ہندستان میں مسلمانوں کی جدید سیاسی بیداری اپنے جلو میں نت نئے مسائل لائی۔ ان میں سب سے زیادہ اہم یہ تھا کہ مستقبل میں
اسلام کے متعلق اس قسم کے فقرے آپ اکثر سنتے رہتے ہیں کہ یہ :
٭ ایک جمہوری نظام ہے۔
٭ اسلام آمریت کا حامی ہے۔
٭ اسلام سوشلزم کا علم بردار ہے، وغیرہ۔
پچھلی صدی کے آخر ی دور سے اس قسم کے فقروں کا بار بار اعادہ کیا جارہا ہے، مگر جو لوگ ان کو زبان سے نکالتے ہیں‘ مجھے یقین ہے کہ ان میں سے ایک فی ہزار بھی ایسے نہیں ہیں جنھوں نے اس دین کا باقاعدہ مطالعہ کیا ہو اور یہ سمجھنے کی کوشش کی ہو کہ اسلام کا نظام حیات کیا ہے اور اس میں جمہوریت کس حیثیت سے ہے اور کس نوعیت کی ہے‘ یا عدل اجتماعی اور سیاسی استحکام کے لیے اس نے کیا اصول وضع کیے ہیں۔
ان میں سے بعض لوگ تو اسلامی نظام جماعت کی چند ظاہری شکلوں کو دیکھ کر اس پر جمہوریت، یا آمریت، یا سوشلزم کا نام چسپاں کر دیتے ہیں اور اکثر ایسے ہیں جن کی ذہنیت کچھ اس طور پر بنی ہے کہ دنیا میں (اور خصوصاً عالمی قیادت پرفائز طاقتوں اور اپنے ممالک کے برسراقتدار لوگوں میں) جو چیز مقبول عام ہو، اس کو کسی نہ کسی طرح اسلام میں موجود ثابت کر دینا، ان کے نزدیک اس مذہب کی سب سے بڑی خدمت ہے۔ شاید وہ اسلام کو اس یتیم بچے کی طرح سمجھتے ہیں جو ہلاکت سے بس اس طرح بچ سکتا ہے کہ کسی بااثر شخص کی سرپرستی اس کو حاصل ہوجائے، یا پھر غالباً ان کا خیال یہ ہے کہ ہماری عزت محض مسلمان ہونے کی حیثیت سے قائم نہیں ہوسکتی‘ بلکہ صرف اسی طرح قائم ہو سکتی ہے کہ ہم اپنے مسلک میں دنیا کے کسی چلتے ہوئے مسلک کے اصولوں کی جھلک دکھا دیں۔ اسی ذہنیت کا نتیجہ ہے کہ جب دنیا میں اشتراکیت کا غلغلہ بلند ہوا تو مسلمانوں میں سے کچھ لوگوں نے پکارنا شروع کیا کہ اشتراکیت تو محض اسلام ہی کا ایک جدید ایڈیشن ہے، اور جب ڈکٹیٹر شپ کا آوازہ اٹھا تو کچھ دوسرے لوگوں نے اطاعت امیر‘ اطاعت امیر کی صدائیں بلند کرنی شروع کر دیں اور کہنے لگے کہ یہاں سارا نظامِ جماعت‘ ڈکٹیٹر شپ ہی پر قائم ہے۔ غرض اسلام کا نظریۂ سیاسی اس زمانے میں ایک چیستان‘ ایک چوں چوں کا مربہ بن کر رہ گیا ہے جس میں سے ہر وہ چیز نکال کر دکھا دی جاتی ہے جس کا بازار میں چلن ہو۔
ضرورت ہے کہ باقاعدہ علمی طریقے سے اس امر کی تحقیق کی جائے کہ فی الواقع اسلام کا سیاسی نظریہ ہے کیا۔ اس طرح نہ صرف ان پراگندہ خیالیوں کا خاتمہ ہو جائے گا جو ہر طرف پھیلی ہوئی ہیں اور نہ صرف ان لوگوں کا منہ بند ہو جائے گا جنھوں نے حال میں علی الاعلان یہ لکھ کر اپنی جہالت کا ثبوت دیا تھا کہ:
’اسلام سرے سے کوئی سیاسی و تمدنی نظام تجویز ہی نہیں کرتا‘ بلکہ درحقیقت تاریکیوں میں بھٹکنے والی دنیا کے سامنے ایک ایسی روشنی نمودار ہو جائے گی جس کی وہ سخت حاجت مند ہے‘ اگرچہ اپنی اس حاجت مندی کا شعور نہیں رکھتی۔‘