اس الکتاب اور الرسول نے زندگی کا جو نظریہ پیش کیا ہے وہ یہ ہے کہ یہ عظیم الشان کائنات جو تمہیں صریحاً ایک زبردست نظام میں جکڑی ہوئی اور ایک مقررہ قانون پر چلتی ہوئی نظر آرہی ہے اور اصل ایک خدا کی حکومت ہے۔ خدا ہی اس کا خالق ہے وہی اس کا مالک ہے، اور وہی اس کا فرمانروا ہے۔ یہ زمین جس پر تم رہتے ہو، اس کی بے پایاں سلطنت کے لاتعداد صوبوں میں سے ایک چھوٹا سا صوبہ ہے اور یہ صوبہ بھی مرکزی اقتدار کی اس گرفت میں پوری طرح جکڑا ہوا ہے جس میں اس جہان ہست و بود کا ہر حصہ جکڑا ہوا ہے۔ تم اس صوبے میں خدا کی پیدائشی رعیت Born subjectsہو۔ تم اپنے خالق آپ نہیں ہو بلکہ اس کی مخلوق ہو۔ اپنے پروردگار آپ نہیں ہو بلکہ اس کے پروردہ ہو۔ اپنے بل پر آپ نہیں جی رہے ہو بلکہ اس کے جلائے جی رہے ہو۔ اس لیے تمہارے ذہن میں اپنی خود مختاری کا اگر کوئی زعم ہے تو وہ ایک غلط فہمی اور نظر کے ایک دھوکے سے بڑھ کر کچھ نہیں۔ اپنی زندگی کے ایک بہت بڑے حصے میں تو تم صریح طور پر رعیت ہو اور اپنی محکومی کو خود جانتے ہو۔ اپنی مائوں کے پیٹوں میں استقرار حمل سے لے کر اپنی موت کی آخری ساعت تک تم خدا کے قانون طبعی Law of Natureسے اس طرح بندھے ہوئے ہو کہ ایک سانس تک اس کے خلاف نہیں لے سکتے اور تمہارے اوپر فطرت کی قوتیں اور قوانین اس طرح حاوی ہیں کہ تم جو کچھ کرسکتے ہو ان کے تحت رہ کر ہی کرسکتے ہو، ایک لمحہ کے لیے بھی تمہارا ان سے آزاد ہو جانا ممکن نہیں ہے۔ اب رہ گیا تمہاری زندگی کا اختیاری حصہ جس میں تم اپنے اندر ارادے کی آزادی محسوس کرتے ہو اور اپنی پسند کے مطابق انفرادی و اجتماعی عمل کی راہیں انتخاب کرنے کی طاقت پاتے ہو، تو بلاشبہ تمہیں اس حد تک آزادی حاصل ہے، مگر یہ آزادی تمہیں فرمانروائے کائنات کی رعیت ہونے سے خارج نہیں کر دیتی بلکہ صرف یہ اختیار دیتی ہے کہ چاہو تو اطاعت کا رویہ اختیار کرو جو پیدائشی رعیت ہونے کی حیثیت سے تمہیں اختیار کرنا چاہیے اور چاہو تو خود مختاری و بغاوت کا رویہ اختیار کرو جو اپنی فطری حقیقت کے اعتبار سے تمہیں نہ اختیار کرنا چاہیے۔