انسان نے خود اپنی تلاش و جستجو سے جتنے طریقے یا مذاہب ایجاد کیے ہیں ان سب کو دو قسموں پر تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ ایک قسم ان مذاہب کی ہے جو تخیل کی بلند پروازیوں سے پیدا ہوئے ہیں اور انسان کی اعجوبہ پسندی کو اپیل کرتے ہیں۔ دوسری قسم ان طریقوں کی ہے جو خواہشات اور اہوائے نفس سے پیدا ہوئے ہیں اور انسان کے حواس کو اپیل کرتے ہیں۔ اگرچہ ان دونوں قسم کے طریقوں میں عقل اور استعداد علمی سے کام لیا گیا ہے لیکن نہ عقل ان کی محرک ہے نہ وہ عقل کو اپیل کرتے ہیں، نہ عقلی نتائج کا حصول ان کا منتہائے مقصود ہے۔ عقل اور استعداد علمی ان کے پاس محض ایک آلے کے طور پر ہے جس سے وہ ادنیٰ درجے کے مقاصد حاصل کرنے کے لیے کام لیتے ہیں۔ ایک عالم مادی سے قطع نظر کرکے عالم باطنی کی طرف توجہ کرتا ہے اور علم و عقل کی تمام قوتوں کو ایسے ذرائع دریافت کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے جن سے وہ نفس کی باطنی قوتوں کو مادّی قیود سے آزاد کرکے مکاشفات اور لذات روحانی اور خوارق عادت کے حصول پر قادرہو جائے۔ اس کے مقابلے میں دوسرا عالم باطنی سے قطع کرکے اپنی تمام توجہ عالم مادّی کی طرف پھیر دیتا ہے اور یہاں وہ علم و عقل کی ساری طاقتوں کو ان طریقوں کے دریافت کرنے میں استعمال کرتا ہے جن سے وہ مادّی اسباب و وسائل سے زیادہ سے زیادہ انتفاع کرکے اپنے جسم کے لیے زیادہ سے زیادہ آسائش اور اپنے حواس کے لیے زیادہ سے زیادہ لذتیں حاصل کرسکے۔ غرض علم و عقل ان طریقوں کے خادم ضرور ہیں، مگر بجائے خود ان کی بنا جہل اور نادانی پر ہے۔
ان کے مقابلے میں ایک مذہب وہ ہے جو خدا نے اپنے رسولوں کے ذریعے بھیجا ہے یہ مذہب خالص علم سے پیدا ہوا ہے، سراسر عقل کو اپیل کرتا ہے، اور اس کا اصل مقصد انسان کو جہالت کی تاریکی سے نکال کر علم کی روشنی میں لانا ہے تاکہ وہ کائنات میں اپنی اصلی حیثیت سے واقف ہو۔ موجودات کے ساتھ اپنے تعلق کی حقیقی نوعیت کو سمجھے، اور علم و فہم کی روشنی میں اپنی تمام ظاہری و باطنی قوتوں اور مادی و روحانی وسائل کو اس مقصد تک پہنچنے میں استعمال کرے جو درحقیقت انسانی زندگی کا اصلی مقصد ہے ____ یعنی اس دنیا میں اس خدمت کا ٹھیک ٹھیک حق ادا کرنا جو اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنا خلیفہ بنا کر اس کے سپرد کی ہے، اور آخرت میں اپنے مالک کی خوشنودی سے سرفراز ہونا جو ادائے فرض کا لازمی نتیجہ ہے۔
یہ مذہب انسان کی کسی قوت کو بیکار نہیں کرتا بلکہ ہر ایک کو صرف کرنے کا صحیح راستہ بتاتا ہے۔ وہ انسان کی کسی خواہش کو پامال نہیں کرتا بلکہ ہر ایک کے لیے ایک جائز اور معقول حد مقرر کر دیتا ہے۔ وہ تخیل کو بلند پروازی سے روکتا نہیں بلکہ اس کی پرواز کے لیے ایک بہتر فضا اور ایک صحیح رخ متعین کرتا ہے۔ وہ انسان کی عملی قوتوں کو مادّی اسباب و وسائل کے اکتشاف اور ان سے انتفاع کرنے سے باز نہیں رکھتا، بلکہ اس اکتشاف و انتفاع کو صحیح مقاصد کی طرف موڑ دیتا ہے۔ وہ ہر شخص کو اسی کام میں لگاتا ہے جس کی اہلیت لے کر وہ پیدا ہوا ہے، خواہ اس کا میلان روحانیت کی طرف ہو یا مادیت کی طرف، لیکن ان دونوں قسم کے انسانوں کو وہ ایسے علم اور ایسے تعقل سے بہرہ ور کر دینا چاہتا ہے جس کی مدد سے وہ افراط و تفریط کو چھوڑ کر ایک صراط مستقیم پر چل سکیں، انسان ہونے کی حیثیت سے اپنے فرائض کو سمجھیں اور بجا لائیں، ان کی ذات پر خدا اور مخلوقات اور خود ان کے اپنے نفس کے جو حقوق ہیں ان کو جانیں اور ادا کریں، روحانیات کی طرف جائیں تو ان میں اس قدر گم نہ ہو جائیں کہ تمام تر مکاشفات اور لذات روحانی ہی ان کی جدوجہد کا محور بن کر رہ جائیں، اور مادیت کی طرف متوجہ ہوں تو ادھر بھی ان کا انہماک اس قدر نہ بڑھ جائے کہ وہ بالکل حسی لذتوں اور جسمانی آسائشوں اور مادّی کامیابیوں ہی کو اپنا کعبۂ مقصود بنالیں۔
یہ سراسر علمی و عقلی مذہب ہے، اس لیے اس کا صحیح اتباع بھی علم اور عقل کے بغیر نہیں ہوسکتا۔ یہاں ہر ہر قدم پر تفقہ اور تدبر کی ضرورت ہے۔ جو شخص اس مذہب کی روح سے ناآشنا ہو، اس کی حکمتوں سے ناواقف ہو، اس کے اصول کو نہ سمجھتا ہو، اس کی تعلیم میں غور و فکر نہ کرتا ہو، وہ اس راہ راست پر استقامت کے ساتھ چل ہی نہیں سکتا جس کی طرف یہ مذہب رہنمائی کر رہا ہے۔ اس کا عقیدہ بے قیمت ہے جب تک کہ وہ زبانی اقرار سے گذر کر فکر و شعور پر حاوی نہ ہوگیا ہو۔ اس کا عمل بے اثر ہے جب تک کہ وہ علم اور فہم کی رُوح سے معمور نہ ہو جائے۔ اس کا اتباع قانون بے معنی ہے جب تک کہ قانون کی سپرٹ اس کے جوارح سے گذر کر اس کے دل و دماغ پر چھا نہ گئی ہو۔ اگر محض تقلید کی راہ سے وہ بغیر سمجھے بوجھے اس مذہب کی صداقت پر ایمان رکھتا ہو اور اس کا اتباع کر رہا ہو، تو اس کا ایمان اور اتباع بالکل ایک ریت کے تودے کی طرح ہوگا جسے ہوا کا ہر جھونکا اپنی جگہ سے ہٹا کر دوسری جگہ جما سکتا ہے۔ ایسے جاہل کے ایمان اور اندھے کے اتباع میں کوئی پائیداری نہیں ہوسکتی۔ ہر گمراہ کرنے والا اس کو صحیح مرکز سے ہٹا سکتا ہے۔ ہر خوش نما راستہ اس کو اپنی طرف مائل کر سکتا ہے۔ ہر توہم، ہر مفروضہ، ہر نظریہ اس کے اعتقاد کی بنیادوں کو متزلزل کرسکتا ہے۔ ہوائے نفس کی ہر لہر اور ضلالت عام کی ہر رو اس کو بہا کر کہیں سے کہیں لے جاسکتی ہے اگر وہ قدامت پسند ہوگا تو اعتقاد اور عمل کی ہر اس گمراہی پر اصرار کرے گا جو آبائو اجداد سے اس کو میراث میں ملی ہو۔ اگر تجدد کا ذوق رکھتا ہوگا تو خواہشات نفس کو اپنا خدا بنا کر ہر اس نئے راستے پر بھٹکتا پھرے گا جسے اس کے نفس کا شیطان اس کے سامنے مزین بنا کر پیش کر دے۔ اگر کمزور طبیعت کا ہوگا تو ہر اس راہرو کے پیچھے چل کھڑا ہوگا جو اسے زندگی کے راستے پر کسی حیثیت سے کامیابی کے ساتھ قطع منازل کرتا نظر آئے اگر خود اپنے اجتہاد سے کوئی راہ نکالنے کی اس میں صلاحیت ہوگی تو دین میں صحیح بصیرت نہ رکھنے اور الٰہی قانون کے اصول سے ناواقف ہونے کی وجہ سے زندگی کے سفر میں ہر دوراہے پر پہنچ کر وہ علم کے بجائے ظن و تخمین سے کام لے گا۔ اور آخر کہیں نہ کہیں جاکر سیدھے راستے سے بھٹک ہی جائے گا۔ غرض اس خدائی مذہب کا صحیح اتباع اور اس اتباع میں استقامت، جہل اور نافہمی کے ساتھ ممکن ہی نہیں ہے۔ اس کے لیے علم اور سمجھ بوجھ اور غور و فکر ناگزیر ہے اور انھی چیزوں کے کمال پر کمالی درجات مترتب ہوتے ہیں۔
اس مذہب کی تاریخ پر نگاہ ڈالیے تو ہمارے اس بیان کی صداقت آپ کے سامنے نمایاں ہو جائے گی جتنے انبیاء علیہم السلام اللہ کی طرف سے آئے وہ صرف ایک قانون اور ایک کتاب ہی لے کر نہیں آئے بلکہ اس کے ساتھ حکمت بھی لائے، تاکہ لوگ ان کی تعلیم کو سمجھیں اور علیٰ وجہ البصیرت اس قانون کی پیروی کریں جو ان کے ذریعے سے بھیجا گیا تھا۔ فَقَدْ اٰتَيْنَآ اٰلَ اِبْرٰہِيْمَ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَۃَ النساء4:54 وَيُعَلِّمُہُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَۃَ آل عمران3:48 وَاٰتَيْنٰہُ الْحِكْمَۃَصٓ38:20 قَدْ جِئْتُكُمْ بِالْحِكْمَۃِ الزخرف43:63 یہ حکمت کیا چیز تھی؟ دین کی سمجھ، علم کی روشنی، بصیرت کا نور، تدبر کی صلاحیت، اور تفقہ کی قابلیت۔ جب کبھی کوئی نبی آیا اس نے اپنے پیرووں کو کتاب کے ساتھ یہ چیز بھی دی اور اسی کی مدد سے لوگ سیدھے رستے پر قائم رہے۔ اس کے بعد ایک دَور جہالت اور اندھی تقلید کا آیا جس میں حکمت غائب ہوگئی اور کتاب باقی رہ گئی۔ کچھ عرصے تک لوگ محض کتاب کو لیے ہوئے اس ڈگر پر چلتے رہے جس پر ان کے اسلاف انھیں چلا گئے تھے۔ مگر اب ان میں گمراہیوں کو قبول کرنے کی صلاحیت پیدا ہوگئی، کیونکہ وہ چیز ان میں باقی نہیں رہی تھی جس سے وہ کتاب کو سمجھتے اور ہدایت کو ضلالت سے ممتاز کرسکتے۔ رفتہ رفتہ ان کے قدم راہ راست سے ہٹنے شروع ہوئے۔ کسی نے ہوائے نفس کا اتباع کیا۔ کسی نے ظن و تخمین کی پیروی کی۔ کسی نے گمراہ قوموں کے اثرات قبول کیے۔ کسی نے جھوٹے رہنمائوں کو ارباب من دون اللہ بنایا۔ آخر کار حکمت کے ساتھ کتاب بھی رخصت ہو گئی، اور خدا کے بھیجے ہوئے دین کو مسخ کرکے اوہام اور خرافات اور فکر و عمل کی گمراہیوں کا مجموعہ بنا دیا گیا۔
اس طرح بار بار دین الٰہی کے مسخ ہونے، اور کتب آسمانی کے گم یا محرف ہو جانے اور امتوں میں ہدایت کے بعد ضلالت کے پھیل جانے کی وجہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ دین الٰہی میں اصل چیز الفاظ کتاب کی تلاوت اور رسوم مذہب کی بجا آوری نہیں ہے، بلکہ تمام تردار و مدار کتاب کے صحیح علم و فہم پر ہے۔ جب تک لوگوں میں حکمت رہی اور وہ آیات الٰہی میں تدبر کرتے رہے اور انبیاء کی بتائی ہوئی راہ مستقیم پر نور بصیرت کے ساتھ چلتے رہے، اس وقت تک کوئی چیز ان کو گمراہ نہ کرسکی۔ اور جب یہ چیز ان سے مفقود ہوگئی تو گویا ان میں بیماریوں کی استعداد پیدا ہوگئی۔ ان کے اندر بھی امراض پیدا ہوئے اور باہر سے بھی وبائی جراثیم نے ان پر حملہ کیا یہاں تک کہ دین اور کتاب اور قانون سب کچھ کھو کر وہ ضلالت کے ہزارہا راستوں میں بھٹک گئے۔
انبیائے سابقین کے بعد محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسی کتاب اور ایسی ہدایت دے کر بھیجا گیا جس کو پچھلی کتابوں کی طرح مسخ اور محرف ہونے کا تو کوئی خطرہ نہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کو صحیح صورت میں باقی رکھنے کا ایسا انتظام کر دیا ہے کہ اگر انسان اس کو بدلنے اور مٹانے کی کوشش بھی کرے تو کامیاب نہیں ہوسکتا۔ لیکن اب بھی اس کتاب اور اس ہدایت سے فائدہ اٹھانے، اور دین کے سیدھے راستے پر قائم رہنے اور اعتقاد و عمل کی گمراہیوں سے بچنے کا انحصار کلیتاً اسی چیز پر ہے جس پر ابتدا سے دین الٰہی کی بِنا رکھی گئی ہے، یعنی علم اور عقل۔ خدا کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت ہر زمانے اور ہر حال میں بہترین رہنما ہے، مگر ان کے لیے جو علم اور عقل رکھتے ہوں اللہ اور اس کے رسول کی ہدایت کو سمجھیں، اس میں غور و خوض کریں، اس سے اکتساب نور کریں، اور زندگی کی ہر راہ میں اس نور کو لے کر چلیں۔ رہے وہ لوگ جو تفقہ و تدبر کی نعمت کھو چکے ہیں اور صرف اس لیے مسلمان ہیں کہ ان کے باپ دادا ان کو مسلمان چھوڑ گئے ہیں، تو درحقیقت ان کے لیے دین میں کوئی استقامت ہے ہی نہیں۔ وہ ہر وقت گمراہی کے خطرے میں ہیں۔ گمراہی ان کے اندر سے بھی پھوٹ سکتی ہے اور باہر سے بھی حملہ کرسکتی ہے۔ ممکن ہے کہ ان کی اپنی جہالت اور نافہمی ان کو راہ راست سے بھٹکا دے۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ ان کے گرد و پیش جو ضلالتیں پھیلی ہوئی ہیں ان میں سے کسی کے پیچھے وہ بغیر جانے بوجھے لگ چلیں۔ کیونکہ ان کے پاس وہ چیز ہے ہی نہیں جو ان کو دین کے سیدھے رستے پر مضبوطی کے ساتھ قائم رکھ سکتی ہے۔
قرآن مجید میں انسان کی گمراہی کا اصل سبب صرف ایک چیز کو قرار دیا گیا ہے اور وہ آیات الٰہی کو نہ سمجھنا ہے، چنانچہ وہ بار بار اس پر متنبہ کرتا ہے اور نہایت شدت کے ساتھ اس کی مذمت کرتا ہے۔
اِنَّ شَرَّ الدَّوَاۗبِّ عِنْدَ اللہِ الصُّمُّ الْبُكْمُ الَّذِيْنَ لَا يَعْقِلُوْنَ الانفال8:22
اللہ کے نزدیک بدترین جانور وہ بہرے گونگے ہیں جو عقل سے کام نہیں لیتے۔
لَہُمْ قُلُوْبٌ لَّا يَفْقَہُوْنَ بِہَا۰ۡوَلَہُمْ اَعْيُنٌ لَّا يُبْصِرُوْنَ بِہَا۰ۡوَلَہُمْ اٰذَانٌ لَّا يَسْمَعُوْنَ بِہَا۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ كَالْاَنْعَامِ بَلْ ہُمْ اَضَلُّ۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْغٰفِلُوْنَ اعراف7: 179
ان کے پاس دل ہیں مگر ان سے سمجھتے نہیں ان کے پاس آنکھیں ہیں مگر ان سے دیکھتے نہیں۔ ان کے پاس کان ہیں مگر ان سے سنتے نہیں۔ وہ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ اور بھی زیادہ گمراہ۔ یہ وہ لوگ ہیں جو غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔
صَرَفَ اللہُ قُلُوْبَھُمْ بِاَنَّھُمْ قَوْمٌ لَّا يَفْقَہُوْنَ التوبہ9:127
اللہ نے ان کے دلوں کو پھیر دیا ہے کیونکہ وہ ایسے لوگ ہیں جو سمجھ بوجھ نہیں رکھتے۔
لَاَانْتُمْ اَشَدُّ رَہْبَۃً فِيْ صُدُوْرِہِمْ مِّنَ اللہِ۰ۭ ذٰلِكَ بِاَنَّہُمْ قَوْمٌ لَّا يَفْقَہُوْنَ الحشر59:13
ان کے دلوں میں خدا سے زیادہ تمھارا (یعنی بندوں کا) خوف ہے، یہ اس لیے کہ وہ سمجھ بوجھ رکھنے والے لوگ نہیں ہیں۔
اَفَلَا يَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ اَمْ عَلٰي قُلُوْبٍ اَقْفَالُہَا محمد47:24
کیا وہ قرآن میں تدبر نہیں کرتے یا ان کے دلوں پر قفل لگے ہوئے ہیں؟
اَفَلَمْ يَدَّبَّرُوا الْقَوْلَ المومنون23 :68
کیا انھوں نے اس بات پر (جو ان سے کہی جا رہی ہے) غور نہیں کیا؟
اس عدم تدبر اور نافہمی کے نتائج دو مختلف صورتوں میں ظاہر ہوتے ہیں۔ اور وہ دونوں گمراہی کی بدترین صورتیں ہیں۔
ایک صورت یہ ہے کہ انسان بغیر سمجھے بوجھے اپنے دین و ایمان کو دوسروں پر چھوڑ دیتا ہے۔ خواہ وہ اس کو نجات کے رستے پر لے جائیں یا ہلاکت کے رستے پر۔
وَاِذَا قِيْلَ لَہُمْ تَعَالَوْا اِلٰى مَآ اَنْزَلَ اللہُ وَاِلَى الرَّسُوْلِ قَالُوْا حَسْبُنَا مَا وَجَدْنَا عَلَيْہِ اٰبَاۗءَنَا۰ۭ اَوَلَوْ كَانَ اٰبَاۗؤُہُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ شَـيْــــًٔـا وَّلَا يَہْتَدُوْنَ المائدہ5:104
اور جب ان سے کہا گیا کہ آئو اس کتاب کی طرف جو اللہ نے اتاری ہے اور رسول کی طرف تو بولے کہ ہمارے لیے وہی طریقہ کافی ہے جس پر ہم نے اپنے آبائو اجداد کو پایا ہے۔ کیا یہ لوگ باپ دادا ہی کی تقلید کریں گے خواہ وہ کچھ نہ جانتے ہوں اور نہ راہ راست پر ہوں۔
اِتَّخَذُوْٓا اَحْبَارَہُمْ وَرُہْبَانَہُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللہ ِ التوبہ9:31
انھوں نے خدا کو چھوڑ کر اپنے علماء اور مشائخ کو خدا بنا لیا ہے (کہ جس کو وہ حرام کہیں وہی ان کے نزدیک حرام ہے خواہ اللہ نے اس حلال کیاہو اور جس کو وہ حلال کہیں وہ ان کے لیے حلال ہے خواہ اللہ نے اس کو حرام کیا ہو)
يَوْمَ تُقَلَّبُ وُجُوْہُہُمْ فِي النَّارِ يَقُوْلُوْنَ يٰلَيْتَنَآ اَطَعْنَا اللہَ وَاَطَعْنَا الرَّسُوْلَاوَقَالُوْا رَبَّنَآ اِنَّآ اَطَعْنَا سَادَتَنَا وَكُبَرَاۗءَنَا فَاَضَلُّوْنَا السَّبِيْلَا احزاب33:66-67
جب ان کے چہرے آگ میں الٹ پلٹ کیے جائیں گے تو وہ کہیں گے کہ کاش ہم نے اللہ اور اس کے رسول کی بات مانی ہوتی۔ اور کہیں گے کہ خدایا ہم نے اپنے سرداروں اور اپنے بڑوں کی اطاعت کی اور انھوں نے ہم کو گمراہ کر دیا۔
دوسری صورت یہ ہے کہ انسان خدا کی بخشی ہوئی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی رائے پر اعتماد کرتا ہے۔ اس راہ میں اوّل تو یقین نہیں ہوتا (جو راہ راست پر چلنے کا یقینی ذریعہ ہے) بلکہ زیادہ تر ظن و گمان ہوتا ہے، دوسرے بڑا خطرہ اس میں یہ ہے کہ انسان کی عقل پر نفس کی خواہشات غالب آجاتی ہیں اور اس کو اعتدال کے خط مستقیم سے ہٹا کر افراط و تفریط کی جانب لے جاتی ہیں۔ جب انسان اس رستے پر چلتا ہے تو اس کی مثال ایسی ہوتی ہے جیسے کوئی گھٹا ٹوپ اندھیرے میں گامزن ہو، کہیں علم صحیح اور عقل سلیم کی بجلی اتفاق سے چمک گئی تو راستہ نظر آگیا اور کچھ چل لیے، کُلَّماَ اَضَائَ لَھُمْ مَّشَوْا فِیْہِ، ورنہ حیران ہو کر کھڑے ہوگئے، وَاِذَا اَظْلَمَ عَلَیْھِمْ قَاَمُوْا، یا چلے تو کسی خارزار میں جا پھنسے یا کسی گڑھے میں گر گئے۔
وَمَا يَتَّبِـــعُ اَكْثَرُھُمْ اِلَّا ظَنًّا۰ۭ اِنَّ الظَّنَّ لَا يُغْنِيْ مِنَ الْحَقِّ شَـيْــــًٔـا۰ۭ یونس10:36
اور ان میں سے اکثر بجز گمان کے کسی اور چیز کی پیروی نہیں کرتے۔ اور گمان کا حال یہ ہے کہ وہ حق (علم یقین) سے کچھ بھی بے نیاز نہیں کرتا۔
اَرَءَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰـہَہٗ ہَوٰىہُ۰ۭ اَفَاَنْتَ تَكُوْنُ عَلَيْہِ وَكِيْلًا اَمْ تَحْسَبُ اَنَّ اَكْثَرَہُمْ يَسْمَعُوْنَ اَوْ يَعْقِلُوْنَ۰ۭ اِنْ ہُمْ اِلَّا كَالْاَنْعَامِ بَلْ ہُمْ اَضَلُّ سَبِيْلًا الفرقان25:43-44
کیا تو نے دیکھا اس شخص کو جس نے اپنی خواہش نفس کو اپنا خدا بنا لیا ہے؟…… کیا تو گمان کرتا ہے کہ ایسے لوگوں میں سے اکثر سنتے اور سمجھتے ہیں؟ نہیں وہ تو بس جانوروں کی طرح ہیں، بلکہ ان سے بھی زیادہ بدراہ۔
وَمَنْ اَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ ہَوٰىہُ بِغَيْرِ ہُدًى مِّنَ اللہِ۰ القصص28:50
اور اس سے زیادہ بدراہ اور کون ہوگا جس نے اللہ کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہش نفس کی پیروی کی؟
وَلَا تُطِعْ مَنْ اَغْفَلْنَا قَلْبَہٗ عَنْ ذِكْرِنَا وَاتَّبَعَ ہَوٰىہُ وَكَانَ اَمْرُہٗ فُرُطًا کہف18:28
اور اس شخص کی بات ہرگز نہ ماننا جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر رکھا ہے۔ اپنی خواہش نفس کی پیروی اختیار کی ہے اور جس کے کام میں اعتدال سے تجاوز ہے۔
وَلَا تَتَّبِعْ اَہْوَاۗءَ الَّذِيْنَ لَا يَعْلَمُوْنَ جاثیہ45:18
اور ان لوگوں کی خواہش کی پیروی نہ کرنا جو علم نہیں رکھتے۔
یہ نتائج ہیں آیاتِ الٰہی میں غور و خوض نہ کرنے اور تدبر و تفقہ سے کام نہ لینے کے۔ جو لوگ آیات کی تلاوت کرتے ہیں مگر ان کو نہیں سمجھتے، کتاب رکھتے ہیں مگر خود اس کی تعلیم میں بصیرت حاصل کرنے اور اس کے احکام کو معلوم کرنے کی کوشش نہیں کرتے، رسول کی صداقت پر ایمان رکھتے ہیں مگر اس ہدایت کی طرف سے اندھے ہیں جو رسول نے پیش کی ہے، اسلام کی حقانیت پر اعتقاد رکھتے ہیں مگر اس کے اصول اور اس کی روح سے ناواقف ہیں، ان کے لیے ہر ہر قدم پر یہ خطرہ ہے کہ گمراہی کی ان دونوں صورتوں میں سے کسی صورت میں مبتلا ہو جائیں۔ اسی لیے اللہ اور اس کے رسول نے مسلمانوں کو بار بار تاکید کی ہے کہ دین میں بصیرت پیدا کریں، اس کی تعلیم اور اس کے احکام کو سمجھیں، اور کم از کم ان میں سے ایک گروہ ہمیشہ ایسا رہے جو تفقہ فی الدین حاصل کرنے کے لیے اپنے آپ کو وقف کردے تاکہ اپنے دوسرے بھائیوں کی صحیح رہنمائی کرسکے۔
قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:
كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰہُ اِلَيْكَ مُبٰرَكٌ لِّيَدَّبَّرُوْٓا اٰيٰتِہٖ وَلِيَتَذَكَّرَ اُولُوا الْاَلْبَابِ صٓ38:29
یہ ایک کتاب ہے جو ہم نے تجھ پر اتاری ہے، برکت والی ہے۔ تاکہ لوگ اس کی آیات میں غور و خوض کریں اور جو عقل رکھتے ہیں وہ اس سے سبق لیں۔
قَدْ فَصَّلْنَا الْاٰيٰتِ لِقَوْمٍ يَّفْقَہُوْنَ انعام6:98
ہم نے آیات کو مفصل بیان کر دیا ہے ان لوگوں کے لیے جو سمجھ رکھتے ہیں۔
لَقَدْ مَنَّ اللہُ عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ اِذْ بَعَثَ فِيْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِھِمْ يَتْلُوْا عَلَيْھِمْ اٰيٰتِہٖ وَيُزَكِّيْھِمْ وَيُعَلِّمُھُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَۃَ آل عمران3:164
اللہ نے مومنوں پر بڑا ہی احسان کیا کہ ان میں خود انھی میں کا ایک رسول بھیج دیا جو ان کو اس کی آیات پڑھ کر سناتا ہے اور ان کے نفوس کا تزکیہ کرتا ہے اور ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔
وَمَنْ يُّؤْتَ الْحِكْمَۃَ فَقَدْ اُوْتِيَ خَيْرًا كَثِيْرًا البقرہ2:269
اور جس شخص کو حکمت دی گئی اس کو بہت کچھ بھلائی دے دی گئی۔
فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَــۃٍ مِّنْھُمْ طَاۗىِٕفَۃٌ لِّيَتَفَقَّہُوْا فِي الدِّيْنِ وَلِيُنْذِرُوْا قَوْمَھُمْ اِذَا رَجَعُوْٓا اِلَيْہِمْ التوبۃ9:122
پھر کیوں ان کے ہر گروہ میں سے کچھ لوگ ایسے نہ نکلے کہ دین میں تفقہ حاصل کرتے اور واپس جاکر اپنی قوم کو آگاہ کرتے۔
اس باب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بکثرت ہدایات فرمائی ہیں۔ مثال کے طور پر سیدنا علیؓ سے مروی ہے کہ:
قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَلاَ لاَ خَیْرَ فِیْ عِبَادَۃٍ لَیْسَ فِیْھَا تَفَقُّہٌ وَلَا عِلْمَ لَیْسَ فِیْہِ تَفَھُّمٌ وَلاَ قِرْائَ ۃَ لَیْسَ فِیْھَا تَدَبُّرٌ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سن رکھو اس عبادت میں کوئی بھلائی نہیں جس میں تفقہ نہیں ہے اور اس علم میں کوئی بھلائی نہیں جس میں سمجھ بوجھ نہیں ہے، اور اس قرآن خوانی میں کوئی بھلائی نہیں جس میں تدبر نہیں ہے۔
ایک دوسری حدیث میں ہے:
اَفْضَلُ النَّاسِ اَفْضَلُھُمْ عَمَلاً اِذَا فَقِھُوْادِ یْنَھُہْ
لوگوں میں سب سے بہتر وہ ہیں جو عمل کے اعتبار سے بہتر ہیں بشرطیکہ دین میں سمجھ بوجھ رکھتے ہوں۔
اس وقت مسلمانوں کی سب سے بڑی بلکہ اصلی مصیبت یہی ہے کہ ان میں تفقہ فی الدین اور تدبر فی الکتب و السنۃ نہیں ہے۔ اسی چیز کے فقدان نے ان کے اعتقادات کو کھوکھلا، ان کی عبادت کو بے روح، ان کی مساعی کو پراگندہ و پریشان اور ان کی زندگیوں کو بے ضابطہ و بد نظم کر دیا ہے۔ اسلام کے شیدائی ان میں بہت ہیں، مگر اسلام کو سمجھنے والے بہت ہی کم ہیں۔ قرآن اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے جس دین کو پیش کیا ہے اس کی روح اور اس کے اصول کو سمجھنے والے آٹے میں نمک کے برابر ہیں بلکہ اتنے بھی نہیں۔ یہ اسی نافہمی کے نتائج ہیں کہ جو لوگ اپنے آپ کو مسلمان کہتے اور سمجھتے ہیں ان میں بدترین قسم کے توہمات اور مشرکانہ عقائد سے لے کر الحاد، دہریت اور کفر کی حد کو پہنچے ہوئے خیالات تک پائے جاتے ہیں اور ان کو اس بات کا احساس تک نہیں کہ جس اسلام کی پیروی کے وہ مدعی ہیں اس میں اور ان خیالات میں کلی تبایُن ہے۔ اس سے بدتر حالت اخلاقی و عملی زندگی کی ہے۔ بت پرستانہ رسوم و رواجات سے لے کر جدید مغربی تہذیب کے بدترین ثمرات تک ہر قسم کے اطوار اس قوم میں رائج ہیں جو اپنے آپ کو اسلام کا پیرو کہتی ہے۔ اور الاماشاء اللہ کسی گروہ کو یہ احساس تک نہیں کہ وہ کہاں کہاں اس قانون کے اصول اور قواعد سے صریح انحراف کر گئی ہے جس پر ایمان رکھنے کا اس کو دعویٰ ہے۔ ہر غلط خیال اور غلط طریقہ جو کہیں سے آتا ہے ان میں رواج پا جاتا ہے اور یہ سمجھتے ہیں کہ اسلام میں اس کی بھی گنجائش ہے۔ ہر گمراہ کن شخص جو کسی خوش آیندہ طریقے پر چل رہا ہے،بآسانی ان کا رہنما بن جاتا ہے اور یہ سمجھتے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہم اس کی پیروی بھی کرسکتے ہیں۔ ہر چیز جو غیر اسلام ہے وہ بے تکلف اسلام کے ساتھ ایک ہی دماغ اور ایک ہی زندگی میں جمع کرلی جاتی ہے، کیونکہ اسلام اور غیر اسلام کا امتیاز علم و فہم پر موقوف ہے، اور اسی کا یہاں فقدان ہے۔ جو شخص مشرق اور مغرب کا فرق جانتا ہو وہ کبھی اس حماقت میں مبتلا نہیں ہوسکتا کہ مشرق کی طرف چل رہا ہو اور یہ سمجھے کہ مغرب کی سمت جارہا ہوں۔ یہ فعل صرف ایک جاہل ہی کا ہوسکتا ہے، اور یہی جہالت ہم ایک نہایت قلیل جماعت کے سوا مشرق سے لے کر مغرب تک مسلمانوں میں عام دیکھ رہے ہیں، خواہ وہ ان پڑھ عوام ہوں، یا دستار بند علماء یا خرقہ پوش مشائخ، یا کالجوں اور یونیورسٹیوں کے تعلیم یافتہ حضرات۔ ان سب کے خیالات اور طور طریقے ایک دوسرے سے بدرجہا مختلف ہیں، مگر اسلام کی حقیقت اور اس کی روح سے ناواقف ہونے میں یہ سب یکساں ہیں۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک نہایت ہی حکیمانہ ارشاد ہے کہ:
صِنْفَانِ اِذَا صَلُحَا صَلُحَتْ الْامَّۃُ وَاِذَا فَسَدَ فَسَدَتِ الْاُمَّۃُ أَلسُّلطَانُ وَالَّعُلَمَائُ
دو گروہ ہیں کہ اگر وہ درست ہوں تو امت درست ہے اور اگر وہ بگڑ جائیں تو امت بگڑ جائے، حکمران اور علماء۔
مسلمانوں کی تاریخ کا ہر باب اس ارشاد نبوی کی صداقت پر گواہ ہے۔ اور سب سے زیادہ آج ہم اس کی صداقت کو نمایاں دیکھ رہے ہیں۔ اگر ہمارے حکمرانوں اور علماء میں تقویٰ اور دین کا صحیح علم ہوتا تو نوبت یہاں تک نہ پہنچتی، اور آج بھی اگر مسلمان قوموں کو ایسے رہنما میسر آجائیں تو حالات کے اس درجہ بگڑ جانے پر بھی اصلاح سے مایوس ہونے کی کوئی وجہ نہیں۔
(ترجمان القرآن، شوال ۱۳۵۴ھ۔ جنوری ۱۹۳۶ئ)