Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

عرضِ ناشر
اسلام کی ابتدا (بچوں کے پروگرام میں)
سرورِ عالم ﷺ
میلادُ النبیؐ
سرورِ عالم ﷺ کا اصلی کارنامہ
معراج کی رات
معراج کا پیغام
معراج کا سفرنامہ
شب برأت
روزہ اور ضبطِ نفس
عید قربان
قربانی
پاکستان کو ایک مذہبی ریاست ہونا چاہیے
زندگی بعد موت

نشری تقریریں

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

اسلام کی ابتدا (بچوں کے پروگرام میں)

اسلام کی ابتداء اسی وقت سے ہے جب سے انسان کی ابتداء ہوئی ہے۔ اسلام کے معنی ہیں ’’خدا کی تابعداری‘‘ اور یہ انسان کا پیدائشی مذہب ہے۔ کیونکہ خدا ہی انسان کا پیدا کرنے والا اور پالنے والا ہے۔ انسان کا اصل کام یہی ہے کہ وہ اپنے پیدا کرنے والے کی تابعداری کرے۔ جس دن خدا نے سب سے پہلے انسان، یعنی حضرت آدمؑ اور ان کی بیوی حضرت حوا کو زمین پر اتارا اسی دن اس نے انہیں بتا دیا کہ دیکھو تم میرے بندے ہو اور میں تمہارا مالک ہوں، تمہارے لیے صحیح طریقہ یہ ہے کہ میری ہدایت پر چلو، جس چیز کا میں حکم دوں اسے مانو اور جس چیز سے منع کر دوں اس سے رک جائو۔ اگر تم ایسا کرو گے تو میں تم سے راضی رہوں گا اور تمہیں انعام دوں گا اور اگر اس کے خلاف کرو گے تو میں تم سے ناراض ہوں گا اور سزا دوں گا۔ بس یہی مذہب اسلام کی ابتداء تھی۔
باوا آدمؑ اور اماں حوا نے اسی طریقہ کی تعلیم اپنی اولاد کو دی کچھ مدت تک سب آدمی اس پر چلتے رہے۔ پھر ان میں سے ایسے لوگ پیدا ہونے لگے جنہوں نے اپنے خالق کی تابعداری چھوڑ دی۔ کسی نے دوسرں کو خدا بنا لیا، کوئی خود خدا بن بیٹھا، اور کسی نے کہا کہ میں آزاد ہوں، جو کچھ میرے جی میں آئے گا کروں گا، چاہے خدا کا حکم کچھ بھی ہو۔ اس طرح دنیا میں کفر کی ابتداء ہوئی جس کے معنی ہیں ’’خدا کی تابعداری سے انکار کرنا۔‘‘
جب انسانوں میں کفر بڑھتا گیا اور اس کی وجہ سے ظلم، فساد اور برائیوں کا طوفان اٹھنے لگا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نیک بندوں کو اس کام پر مقرر کیا کہ وہ ان بگڑے ہوئے لوگوں کو سمجھائیں اور ان کو پھر سے اللہ کا تابعدار بنانے کی کوشش کریں۔ یہ نیک بندے نبی اور پیغمبر کہلاتے ہیں۔ یہ پیغمبر کبھی تھوڑی اور کبھی زیادہ مدت کے بعد دنیا کے مختلف ملکوں اور قوموں میں آتے رہے۔ یہ سب بڑے سچے، ایماندار اور پاک لوگ تھے۔ ان سب نے ایک ہی مذہب کی تعلیم دی اوروہ یہی اسلام تھا۔ تم نے حضرت نوحؑ، حضرت ابراہیمؑ، حضرت موسیٰ ؑاور حضرت عیسیٰ ؑ کے نام تو ضرور سنے ہوں گے۔ یہ سب خدا کے پیغمبر تھے اور ان کے علاوہ ہزارہا پیغمبر اور بھی گزرے ہیں۔
پچھلے کئی ہزار برس کی تاریخ میں ہمیشہ یہی ہوتا رہا کہ جب کفر زیادہ بڑھا تو کوئی بزرگ پیغمبر بنا کر بھیجے گئے۔ انہوں نے آکر لوگوں کو کفر سے روکنے اور اسلام کی طرف بلانے کی کوشش کی۔ کچھ لوگ ان کے سمجھانے سے مان گئے اور کچھ اپنے کفر پر اڑے رہے۔ جن لوگوں نے مان لیا وہ مسلمان ہوگئے اور انہوں نے اپنے پیغمبر سے اعلیٰ درجہ کے اخلاق سیکھ کر دنیا میں نیکی پھیلانی شروع کی۔ پھر ان مسلمانوں کی اولاد رفتہ رفتہ خود اسلام کو بھول کر کفر کے چکر میں پھنستی چلی گئی، اور کسی دوسرے پیغمبر نے آکر نئے سرے سے اسلام کو تازہ کیا۔ یہ سلسلہ جب ہزاروں برس تک چلتا رہا اور اسلام باربار تازہ ہو کر پھر بھلا دیا گیا تو اللہ تعالیٰ نے آخر میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا جنہوں نے اسلام کو ایسا تازہ کیا کہ آج تک وہ قائم ہے اور ان شاء اللہ تعالیٰ قیامت تک قائم رہے گا۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم آج سے ۱۴۳۰ سال پہلے عرب کے مشہور شہر مکہ میں پیدا ہوئے تھے۔ اس وقت صرف عرب ہی میں نہیں دنیا کے کسی ملک میں بھی اسلام باقی نہیں رہا تھا۔ اگرچہ پرانے پیغمبروں کی تعلیم کے تھوڑے بہت اثرات نیک لوگوں کے اندر موجود تھے، لیکن خالص خدا کی تابعداری، جس میں کسی دوسرے کی تابعداری شامل نہ ہو، ساری دنیا میں کہیں نہ پائی جاتی تھی۔ اسی وجہ سے لوگوں کے اخلاق بھی بگڑ گئے تھے۔ خدا کو بھول کر لوگ طرح طرح کی برایوں میں پھنس گئے تھے۔ اس حالت میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا میں آنکھیں کھولیں۔ چالیس برس کی عمر تک آپ اپنے شہر میں ایک خاموش انسان کی طرح زندگی بسر کرتے رہے۔ سارا شہر آپ کی سچائی اور ایمانداری کی وجہ سے آپ کی عزت کرتا تھا، مگر کسی کو یہ معلوم نہیں تھا کہ یہی شخص آگے چل کر دنیا کا سب سے بڑا رہنما بننے والا ہے آپ بھی دنیا کی برائیوں کو دیکھ دیکھ کر دل میں کڑھتے تھے مگر اس لیے خاموش تھے کہ آپ کو وہ طریقہ معلوم نہ تھا جس سے اس بگڑی ہوئی دنیا کو ٹھیک کر دیں۔ جب آپ چالیس برس کی عمر کو پہنچ گئے تو خدا نے آپ کو اپنا پیغمبر بنایا اور یہ خدمت آپ کے سپرد کی کہ پہلے اپنی قوم کو اور پھر دنیا بھر کے انسانوں کو کفر چھوڑ دینے اور اسلام قبول کرنے کی ہدایت فرمائیں۔
اس خدمت پر مقرر ہونے کے بعد آپ نے اپنے شہر کے لوگوں سے برملا کہنا شروع کیا کہ تم خدا کو چھوڑ کر دوسروں کی بندگی نہ کرو۔ تمہارا مالک اور خالق صرف خدا ہے۔ اسی کی تم کو عبادت کرنی چاہیے اور اسی کا حکم تمہیں ماننا چاہیے۔ عام لوگ یہ آواز سن کر آپ کی مخالفت کے لیے کھڑے ہوگئے اور انہوں نے ہر طریقہ سے آپ کی زبان بند کرنی چاہی۔ لیکن قوم کے جتنے سچے اور اچھے لوگ تھے وہ رفتہ رفتہ آپ کے حامی بنتے چلے گئے۔ پھر مکہ سے باہر عرب کے دوسرے علاقوں میں بھی آپ کی تعلیم پہنچنے لگی اور وہاں بھی یہی ہوا کہ جاہل لوگ تو مخالفت پر تل گئے، مگر جن لوگوں میں عقل اور نیک دلی موجود تھی وہ آپ کی سچی باتوں پر ایمان لاتے چلے گئے۔ ۱۲ برس تک یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہا۔ ایک طرف آپ کی آواز ملک میں پھیل رہی تھی اور ہر جگہ نیک انسان اسلام قبول کرتے جارہے تھے۔ دوسری طرف جاہلوں کی مخالفت روز بروز سخت ہوتی جارہی تھی اور اسی طرح سے مسلمانوں کو ستایا جارہا تھا۔ آخر کار مکہ کے سرداروں نے آپس میں سازش کی کہ ایک رات اچانک آنحضرتؐ پر حملہ کرکے آپ کو قتل کر دیں اور اس کے بعد مسلمانوں کا نام و نشان دنیا سے مٹا دیں۔
جب نوبت یہاں تک پہنچ گئی تو خدا نے آنحضرتؐ کو حکم دیا کہ آپ اور سارے مسلمان مکہ چھوڑ کر مدینہ چلے جائیں۔ اس وقت مدینہ میں بہت سے لوگ مسلمان ہو چکے تھے اور وہ اسلام کا بول بالا کرنے کے لیے اپنی جان اور مال قربان کرنے پر آمادہ تھے۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ٹھیک اسی رات کو مکہ سے مدینہ کی طرف روانہ ہوگئے جس میں آپ کو قتل کر دینے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ یہی وہ مشہور واقعہ ہے جس کو ہجرت کہا جاتا ہے اور اسی واقعہ کی یادگار میں ہمارا ہجری ؁ جاری ہوا ہے۔
آنحضرت کے مدینہ پہنچتے ہی مسلمان بھی عرب کے ہر گوشے سے سمٹ سمٹ کر مدینے میں جمع ہونے شروع ہوگئے اور اس شہر میں اسلام کی باقاعدہ حکومت قائم ہوگئی۔
اب اسلام کے مخالف اور بھی زیادہ پریشان ہونے لگے۔ انہوں نے سوچا کہ پہلے تو یہ مسلمان جگہ جگہ منتشر اور بے بس تھے، ان کو مٹا دینا آسان تھا۔ مگر اب یہ ایک جمع ہوتے جارہے ہیں اور ان کی اپنی حکومت بن گئی ہے۔ اب اگر ان کو ذرا سی مہلت بھی مل گئی تو پھر یہ ایک زبردست طاقت بن جائیں گے۔ اس لیے جلدی سے جلدی کوشش کرنی چاہیے کہ ان پر حملہ کرکے انہیں ختم کر دیا جائے۔ اس خیال سے مکہ کے سرداروں نے آنحضرتؐ کے خلاف جنگ چھیڑ دی اور سارے عرب کی طاقتوں کو اسلام کے مقابلہ میں اکٹھا کر لیا۔
لیکن نہ تو وہ لڑائیوں میں آپؐ کو شکست دے سکے اور نہ اسلام کی تبلیغ کو کسی طرح روک سکے۔ ان کی ساری کوششوں کے باوجود اسلام عرب میں پھیلتا چلا گیا، خود مخالفوں میں سے ٹوٹ ٹوٹ کر اچھے اچھے آدمی اسلام کی طرف آتے چلے گئے، اور پورے آٹھ برس نہ گزرے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود مکہ کو فتح کرلیا۔ مکہ کا فتح ہونا تھا کہ سارے عرب میں کفر کی کمر ٹوٹ گئی اس کے بعد ایک سال کے اندر اندر پورا ملک مسلمان ہوگیا اور ۱۲ لاکھ مربع میل کے رقبہ پر اسلام کی ایک طاقتور حکومت قائم ہوگئی جس میں بادشاہی خدا کی تھی، قانون شریعت کا تھا، اور انتظام خدا کے نیک بندوں کے ہاتھ میں تھا۔ اس حکومت میں ظلم اور بداخلاقی کا کہیں نام و نشان تک نہ تھا۔ ہر طرف امن تھا، انصاف تھا، سچائی اور ایمانداری کا دور دورہ تھا، اور خدا کی تابعداری اختیار کرنے کی وجہ سے لوگوں میں بہترین اخلاق پیدا ہو گئے تھے۔
اس طرح حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ۲۳ سال کی مختصر مدت میں عرب کی پوری قوم کو بدل ڈالا اور اس کے اندر ایسی روح پھونک دی کہ وہ صرف خود ہی مسلمان نہیں ہوگئی بلکہ ساری دنیا میں اسلام کا جھنڈا بلند کرنے کے لیے اٹھ کھڑی ہوئی۔ آنحضرتؐ یہ عظیم الشان کارنامہ انجام دینے کے بعد ۶۳ سال کی عمر میں دنیا سے رخصت ہوئے۔
آپ کے بعد صحابہ کرام نے وہ کام سنبھال لیا جس کے لیے آپ دنیا میں تشریف لائے تھے۔ ان بزرگوں نے اسلام کی تعلیم عرب کے باہر دوسرے ملکوں میں پھیلانی شروع کی اور جو طاقتیں حق کے راستے میں مزاحم ہوئیں ان کو تلوار کے زور سے ہٹا کر پھینک دیا۔ ان کا سیلاب ایسا زبردست تھا کہ کسی کے روکے نہ رک سکا۔ چند سال کے اندر وہ سندھ سے لے کر اسپین تک پھیل گئے۔ ان کے اثر سے بڑی بڑی قومیں مسلمان ہوگئیں۔ ان کے قدم جہاں پہنچ گئے وہاں سے بے انصافی رخصت ہوگئی۔ انہوں نے خدا سے پھرے ہوئے انسانوں کو پھر سے خدا کا تابعدار بنایا، جہالت میں پڑے ہوئے لوگوں کو علم کی روشنی دی، انسانیت سے گرے ہوئے لوگوں کو اٹھا کر اخلاق کی بلندیوں پر پہنچایا، اور جباروں کا زور توڑ کر دنیا میں ایسا انصاف قائم کیا جس کی نظیر انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔
صحابہ کرام نے اس کے ساتھ دوسرا کام یہ کیا کہ خدا کی طرف سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم جو کتاب لے کر آئے تھے اس کو انہوں نے لفظ بہ لفظ یاد بھی کرلیا اور لکھ کر بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے محفوظ کر دیا۔ آج یہ انہی بزرگوں کی کوششوں کا نتیجہ ہے کہ ہمارے پاس قرآن ٹھیک ویسا ہی اسی زبان اور انہی الفاظ میں موجود ہے جیسا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ساڑھے تیرہ سو برس پہلے خدا کی طرف سے پہنچایا تھا۔ اس میں ایک نقطہ کی کمی بیشی بھی نہیں ہوئی ہے۔
ایک اور کام انہوں نے یہ کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے حالات، آپ کی تقریریں آپ کے ارشادات، آپ کے احکام، آپ کے اخلاق و عادات، غرض ہر چیز سے متعلق مفصل معلومات بعد کی نسلوں تک پہنچا دیں۔ اس سے دنیا کو یہ فائدہ پہنچا کہ پیغمبر کے جانے کے بعد بھی ہر زمانے کے لوگ پیغمبرؐ کو اسی طرح دیکھ سکتے ہیں جس طرح خود پیغمبر کی زندگی میں دیکھ سکتے تھے۔ ساڑھے تیرہ سو برس گزر جانے کے بعد بھی آج ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پڑھ کریہ معلوم ہو جاتا ہے کہ خدا کا تابعدار بندہ کیسا ہونا چاہیے اور کس نمونے کے آدمی کو خدا پسند کرتا ہے۔
یہ دو چیزیں، یعنی قرآن اور سیرت محمدیؐ، ایسی ہیں جن کے محفوظ ہو جانے کی وجہ سے اسلام دنیا میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے محفوظ ہوگیا ہے۔ پہلے دنیا میں اسلام بار بار تازہ ہو کر اس لیے بھلایا جاتا رہا کہ جو لوگ پیغمبروں پر ایمان لا کر مسلمان ہوتے تھے وہ خدا کی کتابوں اور اس کے پیغمبروں کی سیرتوں کو محفوظ رکھنے کی کوئی خاص کوشش نہیں کرتے تھے۔ اس وجہ سے تھوڑی تھوڑی مدت بعد مسلمانوں کی اولاد خود ہی بگڑ جاتی تھی۔ لیکن اب خدا کی کتاب اور پیغمبر کی سیرت دونوں محفوظ ہیں اور اسی وجہ سے اسلام ہمیشہ کے لیے قائم ہوگیا ہے۔ کبھی خدانخواستہ اس کی تازگی میں کچھ کمی آ بھی جائے تو قرآن اور سیرت محمدیؐ کی مدد سے اس کو پھر تازہ کیا جاسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب دنیا کو کسی نئے پیغمبر کی ضرورت نہیں رہی۔ اب اسلام کو تازہ کرنے کے لیے صرف ایسے لوگ کافی ہیں جو قرآن اور سیرت محمدیؐ کو اچھی طرح جانیں، اس پر خود عمل کریں، اور دوسروں سے اس پر عمل کرانے کی کوشش کریں۔
۶، جولائی ۱۹۴۸ء؁

شیئر کریں