Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

دیباچہ
مقدمہ
باب اول:
دین و سیاست
۱۔مذہب کا اسلامی تصور
۲۔ اسلامی ریاست کیوں؟
۳۔ اسلام اور اقتدار
۴۔ دین و سیاست کی تفریق کا باطل نظریہ اورقصۂ یوسف ؑ سے غلط استدلال
۵۔ تفریق دین و سیاست کا دفاع اور اس کا جائزہ
باب ٢
اسلام کا سیاسی نظریہ
۱۔بنیادی مُقدّمات
۲۔ نظریۂ سیاسی کے اوّلین اصول
۳۔ اسلامی ریاست کی نوعیت
۴۔ اسلامی ریاست کی خصوصیات
۵۔ نظریۂ خلافت اور اس کے سیاسی مضمرات
باب۳ قرآن کا فلسفہ ٔ سیاست
۱۔علم سیاست کے بنیادی سوال
۲۔ چند بنیادی حقیقتیں
۳۔اسلامی تصورِ حیات
۴۔ دین اور قانونِ حق
۵۔حکومت کی ضرورت اور اہمیت
۶۔ تصور حاکمیت و خلافت
۷۔ اصول اطاعت ووفاداری
باب ۴
معنی ٔ خلافت
باب ۵
۱۔اسلامی تصور قومیت
۲۔ اسلامی قومیت کا حقیقی مفہوم
باب۶
اسلام کے دستوری قانون کے مآخذ
ا۔قرآن مجید
۲۔ سنتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۸۴؎
۳۔خلافتِ راشدہ کا تعامل
۴۔ مجتہدینِ امت کے فیصلے
ضمیمہ باب ۶: سنت ِرسولؐ اللہ بحیثیت ِ مآ خذ ِقانون
باب۷
اسلامی ریاست کی بنیادیں
۱۔حاکمیت کس کی ہے؟
۲۔ ریاست کے حدودِ عمل
۳۔ اعضائے ریاست کے حدودِ عمل اور ان کا باہمی تعلق
۴۔ ریاست کا مقصدِ وجود
۵۔حکومت کی تشکیل کیسے ہو؟
۶۔اولی الامر کے اوصاف
۷۔ شہریت اور اس کی بنیادیں
۸۔ حقوقِ شہریت
۹۔شہریوں پر حکومت کے حقوق
باب ۸
اسلامی دستور کی بنیادیں
۱۔حاکمیت الٰہی
۲۔ مقامِ رسالت
۳۔ تصورِ خلافت
۴۔ اصولِ مشاورت
۵۔اصولِ انتخاب
۶۔عورتوں کے مناصب
۷۔ حکومت کا مقصد
۸۔ اولی الامر اور اصولِ اطاعت
۹۔ بنیادی حقوق اور اجتماعی عدل
۱۰۔فلاحِ عامہ
باب ۹
۱۔ دورِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم
۲۔ خلافتِ راشدہ
باب ۱۰
۱۔ اسلام میں قانون سازی کا دائرۂ عمل اور اس میں اجتہاد کا مقام
۲۔قانون سازی‘ شوریٰ اور اجماع
۳۔نظام اسلامی میں نزاعی امور کے فیصلے کا صحیح طریقہ
باب۱۱
۱۔ اسلامی ریاست کے چند پہلو
۲۔خلافت و حاکمیت۲۰۳؎
۳۔ ملکی سیاست میں عورتوں کا حصہ
۴۔ذمیوں کے حقوق۲۱۱؎
(۵) ذمیوں کے حقوق۲۱۶؎
۶۔چند متفرق مسائل
باب ۱۲
انسان کے بنیادی حقوق
باب۱۳
غیر مسلموں کے حقوق
باب۱۴
اسلام اور عدلِ اجتماعی
باب ۱۵
اسلامی ریاست کے رہنما اُصول
باب۱۶
۱۔اسلامی انقلاب کی راہ
ضمیمہ نمبر ۱
ضمیمہ نمبر ۲

اسلامی ریاست

اسلام ایک کامل دین اور مکمل دستور حیات ہے اسلام جہاں انفرادی زندگی میں فردکی اصلاح پر زور دیتا ہے وہیں اجتماعی زندگی کے زرین اُصول وضع کرتا ہے جوزندگی کے تمام شعبوں میں انسانیت کی راہ نمائی کرتا ہے اسلام کا نظامِ سیاست وحکمرانی موجودہ جمہوری نظام سے مختلف اوراس کے نقائص ومفاسد سے بالکلیہ پاک ہے۔ اسلامی نظامِ حیات میں جہاں عبادت کی اہمیت ہے وہیں معاملات ومعاشرت اور اخلاقیات کو بھی اولین درجہ حاصل ہے۔ اسلام کا جس طرح اپنا نظامِ معیشت ہے اور اپنے اقتصادی اصول ہیں اسی طرح اسلام کا اپنا نظامِ سیاست وحکومت ہےاسلامی نظام میں ریاست اور دین مذہب اور سلطنت دونوں ساتھ ساتھ چلتے ہیں، دونوں ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں دونوں ایک دوسرے کے مددگار ہیں، دونوں کے تقاضے ایک دوسرے سے پورے ہوتے ہیں، چنانچہ ماوردی کہتے ہیں کہ جب دین کمزور پڑتا ہے تو حکومت بھی کمزور پڑ جاتی ہے اورجب دین کی پشت پناہ حکومت ختم ہوتی ہے تو دین بھی کمزور پڑ جاتا ہے، اس کے نشانات مٹنے لگتے ہیں۔ اسلام نے اپنی پوری تاریخ میں ریاست کی اہمیت کوکبھی بھی نظر انداز نہیں کیا۔انبیاء کرامؑ وقت کی اجتماعی قوت کواسلام کےتابع کرنے کی جدوجہد کرتے رہے۔ ان کی دعوت کا مرکزی تخیل ہی یہ تھا کہ اقتدار صرف اللہ تعالیٰ کےلیے خالص ہو جائے اور شرک اپنی ہر جلی اور خفی شکل میں ختم کردیا جائے ۔قرآن کےمطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یوسف ،حضرت موسی، حضرت داؤد، اور نبی کریم ﷺ نے باقاعدہ اسلامی ریاست قائم بھی کی اور اسے معیاری شکل میں چلایا بھی۔اسلامی فکر میں دین اورسیاست کی دوری کاکوئی تصور نہیں پایا جاتا اور کا اسی کانتیجہ ہے کہ مسلمان ہمیشہ اپنی ریاست کواسلامی اصولوں پر قائم کرنے کی جدوجہد کرتے رہے۔ یہ جدوجہد ان کے دین وایمان کاتقاضا ہے۔قرآن پاک اور احادیث نبویہ میں جس طرح اخلاق اور حسنِ کردار کی تعلیمات موجود ہیں۔اسی طرح معاشرت،تمدن اور سیاست کے بارے میں واضح احکامات بھی موجود ہیں۔ زیر نظر کتاب’’اسلامی ریاست‘‘مفکرِ اسلام مولا نا سید ابو الاعلیٰ مودودی کی کی تصنیف ہے ۔جس میں انھوں نے بیک وقت ان دونوں ضرورتوں کو پورا کرنے کی کما حقہ کوشش کی ہے ۔ ایک طرف انھوں نے اسلام کےپورے نظام حیات کودینی اور عقلی دلائل کےساتھ اسلام کی اصل تعلیمات کودورحاضر کی زبان میں پیش کیاہے ۔ ان کی تحریرات کےمطالعہ سے قاری کوزندگی کے بارے میں اسلام کے نقظہ نظر کا کلی علم حاصل ہوتا ہے اوروہ پوری تصویر کو بیک نظر دیکھ سکتا ہے۔انھوں نےہر مرعوبیت سے بالا تر ہوکر دورحاضرکے ہر فتنہ کا مقابلہ کیا اور اسلام کے نظام زندگی کی برتری اورفوقیت کوثابت کیا ہے۔پھر یہ بھی بتایا ہےکہ اس نظام کودور حاضر میں کیسے قائم کیا جاسکتا ہے اور آج کے اداروں کوکس طرح اسلام کے سانچوں میں ڈھالا جاسکتاہے ۔انھوں نے اسلامی ریاست کے ہمہ پہلوؤں کی وضاحت کرتے ہوئےدور جدید کے تقاضوں کوسامنے رکھ کر اسلامی ریاست کا مکمل نقشہ پیش کیاہے ۔کتاب ہذا دراصل مولانامودودی کے منتشر رسائل ومضامین کامجموعہ ہے جسے پروفیسر خورشید احمد صاحب (مدیر ماہنامہ ترجمان القرآن)نے بڑے حسن ترتیب سے مرتب کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ مصنف ومرتب کی اشاعتِ اسلام کےلیے کی جانے والی تمام کاوشوں کو قبول فرماے۔آمین

اسلام اور عدلِ اجتماعی

انسان کو اللہ تعالیٰ نے جس احسن تقویم پر پیدا کیا ہے اس کے عجیب کرشموں میں سے ایک یہ ہے کہ وہ عریاں فساد اور بے نقاب فتنے کی طرف کم ہی راغب ہوتا ہے اور اس بنا پر شیطان اکثر مجبور ہوتا ہے کہ اپنے فتنہ و فساد کو کسی نہ کسی طرح صلاح و خیر کا دھوکا دینے والا لباس پہنا کر اس کے سامنے لائے۔ جنت میں آدم علیہ السلام کو یہ کہہ کر شیطان ہرگز دھوکا نہ دے سکتا تھا کہ میں تم سے خدا کی نافرمانی کرانا چاہتا ہوں تاکہ تم جنت سے نکال دیے جائو، بلکہ اس نے یہ کہہ کر انھیں دھوکا دیا کہ ھَلْ اَدُلُّکَ عَلٰی شَجَرَۃِ الْخُلْدِ وَ مُلْکٍ لاَّ یَبْلٰی۔ طہ 120:20
کیا میں تمھیں وہ درخت بتائوں جو حیات ابدی اور لازوال بادشاہی کا درخت ہے۔
یہی انسان کی فطرت آج تک بھی چل رہی ہے۔ آج بھی جتنی غلطیوں اور حماقتوں میں شیطان اس کو مبتلا کر رہا ہے وہ سب کسی نہ کسی پر فریب نعرے اور کسی نہ کسی لباسِ زُور کے سہارے مقبول ہو رہی ہیں۔
۱۔ دورِ جدید کے چند فریب
انھی دھوکوں میں سے ایک بہت بڑا دھوکا وہ ہے جو موجودہ زمانے میں اجتماعی عدل (social justice)کے نام سے بنی نوع انسان کو دیا جارہا ہے۔ شیطان پہلے ایک مدت تک دنیا کو حریت فرد (individual liberty)اور فراخ دلی (liberalism)کے نام سے دھوکا دیتا رہا اور اس کی بنیاد پر اس نے اٹھارہویں صدی میں سرمایہ داری اور لادینی جمہوریت کا ایک نظام قائم کرایا۔ ایک وقت اس نظام کے غلبے کا یہ حال تھا کہ دنیا میں اسے انسانی ترقی کا حرفِ آخر سمجھا جاتا تھا اور ہر وہ شخص جو اپنے آپ کو ترقی پسند کہلانا چاہتا ہو مجبور تھا کہ اسی انفرادی آزادی اور فراخ دلی کا نعرہ لگائے۔ لوگ یہ سمجھتے تھے کہ حیات انسانی کے لیے اگر کوئی نظام ہے تو بس وہ یہی سرمایہ داری نظام اور یہی لادینی جمہوریت ہے جو مغرب میں قائم ہے۔ لیکن دیکھتے دیکھتے وہ وقت بھی آگیا جب ساری دنیا یہ محسوس کرنے لگی کہ اس شیطانی نظام نے زمین کو ظلم وجور سے بھر دیا ہے۔ اس کے بعد ابلیس لعین کے لیے ممکن نہ رہا کہ اس نعرے سے مزید کچھ مدت تک نوع انسانی کو دھوکا دے سکے۔
پھر کچھ زیادہ دیر نہ گزری تھی کہ وہی شیطان ایک دوسرا فریب اجتماعی عدل اور اشتراکیت کے نام سے بنا لایا اور اب اس جھوٹ کے لباس میں وہ ایک دوسرا نظام قائم کروا رہا ہے۔ یہ نیا نظام اس وقت تک دنیا کے متعدد ملکوں کو ایک ایسے ظلم عظیم سے لبریز کرچکا ہے جس کی کوئی نظیر انسانی تاریخ میں نہیں پائی جاتی، مگر اس کے فریب کا یہ زور ہے کہ بہت سے دوسرے ملک اسے ترقی کا حرف آخر سمجھ کر قبول کرنے کے لیے تیار ہو رہے ہیں۔ ابھی اس فریب کا پردہ پوری طرح چاک نہیں ہوا ہے۔
مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ ان کے پاس خدا کی کتاب اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت میں ایک دائمی و ابدی ہدایت موجود ہے جو انھیں شیطانی وساوس پر متنبہ کرنے اور زندگی کے تمام معاملات میں ہدایت کی روشنی دکھانے کے لیے ابد تک کافی ہے‘ مگر یہ مساکین اپنے دین سے جاہل اور استعمار کی تہذیبی و فکری تاخت سے بری طرح مغلوب ہیں۔ اس لیے ہر وہ نعرہ جو دنیا کی غالب قوموں کے کیمپ سے بلند ہوتا ہے‘ اس کی صدائے بازگشت فوراً ہی یہاں سے بلند ہونی شروع ہو جاتی ہے۔ جس زمانے میں انقلاب فرانس کے اٹھائے ہوئے افکار کا زور تھا‘ مسلمان ملکوں میں ہر تعلیم یافتہ آدمی اپنا فرض سمجھتا تھا کہ انھی افکار کا موقع بے موقع اظہار کرے اور انھی کے سانچے میں اپنے آپ کو ڈھالے۔ اس کے بغیر وہ سمجھتا تھا کہ اس کی کوئی عزت قائم نہ ہوگی اور وہ رُجعت پسند سمجھ لیا جائے گا۔ یہ دور جب گزر گیا تو ہمارے جدید تعلیم یافتہ لوگوں کی سمت قبلہ بھی تبدیل ہونے لگی اور نیا دور آتے ہی اجتماعی عدل اور اشتراکیت کے نعرے بلند کرنے والے ہمارے درمیان پیدا ہونے لگے۔ یہاں تک بھی بات قابلِ صبر تھی۔ لیکن غضب یہ ہے کہ ایک گروہ ہمارے اندر ایسا بھی اٹھتا رہا ہے جو اپنے قبلے کی ہر تبدیلی کے ساتھ چاہتا ہے کہ اسلام بھی اپنا قبلہ تبدیل کرے۔ گویا اسلام کے بغیر یہ بیچارے جی نہیں سکتے۔ اس کا ان کے ساتھ رہنا ضروری ہے، لیکن ان کی خواہش یہ ہے کہ جس کی پیروی کرکے یہ ترقی کرنا چاہتے ہیں اس کی پیروی سے اسلام بھی مشرف ہو جائے اوردین رجعی ہونے کے الزام سے بچ جائے۔ اسی بنا پر پہلے کوشش کی جاتی تھی کہ حریت فرد اور فراخ دلی اور سرمایہ داری اور بے دین جمہوریت کے مغربی تصورات کو عین اسلامی ثابت کیا جائے‘ اور اسی بنا پر اب یہ ثابت کیا جارہا ہے کہ اسلام میں بھی اشتراکی تصور کی عدالت اجتماعیہ موجود ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں پہنچ کر ہمارے تعلیم یافتہ لوگوں کی ذہنی غلامی اور ان کی جاہلیت کی طغیانی ذلت کی انتہا کو پہنچ جاتی ہے۔
۲۔ عدالت ِ اجتماعیہ کی حقیقت
میں اس مختصر مقالے میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ عدالت اجتماعیہ درحقیقت نام کس چیز کا ہے اور اس کے قیام کی صحیح صورت کیا ہے۔ اگرچہ اس امر کی امید بہت کم ہے کہ جو لوگ اشتراکیت کو عدالت اجتماعیہ کے قیام کی واحد صورت سمجھ کر اسے نافذ کرنے پر تلے ہوئے ہیں وہ اپنی غلطی مان لیں گے اور اس سے رجوع کر لیں گے‘ کیونکہ جاہل جب تک محض جاہل رہتا ہے اس کی اصلاح کے بہت کچھ امکانات باقی رہتے ہیں‘ مگر جب وہ حاکم ہو جاتا ہے تو مَا عَلِمْتُ لَکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرِیْ۔۲۵۹؎کا زعم اسے کسی سمجھانے والے کی بات سمجھنے کے قابل نہیں رہنے دیتا، لیکن عامۃ الناس خدا کے فضل سے ہر وقت اس قابل رہتے ہیں کہ معقول طریقے سے بات سمجھا کر انھیں شیطان کے فریبوں پر متنبہ کیا جاسکے، اور یہی عامۃ الناس ہیں جنھیں فریب دے کر گمراہ اور گمراہ کن لوگ اپنی ضلالتوں کو فروغ دیتے ہیں۔ اس لیے میرے اس مقالے کی غرض دراصل عام لوگوں کے سامنے حقیقت کو کھول کر بیان کر دینا ہے۔
اسلام ہی میں عدالت ِ اجتماعیہ
اس سلسلے میں سب سے پہلی بات جو میں اپنے مسلمان بھائیوں کو سمجھانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ جو لوگ ’’اسلام میں بھی عدالت اجتماعیہ موجود ہے‘‘ کا نعرہ بلند کرتے ہیں وہ بالکل ایک غلط بات کہتے ہیں۔ صحیح بات یہ ہے کہ اسلام ہی میں عدالت ِ اجتماعیہ ہے۔ اسلام وہ دین حق ہے جو خالق کائنات اور رب کائنات نے انسان کی ہدایت کے لیے نازل فرمایا ہے، اور انسانوں کے درمیان عدل قائم کرنا اور یہ طے کرنا کہ ان کے لیے کیا چیز عدل ہے اور کیا عدل نہیں ہے‘ انسانوں کے خالق و رب ہی کاکام ہے۔ دوسرا کوئی نہ اس کا مجاز ہے کہ عدل و ظلم کا معیار تجویز کرے‘ اور نہ دوسرے کسی میں یہ اہلیت پائی جاتی ہے کہ حقیقی عدل قائم کرسکے۔ انسان اپنا آپ مالک اور حاکم نہیں ہے کہ وہ اپنے لیے معیار عدل خود تجویز کرلینے کا مجاز ہو۔ کائنات میں اس کی حیثیت خدا کے مملوک اور رعیت کی ہے‘ اس لیے معیار عدل تجویز کرنا اس کا اپنا نہیں، بلکہ اس کے مالک اور فرماں روا کاکام ہے۔ پھر انسان خواہ‘ کتنے ہی بلند مرتبے کا ہو‘ اور خواہ ایک انسان نہیں بہت سے بلند مرتبہ انسان مل کر بھی اپنا ذہن استعمال کرلیں، بہرحال انسانی علم کی محدودیت اور عقل انسانی کی کوتاہی و نارسائی اور انسانی عقل پر خواہشات و تعصبات کی دست برد سے کسی حال میں بھی مفر نہیں ہے۔ اس وجہ سے اس کا کوئی امکان نہیں ہے کہ انسان خود اپنے لیے کوئی ایسا نظام بنا سکے جو درحقیقت عدل پر مبنی ہو۔ انسان کے بنائے ہوئے نظام میں ابتداء ً بظاہر کیسا ہی عدل نظر آئے‘ بہت جلدی عملی تجربہ یہ ثابت کر دیتا ہے کہ فی الحقیقت اس میں عدل نہیں ہے۔ اسی وجہ سے ہر انسانی نظام کچھ مدت تک چلنے کے بعد ناقص ثابت ہو جاتا ہے اور انسان اس سے بیزار ہو کر ایک دوسرے احمقانہ تجربے کی طرف پیش قدمی کرنے لگتا ہے۔ حقیقی عدل صرف اسی نظام میں ہوسکتا ہے جو ایک عالم الغیب و الشہادہ اور سُبُّوح و قدوس ہستی نے بنایا ہے۔
عدل ہی اسلام کا مقصود
دوسری بات جو آغاز ہی میں سمجھ لینی ضروری ہے، وہ یہ ہے کہ جو شخص ’اسلام میں عدل‘ ہے کہتا ہے وہ حقیقت سے کم تر بات کہتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ عدل ہی اسلام کا مقصود ہے اور اسلام آیا ہی اس لیے ہے کہ عدل قائم کرے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَہُمُ الْكِتٰبَ وَالْمِيْزَانَ لِيَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ۝۰ۚ وَاَنْزَلْنَا الْحَدِيْدَ فِيْہِ بَاْسٌ شَدِيْدٌ وَّمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَلِيَعْلَمَ اللہُ مَنْ يَّنْصُرُہٗ وَرُسُلَہٗ بِالْغَيْبِ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ قَوِيٌّ عَزِيْزٌo الحدید25:57
ہم نے اپنے رسولوں ؑ کو روشن نشانیوں کے ساتھ بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی تاکہ انسان انصاف پر قائم ہو‘ اور ہم نے لوہا نازل کیا جس میں سخت طاقت اور لوگوں کے لیے فوائد ہیں‘ تاکہ اللہ یہ معلوم کرے کہ کون بے دیکھے اس کی اور اس کے رسولوں کی مدد کرتا ہے۔ یقیناً اللہ قوی اور زبردست ہے۔
یہ دو باتیں ہیں جن سے اگر ایک مسلمان غافل نہ ہو تو وہ کبھی عدالت اجتماعیہ کی تلاش میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر کسی دوسرے ماخذ کی طرف توجہ کرنے کی غلطی نہیں کرسکتا۔ جس لمحے اسے عدل کی ضرورت کا احساس ہوگا اسی لمحے اسے معلوم ہو جائے گا کہ عدل اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کسی کے پاس نہ ہے‘ اور نہ ہوسکتا ہے، اور وہ یہ بھی جان لے گا کہ عدل قائم کرنے کے لیے اس کے سوا کچھ کرنا نہیں ہے کہ اسلام‘ پورے کا پورا اسلام‘ بلا کم و کاست اسلام‘ قائم کر دیا جائے۔ عدل‘ اسلام سے الگ کسی چیز کا نام نہیں ہے۔ اسلام خود عدل ہے۔ اس کا قائم ہونا اور عدل کا قائم ہو جانا ایک ہی چیز ہے۔
۳۔عدلِ اجتماعی کیا ہے؟
اب ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ عدل اجتماعی درحقیقت ہے کس چیز کا نام اور اس کے قیام کی صحیح صورت کیا ہے؟
انسانی شخصیت کی نشوونما
ہر انسانی معاشرہ ہزاروں‘ لاکھوں اور کروڑوں افراد سے مل کر بنتا ہے۔ اس مرکب کا ہر فرد ذی روح‘ ذی عقل اور ذی شعور ہے۔ ہر فرد اپنی ایک مستقل شخصیت رکھتا ہے جسے پھلنے پھولنے اور نشوونما پانے کے لیے مواقع درکار ہیں۔ ہر فرد کا اپنا ایک ذاتی ذوق ہے۔ اس کے اپنے نفس کی کچھ رغبات و خواہشات ہیں۔ اس کے اپنے جسم و روح کی کچھ ضروریات ہیں۔ ان افراد کی حیثیت کسی مشین کے بے روح پرزوں کی سی نہیں ہے کہ اصل چیز مشین ہو، اور یہ پرزے اس مشین ہی کے لیے مطلوب ہوں‘ اور بجائے خود پرزوں کی کوئی شخصیت نہ ہو، بلکہ اس کے برعکس انسانی معاشرہ جیتے جاگتے انسانوں کا ایک مجموعہ ہے۔ یہ افراد اس مجموعے کے لیے نہیں ہیں بلکہ مجموعہ ان افراد کے لیے ہے‘ اور افراد جمع ہو کر یہ مجموعہ بناتے ہی اس غرض کے لیے ہیں کہ ایک دوسرے کی مدد سے انھیں اپنی ضروریات حاصل کرنے اور اپنے نفس و جسم کے مطالبات اور تقاضے پورے کرنے کے مواقع ملیں۔
انفرادی جواب دہی
پھر یہ تمام افراد فردًافردًاخدا کے سامنے جواب دہ ہیں۔ ہر ایک کو اس دنیا میں ایک خاص مدت امتحان (جو ہر فرد کے لیے الگ مقرر ہے) گزارنے کے بعد اپنے خدا کے حضور جاکر حساب دینا ہے کہ جو قوتیں اور صلاحیتیں اسے دنیا میں دی گئی تھیں ان سے کام لے کر اور جو ذرائع اسے عطا کیے گئے تھے ان پر کام کرکے وہ اپنی کیا شخصیت بنا کر لایا ہے۔ خدا کے سامنے انسان کی یہ جواب دہی اجتماعی نہیں بلکہ انفرادی ہے۔ وہاں کنبے اور قبیلے اور قومیں کھڑی ہو کر حساب نہیں دیں گی‘ بلکہ دنیا کے تمام رشتوں سے کاٹ کر اللہ تعالیٰ ہر ہر انسان کو الگ الگ اپنی عدالت میں حاضر کرے گا اور فردًافردًااس سے پوچھے گا کہ تو کیا کرکے آیا ہے اور کیا بن کر آیا ہے۔
انفرادی آزادی
یہ دونوں امور____ یعنی دنیا میں انسانی شخصیت کا نشوونما اور آخرت میں انسان کی جواب دہی ____ اسی بات کے طالب ہیں کہ دنیا میں فرد کو حریت حاصل ہو۔ اگر کسی معاشرے میں فرد کو اپنی پسند کے مطابق اپنی شخصیت کی تکمیل کے مواقع حاصل نہ ہوں تو اس کے اندر انسانیت ٹھٹھر کر رہ جاتی ہے‘ اس کا دم گھٹنے لگتا ہے‘ اس کی قوتیں اور قابلیتیں دب کر رہ جاتی ہیں اور اپنے آپ کو محصور و محبوس پاکر انسان جمود و تعطل کا شکار ہو جاتا ہے۔ پھر آخرت میں ان محبوس و محصور افراد کے قصوروں کی بیش تر ذمے داریاں ان لوگوں کی طرف منتقل ہو جانے والی ہیں جو اس قسم کے اجتماعی نظام کو بنانے اور چلانے کے ذمے دار ہوں۔ ان سے صرف ان کے انفرادی اعمال ہی کا محاسبہ نہ ہوگا، بلکہ اس بات کا محاسبہ بھی ہوگا کہ انھوں نے ایک جابرانہ نظام قائم کرکے دوسرے بے شمار انسانوں کو ان کی مرضی کے خلاف اور اپنی مرضی کے مطابق ناقص شخصیتیں بننے پر مجبور کیا۔ ظاہر ہے کہ کوئی مومن بالآخر یہ بھاری بوجھ اٹھا کر خدا کے سامنے جانے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ وہ اگر خدا سے ڈرنے والا انسان ہے تو لازمًا وہ افراد کو زیادہ سے زیادہ حریت دینے کی طرف مائل ہوگا تاکہ ہر فرد جو کچھ بھی بنے اپنی ذمے داری پر بنے۔ اس کے ایک غلط شخصیت بننے کی ذمے داری اجتماعی نظام چلانے والے پر عاید نہ ہو جائے۔
اجتماعی ادارے اور ان کا اقتدار
یہ معاملہ تو ہے انفرادی آزادی کا۔ دوسری طرف معاشرے کو دیکھیے جو کنبوں‘ قبیلوں‘ قوموں اور پوری انسانیت کی شکل میں علی الترتیب قائم ہوتا ہے۔ اس کی ابتدا ایک مرد اور ایک عورت اور ان کی اولاد سے ہوتی ہے، جس سے خاندان بنتا ہے۔ ان خاندانوں سے قبیلے اور برادریاں بنتی ہیں‘ ان سے ایک قوم وجود میں آتی ہے‘ اور قوم اپنے اجتماعی اداروں کی تنفیذ کے لیے ایک ریاست کا نظام بناتی ہے۔ ان مختلف شکلوں میں یہ اجتماعی ادارے اصلاً جس غرض کے لیے مطلوب ہیں وہ یہ ہے کہ ان کی حفاظت اور ان کی مدد سے فرد کو اپنی شخصیت کی تکمیل کے وہ مواقع نصیب ہوسکیں جو وہ تنہا اپنے بل بوتے پر حاصل نہیں کرسکتا، لیکن اس بنیادی مقصد کا حصول اس کے بغیر نہیں ہوسکتا کہ ان میں سے ہر ایک ادارے کو افراد پر‘ اور بڑے ادارے کو چھوٹے اداروں پر اقتدار حاصل ہو، تاکہ وہ افراد کی ایسی آزادی کو روک سکیں جو دوسروں پر دست درازی کی حد تک پہنچتی ہو‘ اور افراد سے وہ خدمت لے سکیں جو بحیثیت مجموعی تمام افراد معاشرہ کی فلاح و ترقی کے لیے مطلوب ہو۔ یہی وہ مقام ہے جہاں پہنچ کر عدالت اجتماعیہ کا مسئلہ پیدا ہوتا ہے اور انفرادیت و اجتماعیت کے متضاد تقاضے ایک گتھی کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔ ایک طرف انسانی فلاح اس بات کی مقتضی ہے کہ فرد کو معاشرے میں آزادی حاصل ہو، تاکہ وہ اپنی صلاحیتوں اور اپنی پسند کے مطابق اپنی شخصیت کی تکمیل کرسکے، اور اسی طرح خاندان‘ قبیلے‘ برادریاں‘ اور مختلف گروہ بھی اپنے سے بڑے دائرے کے اندر اس آزادی سے متمتع ہوں جو ان کے اپنے دائرۂ عمل میں انھیں حاصل ہونی ضروری ہے، مگر دوسری طرف انسانی فلاح ہی اس بات کا بھی تقاضا کرتی ہے کہ افراد پر خاندان کا‘ خاندانوں پر قبیلوں اور برادریوں کا‘ اور تمام افراد اور چھوٹے اداروں پر ریاست کا اقتدار ہو‘ تاکہ کوئی اپنی حد سے تجاوز کرکے دوسروں پر ظلم و تعدّی نہ کرسکے، اور یہی مسئلہ آگے چل کر پوری انسانیت کے لیے بھی پیدا ہوتا ہے کہ ایک طرف ہر قوم اور ریاست کی آزادی و خود مختاری کا برقرار رہنا بھی ضروری ہے‘ اور دوسری طرف کسی بالا تر قوتِ ضابطہ کا ہونا بھی ضروری ہے کہ یہ قومیں اور ریاستیں حد سے تجاوز نہ کرسکیں۔
اب عدالت ِ اجتماعیہ درحقیقت جس چیز کا نام ہے وہ یہ ہے کہ افراد‘ خاندانوں‘ قبیلوں‘ برادریوں اور قوموں میں سے ہر ایک کو مناسب آزادی بھی حاصل ہو، اور اس کے ساتھ ظلم و عدوان کو روکنے کے لیے مختلف اجتماعی اداروں کو افراد پر اور ایک دوسرے پر اقتدار بھی حاصل رہے‘ اور مختلف افراد و مجتمعات سے وہ خدمت بھی لی جاسکے جو اجتماعی فلاح کے لیے درکار ہے۔
سرمایہ داری اور اشتراکیت کی خامیاں
اس حقیقت کو جو شخص اچھی طرح سمجھ لے گا وہ پہلی ہی نظر میں یہ جان لے گا کہ جس طرح حریت فرد‘ فراخ دلی‘ سرمایہ داری اور بے دین جمہوریت کا وہ نظام، اجتماعی عدل کے منافی تھا جو انقلاب فرانس کے نتیجے میں قائم ہوا تھا‘ ٹھیک اسی طرح، بلکہ اس سے بھی زیادہ اشتراکیت بھی اس کے قطعی منافی ہے جو کارل مارکس اور اینجلز کے نظریات کی پیروی میں اختیار کی جارہی ہے۔ پہلے نظام کا قصور یہ تھا کہ اس نے فرد کو حد مناسب سے زیادہ آزادی دے کر خاندان‘ قبیلے‘ برادری‘ معاشرے اور قوم پر تعدّی کرنے کی کھلی چھوٹ دے دی اور اس سے اجتماعی فلاح کی خدمت لینے کے لیے معاشرے کی قوتِ ضابطہ کو بہت ڈھیلا کر دیا، اور اس دوسرے نظام کا قصور یہ ہے کہ یہ ریاست کو حد سے زیادہ طاقت ور بنا کر افراد‘ خاندانوں‘ قبیلوں اور برادریوں کی آزادی قریب قریب بالکل سلب کرلیتا ہے‘ اور افراد سے مجتمع کی خدمت لینے کے لیے ریاست کو اتنا زیادہ اقتدار دے دیتا ہے کہ افراد ذی روح انسانوں کے بجائے ایک مشین کے بے روح پرزوں کی حیثیت اختیار کرلیتے ہیں۔ بالکل جھوٹ کہتا ہے جو کہتا ہے کہ اس طریقے سے عدالتِ اجتماعیہ قائم ہوسکتی ہے۔
اشتراکیت: ظلمِ اجتماعی کی بدترین شکل
درحقیقت یہ ظلمِ اجتماعی کی وہ بدترین صورت ہے جو کبھی کسی نمرود‘ کسی فرعون اور کسی چنگیز خان کے دور میں بھی نہ رہی تھی۔ آخر اس چیز کو کون صاحب عقل اجتماعی عدل سے تعبیر کرسکتا ہے کہ ایک شخص یا چند اشخاص بیٹھ کر اپنا ایک اجتماعی فلسفہ تصنیف کرلیں‘ پھر حکومت کے غیر محدود اختیارات سے کام لے کر اس فلسفے کو زبردستی ایک پورے ملک کے رہنے والے کروڑوں افراد پر زبردستی مسلط کر دیں۔ لوگوں کے اموال ضبط کریں‘ زمینوں پر قبضہ کریں‘ کارخانوں کو قومی ملکیت بنائیں اور پورے ملک کو ایک ایسے جیل خانے میں تبدیل کر دیں جس میں تنقید‘ فریاد‘ شکایت‘ استغاثے اور عدالتی انصاف کا ہر دروازہ لوگوں کے لیے مسدود ہو۔ ملک کے اندر کوئی جماعت نہ ہو‘ کوئی تنظیم نہ ہو‘ کوئی پلیٹ فارم نہ ہو جس پر لوگ زبان کھول سکیں‘ کوئی پریس نہ ہو جس میں لوگ اظہار خیال کرسکیں‘ اور کوئی عدالت نہ ہوجس کا دروازہ انصاف کے لیے کھٹکھٹا سکیں۔ جاسوسی کا نظام اتنے بڑے پیمانے پر پھیلا دیا جائے کہ ہر ایک آدمی دوسرے آدمی سے ڈرنے لگے کہ کہیں یہ جاسوس نہ ہو۔ حتیٰ کہ اپنے گھر میں بھی ایک آدمی زبان کھولتے ہوئے پہلے چاروں طرف دیکھ لے کہ کوئی کان اس کی بات سننے اور کوئی زبان اسے حکومت تک پہنچانے کے لیے کہیں پاس ہی موجود نہ ہو۔ پھر جمہوریت کا فریب دینے کے لیے انتخابات کروائے جائیں‘ مگر پوری کوشش کی جائے کہ اس فلسفے کی تصنیف کرنے والوں سے اختلاف رکھنے والا کوئی شخص ان انتخابات میں حصہ نہ لے سکے‘ اور نہ کوئی ایسا شخص ان میں دخیل ہوسکے جو خود اپنی کوئی رائے بھی رکھتا ہو، اور اپنا ضمیر فروخت کرنے والا بھی نہ ہو۔
بالفرض اس طریقے سے اگر معاشی دولت کی مساوی تقسیم ہو بھی سکے____ درآںحالیکہ آج تک کوئی اشتراکی نظام ایسا نہیں کرسکا ہے____ تب بھی کیا عدل محض معاشی مساوات کا نام ہے؟ میں یہ سوال نہیں کرتا کہ اس نظام کے حاکموں اور محکوموں کے درمیان بھی معاشی مساوات ہے یا نہیں؟ میں یہ بھی نہیں پوچھتا کہ اس نظام کا ڈکٹیٹر اور اس کے اندر رہنے والا ایک کسان‘ کیا اپنے معیار زندگی میں مساوی ہیں؟ میں صرف یہ پوچھتا ہوں کہ اگر ان سب کے درمیان واقعی پوری معاشی مساوات قائم بھی ہو جائے تو کیا اس کا نام اجتماعی عدل ہوگا؟ کیا عدل یہی ہے کہ ڈکٹیٹر اور اس کے ساتھیوں نے جو فلسفہ گھڑا ہے اس کو تو وہ پولیس اور فوج اور جاسوسی نظام کی طاقت سے بالجبر ساری قوم پر مسلط کر دینے میں بھی آزاد ہو، اور قوم کا کوئی فرد اس فلسفے پر، یا اس کی تنفیذ کے کسی چھوٹے سے چھوٹے جزوی عمل پر محض زبان سے ایک لفظ نکالنے تک میں آزاد نہ ہو؟ کیا یہ عدل ہے کہ ڈکٹیٹر اور اس کے چند مٹھی بھر حامی اپنے فلسفے کی ترویج کے لیے تمام ملک کے ذرائع و وسائل استعمال کرنے اور ہر قسم کی تنظیمات بنانے کے حق دار ہوں، مگر ان سے مختلف رائے رکھنے والے دو آدمی بھی مل کر کوئی تنظیم نہ کرسکیں‘ کسی مجمعے کو خطاب نہ کرسکیں‘ اور کسی پریس میں ایک لفظ بھی شائع نہ کرا سکیں؟ کیا یہ عدل ہے کہ تمام زمین داروں اور کارخانہ داروں کو بے دخل کرکے پورے ملک میں صرف ایک ہی زمین دار اور کارخانہ دار رہ جائے جس کا نام حکومت ہو‘ اور وہ حکومت چند گنے چنے آدمیوں کے ہاتھ میں ہو‘ اور وہ آدمی ایسی تمام تدابیر اختیار کر لیں جن سے پوری قوم بالکل بے بس ہو جائے اور حکومت کے اختیارات کا ان کے ہاتھ سے نکل کر دوسروں کے ہاتھ میں چلا جانا قطعی ناممکن ہو جائے؟
انسان اگر محض پیٹ کا نام نہیں ہے‘ اور انسانی زندگی اگر صرف معاش تک محدود نہیں ہے‘ تو محض معاشی مساوات کو عدل کیسے کہا جاسکتا ہے۔ زندگی کے ہر شعبے میں ظلم و جور قائم کرکے‘ اور انسانیت کے ہر رخ کو دبا کر صرف معاشی دولت کی تقسیم میں لوگوں کو برابر بھی کردیا جائے‘ اور خود ڈکٹیٹر اور اس کے اذناب بھی اپنے معیار زندگی میں لوگوں کے برابر ہو کر رہیں‘ تب بھی اس ظلم عظیم کے ذریعے سے یہ مساوات قائم کرنا اجتماعی عدل قرار نہیں پاسکتا بلکہ یہ‘ جیسا کہ ابھی میں آپ سے عرض کر چکا ہوں‘ وہ بدترین اجتماعی ظلم ہے جس سے تاریخ انسانی کبھی اس سے پہلے آشنا نہ ہوئی تھی۔
۴۔اسلام میں عدل کا تصور
اب میں اختصار کے ساتھ آپ کو بتائوں گا کہ اسلام میں جس چیز کا نام عدل ہے وہ کیا ہے۔ اسلام میں اس امر کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ کوئی شخص‘ یا انسانوں کا کوئی گروہ انسانی زندگی میں عدل کا کوئی فلسفہ اور اس کے قیام کا کوئی طریقہ بیٹھ کر خود گھڑ لے اور اسے بالجبر لوگوں پر مسلط کر دے اور کسی بولنے والی زبان کو حرکت نہ کرنے دے۔ یہ مقام ابوبکر صدیق ؓ اور عمر فاروق ؓ کو تو کیا‘ خود محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی حاصل نہ تھا۔ اسلام میں کسی ڈکٹیٹر کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ صرف خدا ہی کا یہ مقام ہے کہ انسان اس کے حکم کے آگے بے چون و چرا سر جھکا دیں۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی اس کے حکم کے تابع تھے اور ان کے حکم کی اطاعت صرف اس لیے فرض تھی کہ وہ خدا کی طرف سے حکم دیتے تھے نہ کہ معاذ اللہ اپنے نفس سے گھڑ کر کوئی فلسفہ لے آتے تھے۔ رسولؐ اور خلفائے رسولؐ کے نظام حکم میں صرف شریعت الٰہیہ تنقید سے بالاتر تھی۔ اس کے بعد ہر شخص کو ہر وقت ہر معاملے میں زبان کھولنے کا پورا حق حاصل تھا۔
آزادیِ فرد کے حدود
اسلام میں اللہ تعالیٰ نے خود وہ حدود قائم کردیے ہیں جن میں افراد کی آزادی کو محدود ہونا چاہیے۔ اس نے خود متعین کر دیا ہے کہ ایک فرد مسلم کے لیے کون کون سے افعال حرام ہیں جن سے اس کو بچنا چاہیے اور کیا کچھ اس پر فرض ہے جسے اس کو ادا کرنا چاہیے۔ کیا حقوق اس کے دوسروں پر ہیں اور کیا حقوق دوسروں کے اس پر ہیں۔ کن ذرائع سے ایک مال کی ملکیت کا اس کی طرف منتقل ہونا جائز ہے اور کون سے ذرائع ایسے ہیں جن سے حاصل ہونے والے مال کی ملکیت جائز نہیں ہے۔ افراد کی بھلائی کے لیے مجتمع پر کیا فرائض عاید ہوتے ہیں اور مجتمع کی بھلائی کے لیے افراد پر‘ خاندانوں اور برادریوں پر اور پوری قوم پر کیا پابندیاں عاید کی جاسکتی ہیں اور کیا خدمات لازم کی جاسکتی ہیں۔ یہ تمام امور کتاب و سنت کے اس مستقل دستور میں ثبت ہیں جس پر کوئی نظرثانی کرنے والا نہیں ہے اور جس میں کسی کو کمی و بیشی کر دینے کا حق نہیں ہے۔ اس دستور کی رو سے ایک شخص کی انفرادی آزادیوں پر جو پابندیاں عاید کر دی گئی ہیں ان سے تجاوز کرنے کا تو وہ حق نہیں رکھتا، لیکن ان حدود کے اندر جو آزادی اس کو حاصل ہے اسے سلب کر لینے کا بھی کسی کو حق نہیں ہے۔ کسب اموال کے جن ذرائع اور صَرفِ مال کے جن طریقوں کو حرام کر دیا گیا ہے ان کے وہ قریب نہیں پھٹک سکتا اور پھٹکے تو اسلامی قانون اسے مستوجب سزا سمجھتا ہے‘ لیکن جو ذرائع حلال ٹھیرائے گئے ہیں ان سے حاصل ہونے والی ملکیت پر اس کے حقوق بالکل محفوظ ہیں اور اس میں تصرف کے جو طریقے جائز کیے گئے ہیں ان سے کوئی اس کو محروم نہیں کرسکتا۔ اسی طرح مجتمع کی فلاح کے لیے جو فرائض افراد پر عاید کر دیے گئے ہیں، ان کے ادا کرنے پر تو وہ مجبور ہے‘ لیکن اس سے زائد کوئی بار جبراً اس پر عاید نہیں کیا جاسکتا‘ الایہ کہ وہ خود رضا کارانہ ایسا کرے، اور یہی حال مجتمع اور ریاست کا بھی ہے کہ افراد کے جو حقوق اس پر عاید کیے گئے ہیں انھیں ادا کرنا اس پر اتنا ہی لازم ہے جتنا افراد سے اپنے حقوق وصول کرنے کے اسے اختیارات ہیں۔ اس مستقل دستور کو اگر عملاً نافذ کر دیا جائے تو ایسا مکمل عدل اجتماعی قائم ہوتا ہے جس کے بعد کوئی شے مطلوب باقی نہیں رہ جاتی۔ یہ دستور جب تک موجود ہے اس وقت تک کوئی شخص خواہ کتنی ہی کوشش کرے‘ مسلمانوں کو ہرگز اس دھوکے میں نہیں ڈال سکتا کہ جو اشتراکیت اس نے کسی جگہ سے مستعار لے لی ہے وہی عین اسلام ہے۔
اسلام کے اس دستور میں فرد اور مجتمع کے درمیان ایسا توازن قائم کیا گیا ہے کہ نہ فرد کو وہ آزادی دی گئی ہے جس سے وہ مجتمع کے مفاد کو نقصان پہنچا سکے اور نہ مجتمع کو یہ اختیارات دیے گئے ہیں کہ وہ فرد سے اس کی وہ آزادی سلب کرسکے جو اس کی شخصیت کے نشوونما کے لیے ضروری ہے۔
انتقالِ دولت کے شرائط
اسلام ایک فرد کی طرف دولت کے انتقال کی صرف تین صورتیں معین کر دیتا ہے۔
۱۔وراثت، ۲۔ ہبہ، ۳۔کسب۔
وراثت صرف وہ معتبر ہے جو کسی مال کے جائز مالک سے اس کے وارث کو شرعی قاعدے کے مطابق پہنچے۔
ہبہ یا عطیہ، صرف وہ معتبر ہے جو کسی مال کے جائز مالک نے شرعی حدود کے اندر دیا ہو، اور اگر یہ عطیہ کسی حکومت کی طرف سے ہو تو وہ اسی صورت میں جائز ہے جب کہ وہ کسی صحیح خدمت کے صلے میں یا مجتمع کے مفاد کے لیے املاک حکومت میں سے معروف طریقے پر دیا گیا ہو۔ نیز اس طرح کا عطیہ دینے کی حق دار بھی وہ حکومت ہے جو شرعی دستور کے مطابق شوریٰ کے طریقے پر چلائی جارہی ہو اور جس سے محاسبہ کرنے کی قوم کو آزادی حاصل ہو۔
رہا کسب تو اسلام میں صرف وہ کسب جائز ہے جو کسی حرام طریقے سے نہ ہو۔ سرقہ‘ غصب‘ ناپ تول میں کمی بیشی‘ خیانت‘ رشوت‘ غبن‘ قحبہ گری‘ احتکار‘ ۲۶۰؎ سود‘ جوا‘ دھوکے کا سودا‘ مسکرات کی صنعت و تجارت اور اشاعت فاحشہ کرنے والے کاروبار کے ذریعے سے کسب اسلام میں حرام ہے۔ ان حدود کی پابندی کرتے ہوئے جو دولت بھی کسی کو ملے وہ اس کی جائز ملک ہے‘ قطع نظر اس سے کہ وہ کم ہو یا زیادہ۔ ایسی ملکیت کے لیے نہ کمی کی کوئی حد مقرر کی جا سکتی ہے نہ زیادتی کی۔ نہ اس کا کم ہونا اس بات کو جائز کر دیتا ہے کہ دوسروں سے چھین کر اس میں اضافہ کیا جائے‘ اور نہ اس کا زیادہ ہونا اس امر کے لیے کوئی دلیل ہے کہ اسے زبردستی کم کیا جائے، البتہ جو دولت ان جائز حدود سے تجاوز کرکے حاصل ہوئی ہو، اس کے بارے میں یہ سوال اٹھانے کا مسلمانوں کو حق پہنچتا ہے کہ مِنْ اَیْنَ لَکَ ھٰذا (یہ تجھے کہاں سے ملا)۔ اس دولت کے بارے میں پہلے قانونی تحقیق ہونی چاہیے‘ پھر اگر ثابت ہو جائے کہ وہ جائز ذرائع سے حاصل نہیں ہوئی ہے تو اسے ضبط کرنے کا اسلامی حکومت کو پورا حق پہنچتا ہے۔
صَرفِ دولت پرپابندیاں
جائز طریقے پر حاصل ہونے والی دولت پر تصرف کے بارے میں بھی فرد کو بالکل کھلی چھوٹ نہیں دے دی گئی ہے، بلکہ اس پر کچھ قانونی پابندیاں عاید کر دی گئی ہیں، تاکہ کوئی فرد اپنی ملکیت میں کسی ایسے طریقے پر تصرف نہ کرسکے جو معاشرے کے لیے نقصان دہ ہو‘ یا جس میں خود اس فرد کے دین و اخلاق کا نقصان ہو۔ اسلام میں کوئی شخص اپنی دولت کو فسق و فجور میں صرف نہیں کرسکتا۔ شراب نوشی اور قمار بازی کا دروازہ اس کے لیے بند ہے۔ زنا کا دروازہ بھی اس کے لیے بند ہے۔ وہ آزاد انسانوں کو پکڑ کر انھیں لونڈی غلام بنانے اور ان کی بیع و شریٰ کرنے کا بھی کسی کو حق نہیں دیتا کہ دولت مند لوگ اپنے گھروں کو خریدی ہوئی لونڈیوں سے بھر لیں۔ اسراف اور حد سے زیادہ ترفہ اور تنعم پر بھی وہ حدود عاید کرتا ہے اور وہ اسے بھی جائز نہیں رکھتا کہ تم خود عیش کرو اورتمھارا ہمسایہ رات کو بھوکا سوئے۔ اسلام صرف مشروع اور معروف طریقے پر ہی دولت سے متمتع ہونے کا آدمی کو حق دیتا ہے اور اگر ضرورت سے زائد دولت کو مزید دولت کمانے کے لیے کوئی شخص استعمال کرنا چاہے تو وہ کسبِ مال کے صرف حلال طریقے ہی اختیار کرسکتا ہے۔ ان حدود سے تجاوز نہیں کرسکتا جو شریعت نے کسب پر عاید کر دی ہیں۔
معاشرتی خدمت
پھر اسلام معاشرے کی خدمت کے لیے ہر اس فرد پر جس کے پاس نصاب سے زائد مال جمع ہو زکوٰۃ عاید کرتا ہے۔ نیز وہ اموالِ تجارت پر‘ زمین کی پیداوار پر‘ مواشی پر‘ اور بعض دوسرے اموال پر بھی ایک خاص شرح سے زکوٰۃ مقرر کرتا ہے۔ آپ دنیا کے کسی ملک کو لے لیجیے اور حساب لگا کر دیکھ لیجیے کہ اگر شرعی طریقے کے مطابق وہاں باقاعدہ زکوٰۃ وصول کی جائے اور اسے قرآن کے مقرر کیے ہوئے مصارف میں باقاعدہ تقسیم کیا جائے تو کیا چند سال کے اندر وہاں ایک شخص بھی حاجات زندگی سے محروم رہ سکتا ہے۔
اس کے بعد جو دولت کسی ایک فرد کے پاس مرتکز ہوگئی ہو‘ اسلام اس کے مرتے ہی اس دولت کو وراثت میں تقسیم کر دیتا ہے، تاکہ یہ ارتکاز ایک دائمی اور مستقل ارتکاز بن کر نہ رہ جائے۔
استیصالِ ظلم
اس کے علاوہ اسلام اگرچہ اس کو پسند کرتا ہے کہ مالک زمین اور مزارع‘ یا کارخانہ دار اور مزدور کے درمیان خود باہمی رضامندی سے معروف طریقے پر معاملات طے ہوں‘ اور قانون کی مداخلت کی ضرورت پیش نہ آئے۔ لیکن جہاں کہیں ان معاملات میں ظلم ہو رہا ہو وہاں اسلامی حکومت مداخلت کرنے کا پورا حق رکھتی ہے اور قانون کے ذریعے سے انصاف کے حدود قائم کرسکتی ہے۔
مصالحِ عامہ کے لیے قومی ملکیت کے حدود
اسلام اس امر کو حرام نہیں کرتا کہ کسی صنعت یا کسی تجارت کو حکومت اپنے انتظام میں چلائے۔ اگر کوئی صنعت یا تجارت ایسی ہو جس کی اجتماعی مصالح کے لیے ضرورت تو ہو، مگر افراد اس کو چلانے کے لیے تیار نہ ہوں‘ یا افراد کے انتظام میں اس کا چلنا اجتماعی مفاد کے خلاف ہو تو اسے حکومت کے انتظام میں چلایا جاسکتا ہے۔ اسی طرح اگر کوئی صنعت یا تجارت کچھ افراد کے ہاتھوں میں ایسے طریقوں سے چل رہی ہوجو اجتماعی مفاد کے لیے نقصان دہ ہو تو حکومت ان افراد کو معاوضہ دے کر وہ کاروبار اپنے ہاتھ میں لے سکتی ہے اور کسی دوسرے مناسب طریقے سے اس کے چلانے کا انتظام کرسکتی ہے۔ ان تدابیر کے اختیار کرنے میں کوئی مانع شرعی نہیں ہے۔ لیکن اسلام اس بات کو ایک اصول کی حیثیت سے قبول نہیں کرتا، کہ دولت کی پیداوار کے تمام ذرائع حکومت کی ملک میں ہوں اور حکومت ہی ملک کی واحد صَنّاع و تاجر اور مالکِ اراضی ہو۔
بیت المال میں تصرف کے شرائط
بیت المال کے بارے میں اسلام کا یہ قطعی فیصلہ ہے کہ وہ اللہ اور مسلمانوں کا مال ہے اور کسی شخص کو اس پر مالکانہ تصرف کا حق نہیں ہے۔ مسلمانوں کے تمام امور کی طرح بیت المال کا انتظام بھی قوم یا اس کے آزاد نمائندوں کے مشورے سے ہونا چاہیے۔ جس شخص سے بھی کچھ لیا جائے‘ اور جس مصرف میں بھی مال صرف کیا جائے وہ جائز شرعی طریقے پر ہونا چاہیے اور مسلمانوں کو اس پر محاسبے کا پورا حق ہے۔
ایک سوال
اس کلام کو ختم کرتے ہوئے میں ہر سوچنے والے انسان سے یہ سوال کرتا ہوں کہ اگر عدالت ِ اجتماعیہ صرف معاشی عدل ہی کا نام ہے تو کیا یہ معاشی عدل جو اسلام قائم کرتا ہے‘ ہمارے لیے کافی نہیں ہے؟ کیا اس کے بعد کوئی ضرورت ایسی باقی رہ جاتی ہے جس کی خاطر تمام افراد کی آزادیاں سلب کرنا‘ لوگوں کے اموال ضبط کرنا‘ اور ایک پوری قوم کو چند آدمیوں کا غلام بنا دینا ہی ناگزیر ہو؟
آخر اس میں کیا چیز مانع ہے کہ ہم مسلمان اپنے ملکوں میں اسلامی دستور کے مطابق خالص شرعی حکومتیں قائم کریں اور ان میں خدا کی پوری شریعت کو بلا کم و کاست نافذ کردیں۔ جس روز بھی ہم ایسا کریں گے‘ صرف یہی نہیں کہ ہمیں اشتراکیت سے کسب فیض کی کوئی ضرورت باقی نہ رہے گی‘ بلکہ خود اشتراکیت زدہ ممالک کے لوگ ہمارے نظامِ زندگی کو دیکھ کر یہ محسوس کرنے لگیں گے کہ جس روشنی کے بغیر وہ تاریکی میں بھٹک رہے تھے وہ ان کی آنکھوں کے سامنے موجود ہے۔

شیئر کریں