یہ غلط فہمی نہ ہو کہ اسلام نے تمام انسانی اور مادی رشتوں کو قطع کردیا ہے۔ ہرگز نہیں۔ اس نے مسلمانوں کو صلہ رحمی کا حکم دیا ہے، قطع رحمی سے منع کیا ہے۔ ماں باپ کی اطاعت و فرمانبرداری کی تاکید کی ہے۔ خون کے رشتوں میں وراثت جاری کی ہے۔ خیروصدقات اور بذل و انفاق میں ذوی القربیٰ کو غیرذوی القربیٰ پر ترجیح دی ہے۔ اپنے اہل و عیال ، اپنے گھربار اور اپنے مال کو دشمنوں سے بچانے کا حکم دیا ہے۔ ظالم کے مقابلہ میں لڑنے کا حکم دیا ہے اور ایسی لڑائی میں جان دینے والے کو شہید قرار دیا ہے، زندگی کے تمام معاملات میں بلاامتیاز مذہب ہر انسان کے ساتھ ہمدردی، حُسنِ سلوک اور محبت سے پیش آنے کی تعلیم دی ہے۔ اس کے کسی حکم کو یہ معنی نہیں پہنائے جاسکتے کہ وہ ملک و وطن کی خدمت و حفاظت سے روکتا ہے یا غیرمسلم ہمسایہ کے ساتھ صلح و سالمیت کرنے سے باز رکھتا ہے۔{یہاں اس امر کی توضیح ضروری ہے کہ غیرقوموں کے ساتھ مسلمان قوم کے تعلقات کی دو حیثیتیں ہیں: ایک حیثیت تو یہ ہے کہ انسان ہونے میں ہم اور وہ یکساں ہیں اور دوسری حیثیت یہ ہے کہ اسلام اور کفر کے اختلاف نے ہمیں ان سے جدا کر دیا ہے۔ پہلی حیثیت سے ہم ان کے ساتھ ہمدردی، فیاضی ، رواداری اور شرافت کا ہر وہ سلوک کریں گے جو انسانیت کا متقاضی ہے اور اگر وہ دشمنِ اسلام نہ ہوں تو ان سے دوستی، مصالحت اور مسالمت بھی کرلیں گے اور مشترک مقاصد کے لیے تعاون میں بھی دریغ نہ کریں گے۔ لیکن کسی طرح کا مادی اور دُنیوی اشتراک ہم کو اور ان کو اس طور سے جمع نہیں کرسکتا کہ ہم اور وہ مل کر ایک قوم بن جائیں، اور اسلامی قومیت کو چھوڑ کر کوئی مشترک ہندی یا چینی یا مصری قومیت قبول کرلیں۔ کیونکہ ہماری دوسری حیثیت اس قسم کے اجتماع میں مانع ہے اور کفر و اسلام کا مل کر ایک قوم بن جانا قطعاً محال ہے۔}
یہ سب کچھ ان مادی رشتوں کی جائز اور فطری مراعات ہے، مگر جس چیز نے قومیت کے معاملہ میں اسلام اور غیراسلام کے اصول میں فرق کر دیا ہے، وہ یہ ہے کہ دوسروں نے انھی رشتوں پر جداگانہ قومیتیں بنالی ہیں۔ اور اسلام نے ان کو بنائے قومیّت قرار نہیں دیا۔ وہ ایمان کے تعلق کو ان سب تعلقات پر ترجیح دیتا ہے اور وقت پڑے تو ان میں سے ہر ایک کو اس پر قربان کردینے کا مطالبہ کرتا ہے، وہ کہتا ہے:{ FR 6396 }
قَدْ كَانَتْ لَكُمْ اُسْوَۃٌ حَسَـنَۃٌ فِيْٓ اِبْرٰہِيْمَ وَالَّذِيْنَ مَعَہٗ۰ۚ اِذْ قَالُوْا لِقَوْمِہِمْ اِنَّا بُرَءٰۗؤُا مِنْكُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ۰ۡكَفَرْنَا بِكُمْ وَبَدَا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ الْعَدَاوَۃُ وَالْبَغْضَاۗءُ اَبَدًا حَتّٰى تُؤْمِنُوْا بِاللہِ وَحْدَہٗٓ (الممتحنہ:۴)
’’تمھارے لیے ابراہیم ؑ اور ان کے ساتھیوں میں یہ قابلِ تقلید نمونہ تھا کہ انھوں نے اپنی وطنی و نسلی قوم سے صاف کَہ دیا کہ ہمارا تم سے اور تمھارے معبودوں سے جنھیں تم خدا کو چھوڑ کر پوجتے ہو، کوئی تعلق نہیں ہے۔ ہم نے تم کو چھوڑ دیا ہمارے اور تمھارے درمیان ہمیشہ کے لیے عداوت اور دشمنی ہوگئی تاوقتیکہ تم ایک خدا پر ایمان نہ لائو‘‘۔
وہ کہتا ہے:
لَا تَتَّخِذُوْٓا اٰبَاۗءَكُمْ وَاِخْوَانَكُمْ اَوْلِيَاۗءَ اِنِ اسْتَحَبُّوا الْكُفْرَ عَلَي الْاِيْمَانِ۰ۭ وَمَنْ يَّتَوَلَّہُمْ مِّنْكُمْ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الظّٰلِمُوْنَ۲۳ (التوبہ)
’’اپنے باپوں اور بھائیوں کو بھی دوست اور محبوب نہ رکھو۔ اگر وہ ایمان کے مقابلہ میں کفر کو محبوب رکھیں۔ تم میں سے جو کوئی ان کو محبوب رکھے گا وہ ظالموں میں شمار ہوگا‘‘۔
اِنَّ مِنْ اَزْوَاجِكُمْ وَاَوْلَادِكُمْ عَدُوًّا لَّكُمْ فَاحْذَرُوْہُمْ (التغابن)
’’تمھاری بیویوں اور تمھاری اولاد میں ایسے لوگ بھی ہیں جو تمھارے (بہ حیثیت مسلمان ہونے کے)دشمن ہیں، ان سے حذر کرو‘‘۔
وہ کہتاہے کہ اگر تمھارے دین اور تمھارے وطن میں دشمنی ہوجائے تو دین کی خاطر وطن کو چھوڑ کر نکل جائو۔ جو شخص دین کی محبت پر وطن کی محبت کوقربان کر کے ہجرت نہ کرے وہ منافق ہے اس سے تمھارا کوئی تعلق نہیں۔
فَلَا تَتَّخِذُوْا مِنْھُمْ اَوْلِيَاۗءَ حَتّٰي يُھَاجِرُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللہِ (النساء )
اس طرح اسلام اور کفر کے اختلاف سے خون کے قریب ترین رشتے کٹ جاتے ہیں۔ ماں،باپ، بھائی، بیٹے صرف اس لیے جدا ہوجاتے ہیں کہ وہ اسلام کے مخالف ہیں۔ ہم نسل قوم کو اس لیے چھوڑ دیا جاتا ہے کہ وہ خدا سے دشمنی رکھتی ہے ، وطن کو اس لیے خیرباد کہا جاتا ہے کہ وہاں اسلام اور کفر میں عداوت ہے۔ گویا اسلام دنیا کی ہرچیز پر مقدم ہے۔ ہرچیز اسلام پر قربان کی جاسکتی ہے اور اسلام کسی چیز پر قربان نہیں کیا جاسکتا۔ اب دوسری طرف دیکھیے۔ یہی اسلام کا تعلق ہے جو ایسے لوگوں کو ملاکربھائی بھائی بنا دیتا ہے جن کے درمیان نہ خون کا رشتہ ہے، نہ وطن کا، نہ زبان کا، نہ رنگ کا۔ تمام مسلمانوں کو خطاب کرکے کہا جاتا ہے:
وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللہِ جَمِيْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا۰۠ وَاذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللہِ عَلَيْكُمْ اِذْ كُنْتُمْ اَعْدَاۗءً فَاَلَّفَ بَيْنَ قُلُوْبِكُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِہٖٓ اِخْوَانًا۰ۚ وَكُنْتُمْ عَلٰي شَفَا حُفْرَۃٍ مِّنَ النَّارِ فَاَنْقَذَكُمْ مِّنْھَا(آل عمران)
’’تم سب مل کر اللہ کی رسّی کو مضبوط تھامے رہو اور آپس میں متفرق نہ ہوجائو۔ اپنے اُوپر اللہ کے احسان کو یاد رکھو کہ تم ایک دوسرے کے دشمن تھے، اس نے تمھارےدلوں میں باہمی اُلفت پیدا کردی اور تم اس کی نعمت اسلام کی بدولت بھائی بھائی بن گئے۔ تم آپس کی عصبیّت کی بدولت آگ سے بھرے ہوئے ایک گڑھے کے کنارے کھڑے تھے۔ اللہ نے تم کو اس سے بچا لیا‘‘۔
تمام غیرمسلموں کے متعلق ارشاد ہوتا ہے:
فَاِنْ تَابُوْا وَاَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوۃَ فَاِخْوَانُكُمْ فِي الدِّيْنِ(التوبہ)
’’اگر وہ کفر سے توبہ کرلیں، نماز پڑھیں اور زکوٰۃ دیں تو وہ تمھارے دینی بھائی ہیں‘‘۔
اور مسلمانوں کی تعریف یہ کی جاتی ہے کہ:
مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ۰ۭ وَالَّذِيْنَ مَعَہٗٓ اَشِدَّاۗءُ عَلَي الْكُفَّارِ رُحَمَاۗءُ بَيْنَہُمْ (الفتح)
’’محمدؐ اللہ کے رسول ہیں، اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کفار پر سخت اور آپس میں رحم دل ہیں‘‘۔
نبیﷺ فرماتے ہیں کہ ’’مجھے لوگوں سے جنگ کرنے کا حکم دیا گیاہے یہاں تک کہ لوگ اس بات کی گواہی دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور محمدﷺ اللہ کے بندے اور رسول ہیں، نیز وہ ہمارے قبلہ کی طرف منہ پھیریں، ہمارا ذبیحہ کھائیں اور ہماری طرح نماز پڑھیں، جونہی انھوں نے ایسا کیا، ہم پر ان کے خون اور ان کے مال حرام ہوگئے ، اِلّا یہ کہ حق ہیں جو سب کے ہیں اور ان پر وہی واجبات ہیں جو سب مسلمانوں پر ہیں‘‘۔ (ابوداؤد، کتاب الجہاد)
پھر یہی نہیں کہ حقوق اور فرائض میں مسلمان برابر ہیں اور ان میں کسی فرق و امتیاز کی گنجائش نہیں ہے، بلکہ اس کے ساتھ یہ بھی ارشاد نبویؐ ہے کہ:
اَلْمُسْلِمُ لِلْمُسْلِمِ کَالْبُنْیَانِ یَشُدُّ بَعْضُہٗ بَعْضًا
’’مسلمان کے ساتھ مسلمان کا تعلق ایسا ہے جیسے ایک دیوار کے اجزاء جن کو ایک دوسرے سے پیوستہ کر دیا جاتا ہے‘‘۔
اور:
مَثَلُ الْمُؤْمِنِیْنَ فِیْ تَوَادِّھِمْ وَتَرَاحُمِھِمْ وَتَعَاطُفِھِمْ کَمَثَلِ الْجَسَدِ الْوَاحِدِ اِذَا اشْتَکٰی مِنْہُ عُضْوٌ تَدَاعَی لَہٗ سَائِرُ الْجَسَدِ بِالسَّھْرِ وَالْحُمّٰی
’’آپس کی محبت اور رحمت و مہربانی میں مسلمانوں کی مثال ایسی ہے جیسے ایک جسم کہ اگر اس کے ایک عضو کو تکلیف پہنچے تو سارا جسم اس کے لیے بے خواب و بے آرام ہوجاتا ہے‘‘۔
ملّت ِ اسلامی کے اس جسمِ نامی کو رسول اللہ ﷺ نے’’جماعت‘‘ کے لفظ سے تعبیر فرمایا ہے اور اس کے متعلق آپؐ کا فرمان ہے:
یَدُ اللہِ عَلَی الْجَمَاعَۃِ وَمَنْ شَامٰی شند فی النار
’’جماعت پر اللہ کا ہاتھ ہے جو اس سے بچھڑا وہ آگ میں گیا‘‘۔
اور:
مَنْ فَارَقَ الْجَمَاعَۃَ شِبْرًا خَلَعَ رِبْقَۃَ الْاِسْلَامِ مِنْ عُنُقِہٖ
’’جو ایک بالشت بھر بھی جماعت سے جدا ہوا اس نے اسلام کا حلقہ اپنی گردن سے اُتار پھینکا‘‘۔
اسی پر بس نہیں بلکہ یہاں تک فرمایا کہ:
مَنْ اَرَادَاَنْ یُّفَرِّقَ جَمَاعَتَکُمْ فَاقْتُلُوْہُ
’’جو تمھاری جماعت میں تفریق پیدا کرنے کی کوشش کرے اس کو قتل کر دو‘‘۔
اور:
مَنْ اَرَادَاَنْ یُّفَرِّقَ اَمْرَ الْاُمَّۃِ وَھِیَ جَمِیْعٌ فَاضْرِبُوْہُ بِالسَّیْفِ کَائِنًا مَّنْ کَانَ (مسلم، کتاب الامارۃ)
’’جو کوئی اس اُمت کے بندھے ہوئے رشتہ کو پارہ پارہ کرنے کا ارادہ کرے، اس کی تلوار سے خبر لو ، خواہ وہ کوئی ہو‘‘۔