Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

عرضِ ناشر
دیباچہ طبع اوّل
دیباچہ طبع ہشتم
باب اوّل
مسلمان ہونے کے لیے علم کی ضرورت
مسلم اورکافر کا اصلی فرق
سوچنے کی باتیں
کلمۂ طیبہ کے معنی
کلمۂ طیّبہ اور کلمۂ خبیثہ
کلمۂ طیبہ پر ایمان لانے کا مقصد
باب دوم
مسلمان کسے کہتے ہیں؟
ایمان کی کسوٹی
اسلام کا اصلی معیار
خدا کی اطاعت کس لیے؟
دین اور شریعت
باب سوم
عبادت
نماز
نماز میں آپ کیا پڑھتے ہیں؟
نماز باجماعت
نمازیں بے اثر کیوں ہو گئیں؟
باب چہارم
ہر امت پر روزہ فرض کیا گیا
روزے کا اصل مقصد
باب پنجم
زکوٰۃ
زکوٰۃ کی حقیقت
اجتماعی زندگی میں زکوٰۃ کا مقام
انفاق فی سبیل اللہ کے احکام
زکوٰۃ کے خاص احکام
باب ششم
حج کا پس منظر
حج کی تاریخ
حج کے فائدے
حج کا عالمگیر اجتماع
باب ہفتم
جہاد
جہاد کی اہمیت
ضمیمہ ۱ ۱۔اَلْخُطْبَۃُ الْاُوْلٰی
۲۔اَلْخُطْبَۃُ الثَّانِیَۃُ
ضمیمہ ۲ (بسلسلہ حاشیہ صفحہ نمبر ۲۰۷)

خطبات

اسلام کو دل نشیں، مدلل اور جا مع انداز میں پیش کرنے کا جو ملکہ اور خداداد صلاحیت سید ابو الاعلیٰ مودودی ؒ کو حاصل ہے وہ محتاج بیان نہیں۔ آپ کی تصانیف و تالیفات کی ایک ایک سطر جیسی یقین آفریں اور ایمان افزا ہے، اس کا ہر پڑھالکھا شخص معترف و مدّاح ہے ۔ کتنے ہی بگڑے ہوئے افراد، جوان، بچے، مرد وعورت ان تحریروں سے متاثر ہو کر اپنے سینوں کو نورِ ایمان سے منور کر چکے ہیں۔ ان کتابوں کی بدولت تشکیک کے مارے ہوئے لاتعداد اشخاص ایمان و یقین کی بدولت سے مالا مال ہوئے ہیں اور کتنے ہی دہریت و الحاد کے علم بردار اسلام کے نقیب بنے ہیں۔ یوں تو اس ذہنی اور عملی انقلاب لانے میں مولانا محترم کی جملہ تصانیف ہی کو پیش کیا جا سکتا ہے لیکن ان میں سر فہرست یہ کتاب خطبات ہے۔ یہ کتاب دراصل مولانا کے ان خطبات کا مجموعہ ہے جو آپ نے دیہات کے عام لوگوں کے سامنے جمعے کے اجتماعات میں دیے۔ ان خطبات میں آپ نے اسلام کے بنیادی ارکان کو دل میں اُتر جانے والے دلائل کے ساتھ آسان انداز میں پیش کیا ہے اور کمال یہ ہے کہ اس کتاب کو عام وخاص،کم علم واعلیٰ تعلیم یافتہ،ہر ایک یکساں ذوق وشوق سے پڑھتا ہے اور اس سے فائدہ اُٹھاتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اسلام کے بنیادی ارکان کو سمجھنے کے لیے ہماری زبان ہی میں نہیں بلکہ دنیا کی دوسری بلند پایہ زبانوں میں بھی اس کتاب کی نظیر نہیں ملتی۔ علم و حقانیت کا ایک ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ہے جو ان صفحات میں بند کردیا گیا ہے۔

اسلام کا اصلی معیار

برادرانِ اسلام! اللہ تعالیٰ اپنی کتابِ پاک میں فرماتا ہے:
قُلْ اِنَّ صَلَاتِيْ وَنُسُكِيْ وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِيْ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ ۙ o لَا شَرِيْكَ لَہٗ۝۰ۚ وَ بِذٰ لِكَ اُمِرْتُ وَاَ نَا اَوَّلُ الْمُسْلِـمِيْنَo (الانعام 6:162-163)
یعنی (اے محمدؐ) کہو کہ میری نماز اور میرے تمام مراسمِ عبودیت اور میرا جینا اور میرا مرنا سب کچھ اللہ کے لیے ہے جو ساری کائنات کا مالک ہے، اس کا کوئی شریک نہیں اور اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور سب سے پہلے میں اس کی اطاعت میں سرِ تسلیم خم کرتا ہوں۔
اس آیت کی تشریح نبیa کے اس ارشاد سے ہوتی ہے:
مَنْ اَحَبَّ لِلّٰہِ وَاَبْغَضَ لِلّٰہِ وَاَعْطٰی لِلّٰہِ وَمَنَعَ لِلّٰہِ فَقَدِ اسْتَکْمَلَ الْاِیْمَانَ۔(بخاری)
جس نے کسی سے دوستی ومحبت کی تو خدا کے لیے، اور دشمنی کی تو خدا کے لیے، اور کسی کو دیا تو خدا کے لیے، اور کسی سے روکا تو خدا کے لیے، اس نے اپنے ایمان کو کامل کر لیا، یعنی وہ پورا مومن ہو گیا۔
پہلے جو آیت میں نے آپ کے سامنے پیش کی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کا تقاضا یہ ہے کہ انسان اپنی بندگی کو اور اپنے جینے اور مرنے کو صرف اللہ کے لیے خالص کر لے اور اللہ کے سوا کسی کو اس میں شریک نہ کرے۔ یعنی نہ اس کی بندگی اللہ کے سوا کسی اور کے لیے ہو، اور نہ اس کا جینا اور مرنا۔
اس کی جو تشریح نبی a کی زبان سے میں نے آپ کو سنائی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آدمی کی محبت اور دشمنی، اور اپنی دنیوی زندگی کے معاملات میں اس کا لین دین، خالصتاً خدا کے لیے ہونا عین تقاضائے ایمان ہے۔ اس کے بغیر ایمان ہی کی تکمیل نہیں ہوتی کجا کہ مراتبِ عالیہ کا دروازہ کھل سکے۔ جتنی کمی اس معاملے میں ہو گی اتنا ہی نقص آدمی کے ایمان میں ہو گا، اور جب اس حیثیت سے آدمی مکمل طور پر خدا کا ہو جائے تب کہیں اس کا ایمان مکمل ہوتا ہے۔
بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اس قسم کی چیزیں صرف مراتبِ عالیہ کا دروازہ کھولتی ہیں، ورنہ ایمان واسلام کے لیے انسان کے اندر یہ کیفیت پیدا ہونا شرط نہیں ہے۔ یعنی بالفاظِ دیگر اس کیفیت کے بغیر بھی انسان مومن ومسلم ہو سکتا ہے، مگر یہ ایک غلط فہمی ہے اور اس غلط فہمی کے پیدا ہونے کی وجہ یہ ہے کہ عام طور پر لوگ فقہی اور قانونی اسلام اور اس حقیقی اسلام میں جو خدا کے ہاں معتبر ہے، فرق نہیں کرتے۔
قانونی اور حقیقی اسلام کا فرق
قانونی اسلام
فقہی اور قانونی اسلام میں آدمی کے قلب کا حال نہیں دیکھا جاتا اور نہیں دیکھا جا سکتا، بلکہ صرف اس کے اقرارِ زبانی کو اور اس امر کو دیکھا جاتا ہے کہ وہ اپنے اندر ان لازمی علامات کو نمایاں کرتا ہے یا نہیں جو اقرارِ زبانی کی توثیق کے لیے ضروری ہیں۔ اگر کسی شخص نے زبان سے اللہ اور رسولؐ اور قرآن اور آخرت اور دوسرے ایمانیات کو ماننے کا اقرار کر لیا اور اس کے بعد وہ ضروری شرائط بھی پوری کر دیں جن سے اس کے ماننے کا ثبوت ملتا ہے تو وہ دائرۂ اسلام میں لے لیا جائے گا، اور سارے معاملات اس کے ساتھ مسلمان سمجھ کر کیے جائیں گے۔ لیکن یہ چیز صرف دنیا کے لیے ہے، اور دنیوی حیثیت سے وہ قانونی اور تمدنی بنیاد فراہم کرتی ہے جس پر مسلم سوسائٹی کی تعمیر کی گئی ہے۔ اس کا حاصل اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ ایسے اقرار کے ساتھ جتنے لوگ مسلم سوسائٹی میں داخل ہوں وہ سب مسلمان مانے جائیں، ان میں سے کسی کی تکفیر نہ کی جائے، ان کو ایک دوسرے پر شرعی اور قانونی اور اخلاقی اور معاشرتی حقوق حاصل ہوں، ان کے درمیان شادی بیاہ کے تعلقات قائم ہوں، میراث تقسیم ہو، اور دوسرے تمدنی روابط وجود میں آئیں۔
حقیقی اسلام
لیکن آخرت میں انسان کی نجات اور اس کا مسلم ومومن قرار دیا جانا اور اللہ کے مقبول بندوں میں شمار ہونا اس قانونی اقرار پر مبنی نہیں ہے، بلکہ وہاں اصل چیز آدمی کا قلبی اقرار، اس کے دل کا جھکائوا ور اس کا برضا ورغبت اپنے آپ کو بالکلیہ خدا کے حوالے کر دینا ہے۔ دنیا میں جو زبانی اقرار کیا جاتا ہے وہ تو صرف قاضیِ شرع کے لیے اور عام انسانوں اور مسلمانوں کے لیے ہے، کیونکہ وہ صرف ظاہر ہی کو دیکھ سکتے ہیں، مگر اللہ آدمی کے دل کو اور اس کے باطن کو دیکھتا ہے اور اس کے ایمان کوناپتا ہے۔ اس کے ہاں آدمی کو جس حیثیت سے جانچا جائے گا وہ یہ ہے کہ آیا اس کا جینا اور مرنا اور اس کی وفاداریاں اور اس کی اطاعت وبندگی اور اس کا پورا کارنامۂ زندگی اللہ کے لیے تھا یا کسی اور کے لیے؟ اگر اللہ کے لیے تھا تو وہ مسلم اور مومن قرار پائے گا، اور اگر کسی اور کے لیے تھا تو نہ وہ مسلم ہو گا نہ مومن۔ اس حیثیت سے جو جتنا خام نکلے گا اتنا ہی اس کا ایمان اور اسلام خام ہو گا، خواہ دنیا میں اس کا شمار کیسے ہی بڑے مسلمانوں میں ہوتا رہا ہو، اور اس کو کتنے ہی بڑے مراتب دیے گئے ہوں۔ اللہ کے ہاں قدر صرف اس چیز کی ہے کہ جو کچھ اس نے آپ کو دیا ہے وہ سب کچھ آپ نے اس کی راہ میں لگا دیا یا نہیں۔ اگر آپ نے ایسا کر دیا تو آپ کو وہی حق دیا جائے گا جو وفاداروں کو اور حقِ بندگی ادا کرنے والوں کو دیا جاتا ہے، اور اگر آپ نے کسی چیز کو خدا کی بندگی سے مستثنیٰ کرکے رکھا تو آپ کا یہ اقرار کہ آپ مسلم ہوئے، یعنی یہ کہ آپ نے اپنے آپ کو بالکل خدا کے حوالے کر دیا، محض ایک جھوٹا اقرار ہو گا جس سے دنیا کے لوگ دھوکا کھا سکتے ہیں، جس سے فریب کھا کر مسلم سوسائٹی آپ کو اپنے اندر جگہ دے سکتی ہے، جس سے دنیا میں آپ کو مسلمانوں کے سے تمام حقوق مل سکتے ہیں، لیکن اس سے فریب کھا کر خدا پنے ہاں آپ کو وفاداروں میں جگہ نہیں دے سکتا۔
یہ قانونی اور حقیقی اسلام کا فرق جو میں نے آپ کے سامنے بیان کیا ہے، اگر آپ اس پر غور کریں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ اس کے نتائج صرف آخرت ہی میں مختلف نہیں ہوں گے، بلکہ دنیا میں بھی ایک بڑی حد تک مختلف ہیں۔ دنیا میں جو مسلمان پائے گئے ہیں، یا آج پائے جاتے ہیں ان سب کو دو قسموں پر منقسم کیا جا سکتا ہے: ۱۔جزوی مسلمان، ۲۔ پورے مسلمان
مسلمانوں کی دو قسمیں
جزوی مسلمان
ایک قسم کے مسلمان وہ ہیں جو خدا اور رسولؐ کا اقرار کرکے اسلام کو بحیثیت اپنے مذہب کے مان لیں، مگر اپنے اس مذہب کو اپنی کل زندگی کا محض ایک جز اور ایک شعبہ ہی بنا کر رکھیں۔ اس مخصوص جز اور شعبے میں تو اسلام کے ساتھ عقیدت ہو، عبادت گزاریاں ہوں، تسبیح ومصلیّٰ ہو، خدا کا ذکر ہو، کھانے پینے اور بعض معاشرتی معاملات میں پرہیز گاریاں ہوں اور وہ سب کچھ ہو جسے مذہبی طرز عمل کہا جاتا ہے، مگر اس شعبے کے سوا ان کی زندگی کے دوسرے تمام پہلو ان کے مسلم ہونے کی حیثیت سے مستثنیٰ ہوں۔ وہ محبت کریں تو اپنے نفس، یا اپنے مفاد، یا اپنے ملک وقوم، یا کسی اور کی خاطر کریں۔ وہ دشمنی کریں اور کسی سے جنگ کریں تو وہ بھی ایسے ہی کسی دنیوی یا نفسانی تعلق کی بنا پر کریں۔ ان کے کاروبار، ان کے لین دین، ان کے معاملات اور تعلقات، ان کا اپنے بال بچوں، اپنے خاندان، اپنی سوسائٹی اور اپنے اہل معاملہ کے ساتھ برتائو سب کا سب ایک بڑی حد تک دین سے آزاد اور دنیوی حیثیتوں پر مبنی ہو۔ ایک زمین دار کی حیثیت سے، ایک تاجر کی حیثیت سے، ایک حکمران کی حیثیت سے، ایک سپاہی کی حیثیت سے، ایک پیشہ ور کی حیثیت سے ان کی اپنی ایک مستقل حیثیت ہو جس کا ان کے مسلمان ہونے کی حیثیت سے کوئی تعلق نہ ہو۔ پھر اس قسم کے لوگ مل کر اجتماعی طور پر جو تمدنی، تعلیمی اور سیاسی ادارے قائم کریں وہ بھی ان کے مسلمان ہونے کی حیثیت سے خواہ جزئی طور پر متاثر یا منسوب ہوں، لیکن فی الواقع ان کو اسلام سے کوئی علاقہ نہ ہو۔
پورے مسلمان
دوسری قسم کے مسلمان وہ ہیں جو اپنی پوری شخصیت کو اور اپنے سارے وجود کو اسلام کے اندر پوری طرح دے دیں۔ ان کی ساری حیثیتیں ان کے مسلمان ہونے کی حیثیت میں گم ہو جائیں۔ وہ باپ ہوں تو مسلمان کی حیثیت سے، بیٹے ہوں تو مسلمان ہونے کی حیثیت سے، شوہر یا بیوی ہوں تو مسلمان کی حیثیت سے۔ تاجر، زمین دار، مزدور، ملازم یا پیشہ ور ہوں تو مسلمان کی حیثیت سے۔ اُن کے جذبات، اُن کی خواہشات، اُن کے نظریات، اُن کے خیالات اور اُن کی رائیں، اُن کی نفرت اور رغبت، اُن کی پسند اور ناپسند سب کچھ اسلام کے تابع ہو۔ اُن کے دل ودماغ پر، اُن کی آنکھوں اور کانوں پر، اُن کے پیٹ اور اُن کی شرم گاہوں پر اور اُن کے ہاتھ پائوں اور اُن کے جسم وجان پر اسلام کا مکمل قبضہ ہو۔ نہ اُن کی محبت اسلام سے آزاد ہو، نہ دشمنی۔ جس سے ملیں تواسلام کے لیے ملیں اور جس سے لڑیں تو اسلام کے لیے لڑیں۔ کسی کو دیں تو اس لیے دیں کہ اسلام کا تقاضا یہی ہے کہ اسے دیا جائے اور کسی سے روکیں تو اس لیے روکیں کہ اسلام یہی کہتا ہے کہ اس سے روکا جائے، اور ان کا یہ طرزِ عمل صرف انفرادی حد تک ہی نہ ہو، بلکہ ان کی اجتماعی زندگی بھی سراسر اسلام کی بنیاد ہی پر قائم ہو۔ بحیثیت ایک جماعت کے ان کی ہستی صرف اسلام کے لیے قائم ہو، اور ان کا سارا اجتماعی برتائو اسلام کے اصولوں ہی پر مبنی ہو۔
خدا کا مطلوب مسلمان
یہ دو قسم کے مسلمان حقیقت میں بالکل ایک دوسرے سے مختلف ہیں، چاہے قانونی حیثیت سے دونوں ایک ہی امت میں شامل ہوں اور دونوں پر لفظ مسلمان کا اطلاق یکساں ہوتا ہو۔ پہلی قسم کے مسلمانوں کا کوئی کارنامہ تاریخِ اسلام میں قابلِ ذکر یا قابلِ فخر نہیں ہے۔ انھوں نے فی الحقیقت کوئی ایسا کام نہیں کیا ہے جس نے تاریخِ عالم پر کوئی اسلامی نقش چھوڑا ہو۔ زمین نے ایسے مسلمانوں کا بوجھ کبھی محسوس نہیں کیا ہے۔ اسلام کو اگر تنزّل نصیب ہوا ہے تو ایسے ہی لوگوں کی بدولت ہواہے۔ ایسے ہی مسلمانوں کی کثرت مسلم سوسائٹی میں ہو جانے کا نتیجہ اس شکل میں رونما ہوا کہ دنیا کے نظامِ زندگی کی باگیں کفر کے قبضے میں چلی گئیں اور مسلمان اس کے ماتحت رَہ کر صرف ایک محدود مذہبی زندگی کی آزادی پر قانع ہو گئے۔ خدا کو ایسے مسلمان ہرگز مطلوب نہ تھے۔ اس نے اپنے انبیا ؑ کو دنیا میں اس لیے نہیں بھیجا تھا، نہ اپنی کتابیں اس لیے نازل کی تھیں کہ صرف اس طرز کے مسلمان دنیا میں بنا ڈالے جائیں۔ دنیا میں ایسے مسلمانوں کے نہ ہونے سے کسی حقیقی قدر وقیمت رکھنے والی چیز کی کمی نہ تھی جسے پورا کرنے کے لیے سلسلۂ وحی ونبوت کو جاری کرنے کی ضرورت پیش آتی۔ درحقیقت جو مسلمان خدا کو مطلوب ہیں جنھیں تیارکرنے کے لیے انبیا ؑ کی بعثت اور کتابوں کی تنزیل ہوئی ہے اور جنھوں نے اسلامی نقطۂ نظر سے کبھی کوئی قابلِ قدر کام کیا ہے یا آج کر سکتے ہیں، وہ صرف دوسری ہی قسم کے مسلمان ہیں۔
حقیقی پیروی غلبے کا سبب ہے
یہ چیز اسلام ہی کے لیے خاص نہیں ہے بلکہ دنیا میں کسی مسلک کا جھنڈا بھی ایسے پیروئوں کے ہاتھوں کبھی بلند نہیں ہوا ہے جنھوں نے اپنے مسلک کے اقرار اور اس کے اصولوں کی پابندی کو اپنی کل زندگی کے ساتھ صرف ضمیمہ بنا کر رکھا ہو، اور جن کا جینا اور مرنا اپنے مسلک کے سوا کسی اور چیز کے لیے ہو۔ آج بھی آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ایک مسلک کے حقیقی اور سچے پیروصرف وہی لوگ ہوتے ہیں جو دل وجان سے اس کے وفادار ہیں، جنھوں نے اپنی پوری شخصیت کو اس میں گم کر دیا ہے اور جو اپنی کسی چیز کو حتیٰ کہ اپنی جان اور اپنی اولاد تک کو اس کے مقابلے میں عزیز تر نہیں رکھتے۔ دنیا کا ہر مسلک ایسے ہی پیرو مانگتا ہے، اور اگر کسی مسلک کودنیا میں غلبہ نصیب ہو سکتا ہے تو وہ صرف ایسے ہی پیروئوں کی بدولت ہو سکتا ہے۔
مسلمان خالص اللہ کا وفادار
البتہ اسلام میں اور دوسرے مسلکوں میں فرق یہ ہے کہ دوسرے مسلک اگر انسانوں سے اس طرز کی فنائیت اورفدائیت اور وفاداری مانگتے ہیں تو یہ فی الواقع انسان پر ان کا حق نہیں بلکہ یہ ان کا انسان سے ایک بے جا مطالبہ ہے۔ اس کے برعکس اسلام اگر انسان سے اس کا مطالبہ کرتا ہے تو یہ اس کا عین حق ہے۔ وہ جن چیزوں کی خاطر انسان سے کہتے ہیں کہ تو اپنے آپ کو اور اپنی زندگی کو اور اپنی پوری شخصیت کو ان پر تج دے، ان میں سے کوئی بھی ایسی نہیں ہے جس کا فی الواقع انسان پر یہ حق ہو کہ اس کی خاطر انسان اپنی کسی شے کو قربان کرے۔ لیکن اسلام جس خدا کے لیے انسان سے یہ قربانی مانگتا ہے وہ حقیقت میں اس کا حق رکھتا ہے کہ اس پر سب کچھ قربان کر دیا جائے۔ آسمان اور زمین میں جو کچھ ہے اللہ کا ہے۔ انسان خود اللہ کا ہے۔جو کچھ انسان کے پاس ہے اور جو کچھ انسان کے اندر ہے سب اللہ کا ہے، اور جن چیزوں سے انسان دنیا میں کام لیتا ہے وہ سب بھی اللہ کی ہیں۔ اس لیے عین تقاضائے عدل اورعین مقتضائے عقل ہے کہ جوکچھ اللہ کا ہے وہ اللہ ہی کے لیے ہو۔ دوسروں کے لیے یا خود اپنے مفاد اور اپنے نفس کے مرغوبات کے لیے انسان جو قربانی بھی کرتا ہے وہ دراصل ایک خیانت ہے، اِ لَّا یہ کہ وہ خدا کی اجازت سے ہو اور خدا کے لیے جو قربانی کرتا ہے فی الحقیقت وہ ادائے حق ہے۔
لیکن اس پہلو سے قطع نظر کرتے ہوئے مسلمانوں کے لیے ان لوگوں کے طرز عمل میں ایک بڑا سبق ہے جو اپنے باطل مسلکوں کی خاطر اور اپنے نفس کے جھوٹے معبودوں کی خاطر اپنا سب کچھ قربان کر رہے ہیں اور اس استقامت کا ثبوت دے رہے ہیں جس کی نظیر مشکل ہی سے تاریخِ انسانی میں ملتی ہے۔ کس قدر عجیب بات ہو گی اگر باطل کے لیے انسانوں سے ایسی کچھ فدائیت اور فنائیت ظہور میں آئے اور حق کے لیے اس کا ہزارواں حصہ بھی نہ ہو سکے۔
محاسبۂ نفس
ایمان واسلام کا یہ معیار جو اس آیت اور اس حدیث میں بیان ہوا ہے،{ FR 1604 } میں چاہتا ہوں کہ ہم سب اپنے آپ کو اس پر پرکھ کر دیکھیں اور اس کی روشنی میں اپنا محاسبہ کریں۔ اگرآپ کہتے ہیں کہ آپ نے اسلام قبول کیا اور ایمان لے آئے تو دیکھیے کہ آیا فی الواقع آپ کا جینا اور مرنا خدا کے لیے ہے؟ کیا آپ اسی لیے جی رہے ہیں اور آپ کے دل اور دماغ کی ساری قابلیتیں، آپ کے جسم اور جان کی ساری قوتیں، آپ کے اوقات اور آپ کی محنتیں کیا اسی کوشش میں صَرف ہو رہی ہیں کہ خدا کی مرضی آپ کے ہاتھوں پوری ہو، اور آپ کے ذریعے سے وہ کام انجام پائے جو خدا اپنی مسلم امت سے لینا چاہتا ہے؟ پھر کیا آپ نے اپنی اطاعت اور بندگی کو خدا ہی کے لیے مخصوص کر دیا ہے؟ کیا نفس کی بندگی، خاندان کی، برادری کی، دوستوں کی، سوسائٹی کی اور حکومت کی بندگی آپ کی زندگی سے بالکل خارج ہو چکی ہے؟ کیا آپ نے اپنی پسند اور ناپسند کو سراسر رضائے الٰہی کے تابع کر دیا ہے؟ پھر دیکھیے کہ واقعی آپ جس سے محبت کرتے ہیں خدا کے لیے کرتے ہیں؟ جس سے نفرت کرتے ہیں خدا کے لیے کرتے ہیں؟ اور اس نفرت اور محبت میں آپ کی نفسانیت کا کوئی حصہ شامل نہیں ہے؟ پھر کیا آپ کا دینا اور روکنا بھی خدا کی خاطر ہو چکا ہے؟ اپنے پیٹ اور اپنے نفس سمیت دنیا میں آپ جس کو جو کچھ دے رہے ہیں اسی لیے دے رہے ہیں کہ خدا نے اس کا حق مقرر کیا ہے اور اس کو دینے سے صرف خدا کی رضا آپ کو مطلوب ہے؟ اور اسی طرح جس سے آپ جو کچھ روک رہے ہیں وہ بھی اسی لیے روک رہے ہیں کہ خدا نے اسے روکنے کا حکم دیا ہے، اور اس کے روکنے میں آپ کو خدا کی خوشنودی حاصل ہونے کی تمنا ہے؟ اگر آپ یہ کیفیت اپنے اندر پاتے ہیں تو اللہ کا شکر کیجیے کہ اس نے آپ پر نعمتِ ایمان کا اِتمام کر دیا، اور اگر اس حیثیت سے آپ اپنے اندر کمی محسوس کرتے ہیں تو ساری فکریں چھوڑ کر بس اسی کمی کو پورا کرنے کی فکر کیجیے اور اپنی تمام کوششوں اور محنتوں کو اسی پرمرکوز کر دیجیے، کیوں کہ اسی کسر کے پورے ہونے پر دنیا میں آپ کی فلاح اور آخرت میں آپ کی نجات کا مدار ہے۔ آپ دنیا میں خواہ کچھ بھی حاصل کر لیں اس کے حصول سے اس نقصان کی تلافی نہیں ہو سکتی جو اس کسر کی بدولت آپ کو پہنچے گا۔ لیکن اگر یہ کسر آپ نے پوری کر لی تو خواہ آپ کو دنیا میں کچھ حاصل نہ ہو پھر بھی آپ خسارے میں نہ رہیں گے۔
یہ کسوٹی اس غرض کے لیے نہیں ہے کہ اس پر آپ دوسروں کو پَرکھیں اور ان کے مومن یا منافق اور مسلم یا کافر ہونے کا فیصلہ کریں، بلکہ یہ کسوٹی اس غرض کے لیے ہے کہ آپ اس پر خود اپنے آپ کو پرکھیں، اور آخرت کی عدالت میں جانے سے پہلے اپنا کھوٹ معلوم کرکے یہیں اسے دُور کرنے کی فکر فرمائیں۔ آپ کو فکر اس بات کی نہ ہونی چاہیے کہ دنیا میں مفتی اور قاضی آپ کو کیا قرار دیتے ہیں، بلکہ اس کی ہونی چاہیے کہ احکم الحاکمین اور عالم الغیب والشہادۃ آپ کو کیا قرار دے گا۔ آپ اس پر مطمئن نہ ہوں کہ یہاں آپ کا نام مسلمانوں کے رجسٹر میں لکھا ہے، فکر اس بات کی کیجیے کہ خدا کے دفتر میں آپ کیا لکھے جاتے ہیں۔ ساری دنیا بھی آپ کو سندِ اسلام وایمان دے دے تو کچھ حاصل نہیں۔ فیصلہ جس خدا کے ہاتھ میں ہے اس کے ہاں منافق کے بجائے مومن، نافرمان کے بجائے فرماںبردار اور بے وفا کی جگہ وفادار قرار پانا اصل کامیابی ہے۔
٭…٭…٭

شیئر کریں