کے ذہن نشین کرنا چاہتا ہوں کہ اسلام کی دعوتِ توحید و خدا پرستی محض اس معنی میں ایک مذہبی عقیدے کی دعوت نہ تھی‘ جس میںعام طور پر مذہبی عقائد کی دعوت ہوا کرتی ہے۔۔۔ بلکہ حقیقت میں یہ ایک اجتماعی انقلاب (Social Revolution) کی دعوت تھی۔ اس کی ضرب بلاواسطہ ان طبقوں پر پڑتی تھی‘ جنہوں نے مذہبی رنگ میں پروہت بن کر‘ یاسیاسی رنگ میں بادشاہ اور رئیس اور حکمراں گروہ بن کر‘ یا معاشی رنگ میں مہاجَن اور زمیندار اور اِجارہ دار بن کر عامۃ الناس کو اپنا بندہ بنا لیا تھا۔ یہ کہیں علانیہ اَرْبَابُ مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ بنے ہوئے تھے‘ دنیا سے اپنے پیدائشی یا طبقاتی حقوق کی بنا پر اطاعت و بندگی کا مطالبہ کرتے تھے اور صاف کہتے تھے کہ:
مَاعَلِمْتُ لَکُمْ مِّنْ الٰہٍ غَیْرِیْ۔۔۔ ’’میں تو اپنے سوا تمہارے کسی خدا کو نہیں جانتا‘‘۔
اور۔۔۔ اَنَا رَبُّکُمُ الْاَ عْلٰی۔۔۔ ’’میں تمہارا سب سے بڑا رب ہوں‘‘۔
اور۔۔۔ اَنَا اُحْیٖ وَاُمِیْت۔۔۔ ’’میں جِلاتا ہوں اور مارتا ہوں‘‘۔
اور کسی جگہ انھوں نے عامۃ الناس کی جہالت کو استعمال (Exploit) کرنے کے لیے بتوں اور ہیکلوں کی شکل میں مصنوعی خدا بنارکھے تھے‘ جن کی آڑ پکڑ کر یہ اپنے خداوندی حقوق بندگانِ خدا سے تسلیم کراتے تھے۔ پس کفر و شرک اور بت پرستی کے خلاف اسلام کی دعوت۔۔۔ اور خدائے واحد کی بندگی و عبودیت کے لیے اسلام کی تبلیغ۔۔۔ براہِ راست حکومت اور اس کو سہارا دینے والے یا اس کے سہارے چلنے والے طبقوں کی اغراض سے متصادم ہوتی تھی۔ اسی وجہ سے جب کبھی کسی نبی نے یَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰہَ مَالَکُمْ مِنْ اِلٰہٍ غَیْرُہُ کی صدا بلند کی‘ حکومتِ وقت فوراً اس کے مقابلے میں آن کھڑی ہوئی اور تمام ناجائز انتفاع کرنے والے طبقے اس کی مخالفت پر کمربستہ ہوگئے۔۔۔ کیونکہ یہ محض ایک مابعد الطبیعی قضیہ (Metaphysical Proposition) کا بیان نہ تھا‘ بلکہ ایک اجتماعی انقلاب کا اعلان تھا۔۔۔ اور اس میں پہلی آواز سنتے ہی سیاسی شورش کی بو سونگھ لی جاتی تھی۔