اسلام نے اشتراکیت اور سرمایہ داری کے درمیان جو متوسط معاشی نظریہ اختیار کیا ہے اس پر ایک نظام کی عمارت اٹھانے کے لیے وہ سب سے پہلے فرد اور معاشرے میں چند ایسی اخلاقی اور عملی بنیادیں قائم کرتا ہے جو اس عمارت کو مضبوطی کے ساتھ سنبھال سکیں۔ اس غرض کے لیے وہ ہر فرد کی ذہنیت کو درست کرکے اس میں ٹھیک وہ کیفیت پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے جو اس متوازن نظام کے چلانے والے افراد میں درکار ہے۔ وہ انفرادی آزادی پر چند حدود عائد کرتا ہے تاکہ وہ اجتماعی مفاد کے لیے مضر ہونے کے بجائے مثبت طور پر مفید و معاون ہوجائے۔ وہ معاشرے میں کچھ ایسے قواعد مقرر کرتا ہے جو معاشی زندگی کو خراب کرنے والے اسباب کا سدباب کردیتے ہیں۔ یہ اسلامی نظم معیشت کے بنیادی ارکان ہیں جنہیں سمجھ لینا جدید معاشی پیچیدگیوں کے اسلامی حل کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے۔
-1 اکتساب مال کے ذرائع میں جائز اور ناجائز کی تفریق
سب سے پہلی چیز یہ ہے کہ اسلام اپنے پیروئوں کو دولت کمانے کا عام لائسنس نہیں دیتا بلکہ کمائی کے طریقوں میں اجتماعی مفاد کے لحاظ سے جائز اور ناجائز کا امتیاز قائم کرتا ہے۔ یہ امتیاز اس قاعدہ کلیہ پر مبنی ہے کہ دولت حاصل کرنے کے تمام وہ طریقے ناجائز ہیں جن میں ایک شخص کا فائدہ دوسرے شخص یا اشخاص کے نقصان پر ہو، اور ہر وہ طریقہ جائز ہے جس میں فوائد کا مبادلہ اشخاص متعلقہ کے درمیان منصفانہ طور پر ہو۔ قرآن مجید میں اس قاعدہ کلیہ کو اس طرح بیان کیا گیا ہے۔:
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوْٓا اَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ اِلَّآ اَنْ تَكُوْنَ تِجَارَۃً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْكُمْ۰ۣ وَلَا تَقْتُلُوْٓا اَنْفُسَكُمْ۰ۭ اِنَّ اللہَ كَانَ بِكُمْ رَحِيْمًا۲۹ وَمَنْ يَّفْعَلْ ذٰلِكَ عُدْوَانًا وَّظُلْمًا فَسَوْفَ نُصْلِيْہِ نَارًا۰ۭ النساء 29,30:4
’’اے ایمان والو! آپس میں ایک دوسرے کے مال ناروا طریقوں سے نہ کھایا کرو بجز اس کے کہ لین دین آپس کی رضامندی سے ہو اور تم خود اپنے آپ کو ہلاک نہ کرو۔ اللہ تمہارے حال پر مہربان ہے اور جو کوئی اپنی حد سے تجاوز کرکے ظلم کے ساتھ ایسا کرے گا اس کو ہم آگ میں جھونک دیں گے۔‘‘
اس آیت میں لین دین کے لیے جواز کی دو شرطیں بتائی گئی ہیں۔ ایک یہ کہ لین دین باہمی رضامندی سے ہو۔ دوسرے یہ کہ ایک کا فائدہ دوسرے کا نقصان نہ ہو۔ اس معنی میں ولا تقتلوا انفسکم کا فقرہ نہایت بلیغ ہے۔ اس کے دو مفہوم ہیں اور دونوں ہی یہاں مراد لیے گئے ہیں۔ ایک یہ کہ تم آپس میں ایک دوسرے کو ہلاک نہ کرو۔ دوسرے یہ کہ تم خود اپنے آپ کو ہلاک نہ کرو۔ مطلب یہ ہے جو شخص اپنے فائدے کے لیے دوسرے کا نقصان کرتا ہے وہ گویا اس کا خون پیتا ہے اور مآل کار میں خود اپنی تباہی کا بھی راستہ کھولتا ہے۔ چوری، رشوت، قمار، دغا و فریب، سود اور تمام ان تجارتی طریقوں میں جن کو اسلام نے ناجائز قرار دیا ہے عدم جواز کے یہ دونوں اسباب پائے جاتے ہیں اور اگر بعض میں باہمی رضامندی کے وہم کی گنجائش بھی ہے تو لا تقتلوا انفسکم کی دوسری اہم شرط مفقود ہے۔
2- مال جمع کرنے کی ممانعت
دوسرا اہم حکم یہ ہے کہ جائز طریقوں سے جو دولت کمائی جائے اس کو جمع نہ کیا جائے، کیونکہ اس سے دولت کی گردش رک جاتی ہے اور تقسیم دولت میں توازن برقرار نہیں رہتا۔ دولت سمیٹ کر جمع کرنے والا نہ صرف خود بدترین اخلاقی امراض میں مبتلا ہوتا ہے بلکہ درحقیقت وہ پوری جماعت کے خلاف ایک شدید جرم کا ارتکاب کرتا ہے، اوراس کا نتیجہ آخرکار خود اس کے اپنے لیے بھی برا ہے۔ اسی لیے قرآن مجید بخل اور قارونیت کا سخت مخالف ہے۔ وہ کہتا ہے:
وَلَا يَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ يَبْخَلُوْنَ بِمَآ اٰتٰىھُمُ اللہُ مِنْ فَضْلِہٖ ھُوَخَيْرًا لَّھُمْ۰ۭ بَلْ ھُوَشَرٌّ لَّھُمْ۰ۭ آل عمران 180:3
’’جو لوگ اللہ کے دیئے ہوئے فضل میں بخل کرتے ہیں وہ یہ گمان نہ کریں کہ یہ فعل ان کے لیے اچھا ہے، بلکہ در حقیقت یہ ان کے لیے برا ہے۔‘‘
وَالَّذِيْنَ يَكْنِزُوْنَ الذَّہَبَ وَالْفِضَّۃَ وَلَا يُنْفِقُوْنَہَا فِيْ سَبِيْلِ اللہِ۰ۙ فَبَشِّرْہُمْ بِعَذَابٍ اَلِيْمٍ۳۴ۙ التوبہ 34:9
’’اور جو لوگ سونا اور چاندی جمع کرتے ہیں اور اس کو اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے ان کو عذاب الیم کی خبر دے دو۔‘‘
یہ چیز سرمایہ داری کی بنیاد پر ضرب لگاتی ہے۔ بچت کو جمع کرنا اور جمع شدہ دولت کو مزید دولت پیدا کرنے میں لگانا یہی دراصل سرمایہ داری کی جڑ ہے مگر اسلام سرے سے اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ آدمی اپنی ضرورت سے زائد دولت کو جمع کرکے رکھے۔
-3 خرچ کرنے کا حکم
جمع کرنے کے بجائے اسلام خرچ کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔ مگر خرچ کرنے سے اس کا مقصد یہ نہیں ہے کہ آپ اپنے عیش و آرام اور گلچھرّے اڑانے میں دولت لٹائیں بلکہ وہ خرچ کرنے کا حکم فی سبیل اللہ کی قید کے ساتھ دیتا ہے یعنی آپ کے پاس اپنی ضرورت سے جو کچھ بچ جائے اس کو جماعت کی بھلائی کے کاموں میں خرچ کر دیں کہ یہی سبیل اللہ ہے۔
وَيَسْــَٔـلُوْنَكَ مَاذَا يُنْفِقُوْنَ۰ۥۭ قُلِ الْعَفْوَ۰ۭ البقرہ219:2
’’اور وہ تم سے پوچھتے ہیں کہ کیا خرچ کریں۔ کہو کہ جو ضرورت سے بچ رہے۔‘‘
وَّبِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًا وَّبِذِي الْقُرْبٰى وَالْيَتٰمٰي وَالْمَسٰكِيْنِ وَالْجَارِ ذِي الْقُرْبٰى وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَـنْۢبِ وَابْنِ السَّبِيْلِ۰ۙ وَمَا مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ۰ۭ النساء 36:4
’’اور نیک سلوک کرو اپنے ماں باپ کے ساتھ اور اپنے رشتہ داروں اور یتیموں اور نادار مسکینوں اور قرابت دار پڑوسیوں اور اجنبی ہمسایوں اور اپنے ملنے جلنے والے دوستوں اور مسافروں اور لونڈی غلاموں کے ساتھ۔‘‘
وَفِيْٓ اَمْوَالِہِمْ حَقٌّ لِّلسَّاۗىِٕلِ وَالْمَحْرُوْمِ۱۹ الذاریات 19:51
’’اور ان کے مالوں میں سائل اور نادار کا حق ہے۔ ‘‘
یہاں پہنچ کر اسلام کا نقطہ نظر سرمایہ داری کے نقطۂ نظر سے بالکل مختلف ہوجاتا ہے۔
سرمایہ دار سمجھتا ہے کہ خرچ کرنے سے مفلس ہوجائوں گا اور جمع کرنے سے مالدار بنوں گا۔ اسلام کہتا ہے خرچ کرنے سے برکت ہوگی، تیری دولت گھٹے گی نہیں بلکہ اور بڑھے گی۔
اَلشَّيْطٰنُ يَعِدُكُمُ الْفَقْرَ وَيَاْمُرُكُمْ بِالْفَحْشَاۗءِ۰ۚ وَاللہُ يَعِدُكُمْ مَّغْفِرَۃً مِّنْہُ وَفَضْلًا۰ۭ البقرہ 268:2
’’شیطان تم کو ناداری کا خوف دلاتا ہے اور (بخل جیسی) شرمناک بات کا حکم دیتا ہے مگر اللہ تم سے بخشش اور مزید عطا کا وعدہ کرتا ہے۔‘‘
سرمایہ دار سمجھتا ہے کہ جو کچھ خرچ کردیا وہ کھویا گیا۔ اسلام کہتا ہے کہ نہیں وہ کھویا نہیں گیا بلکہ اس کا بہتر فائدہ تمہاری طرف پھر پلٹ کر آئے گا۔
وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَيْرٍ يُّوَفَّ اِلَيْكُمْ وَاَنْتُمْ لَا تُظْلَمُوْنَ۲۷۲ البقرہ 272:2
’’اور تم نیک کاموں میں جو کچھ خرچ کرو گے وہ تم کو پورا ملے گا اور تم پر ہر گز ظلم نہ ہوگا۔‘‘
وَاَنْفَقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰہُمْ سِرًّا وَّعَلَانِيَۃً يَّرْجُوْنَ تِجَارَۃً لَّنْ تَـبُوْرَ۲۹ۙ لِيُوَفِّيَہُمْ اُجُوْرَہُمْ وَيَزِيْدَہُمْ مِّنْ فَضْلِہٖ۰ۭ فاطر 29,30:35
’’اور جن لوگوں نے ہمارے بخشے ہوئے رزق میں سے کھلے اور چھپے طریقے سے خرچ کیا وہ ایک ایسی تجارت کی امید رکھتے ہیں جس میں گھاٹا ہر گز نہیں ہے۔ اللہ ان کے بدلے ان کو پورے پورے اجر دے گا بلکہ اپنے فضل سے کچھ زیادہ ہی عنایت کرے گا۔‘‘
سرمایہ دار سمجھتا ہے کہ دولت کو جمع کرکے اس کو سود پر چلانے سے دولت بڑھتی ہے۔ اسلام کہتا ہے کہ نہیں، سود سے تو دولت گھٹ جاتی ہے۔ دولت بڑھانے کا ذریعہ نیک کاموں میں اسے خرچ کرنا ہے۔
يَمْحَقُ اللہُ الرِّبٰوا وَيُرْبِي الصَّدَقٰتِ۰ۭ البقرہ 276:2
’’اللہ سود کا مٹھ مار دیتا ہے اور صدقات کو نشوونما دیتا ہے۔‘‘
وَمَآ اٰتَيْتُمْ مِّنْ رِّبًا لِّيَرْبُوَا۟ فِيْٓ اَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا يَرْبُوْا عِنْدَ اللہِ۰ۚ وَمَآ اٰتَيْتُمْ مِّنْ زَكٰوۃٍ تُرِيْدُوْنَ وَجْہَ اللہِ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْمُضْعِفُوْنَ۳۹ الروم 39:30
’’اور یہ جو تم سود دیتے ہو تاکہ لوگوں کے اموال میں اضافہ ہو تو اللہ کے نزدیک وہ ہر گز نہیں بڑھتا، بڑھوتری تو ان اموال کو نصیب ہوتی ہے جو تم اللہ کے لیے زکوٰۃ میں دیتے ہو۔‘‘
یہ ایک نیا نظریہ ہے جو سرمایہ داری کے نظریے کی بالکل ضد ہے۔ خرچ کرنے سے دولت کا بڑھنا اور خرچ کئے ہوئے مال کا ضائع نہ ہونا بلکہ اس کا پورا پورا بدل کچھ زائد فائدے کے ساتھ واپس آنا، زکوٰۃ و صدقات سے دولت میں کمی واقع ہونے کے بجائے اضافہ ہونا، یہ ایسے نظریات ہیں جو بظاہر عجیب معلوم ہوتے ہیں۔ سننے والا سمجھتا ہے کہ شاید ان سب باتوں کا تعلق محض ثواب آخرت سے ہوگا۔ اس میں شک نہیں کہ ان باتوں کا تعلق ثواب آخرت سے بھی ہے اور اسلام کی نگاہ میں اصلی اہمیت اسی کی ہے لیکن اگر غور سے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ اس دنیا میں بھی معاشی حیثیت سے یہ نظریات ایک نہایت مضبوط بنیاد پر قائم ہیں۔ دولت کو جمع کرنے اور اس کو سود پر چلانے کا آخری نتیجہ یہ ہے کہ دولت سمٹ سمٹ کر چند افراد کے پاس اکٹھی ہوجائے۔ جمہور کی قوت خرید (Purchasing Power) روز بروز گھٹتی چلی جائے۔ صنعت اور تجارت اور زراعت میں کساد بازاری رونما ہو، قوم کی معاشی زندگی تباہی کے سرے پر جا پہنچے اور آخر کار خود سرمایہ دار افراد کے لیے بھی اپنی جمع شدہ دولت کو افزائش دولت کے کاموں میں لگانے کا کوئی موقع باقی نہ رہے۔(۱)
بخلافت اس کے خرچ کرنے اور زکوٰۃ و صدقات دینے کا حال یہ ہے کہ قوم کے تمام افراد تک دولت پھیل جائے، ہر ہر شخص کو کافی قوت خرید حاصل ہو، صنعتیں پرورش پائیں، کھیتیاں سرسبز ہوں، تجارت کو خوب فروغ ہو، اور چاہے کوئی لکھ پتی اور کروڑ پتی نہ ہو، مگر سب خوشحال و فارغ البال ہوں۔ اس مآل اندیشانہ معاشی نظریے کی صداقت اگر دیکھنی ہو تو سرمایہ داری نظام کے تحت دنیا کے موجودہ معاشی حالات کو دیکھئے کہ جہاں سود ہی کی وجہ سے تقسیم ثروت کا توازن بگڑ گیا ہے، اور صنعت و تجارت کی کساد بازاری نے عوام کی معاشی زندگی کو تباہی کے سرے پر پہنچا دیا ہے۔ اس کے مقابلے میں ابتدائے عہد اسلامی کی حالت کو دیکھئے کہ جب اس معاشی نظریے کو پوری شان کے ساتھ عملی جامہ پہنایا گیا تو چند سال کے اندر عوام کی خوشحالی اس مرتبہ کو پہنچ گئی کہ لوگ زکوٰۃ کے مستحقین کو ڈھونڈتے پھرتے تھے اور مشکل ہی سے کوئی ایسا شخص ملتا تھا جو خود صاحب نصاب نہ ہو۔ ان دونوں حالتوں کا موازنہ کرنے سے معلوم ہوجائے گا کہ اللہ کس طرح سود کا مٹھ مارتا ہے اور صدقات کو نشوونما دیتا ہے۔
پھر اسلام جو ذہنیت پیدا کرتا ہے وہ بھی سرمایہ دارانہ ذہنیت سے بالکل مختلف ہے۔ سرمایہ دار کے ذہن میں کسی طرح یہ تصور سما ہی نہیں سکتا کہ ایک شخص اپنا روپیہ دوسرے کو سود کے بغیر کیسے دے سکتا ہے۔ وہ قرض پر نہ صرف سود لیتا ہے بلکہ اپنے رائس المال اور سود کی بازیافت کے لیے قرض دار کے کپڑے اور گھر کے برتن تک قرق کرالیتا ہے۔ مگر اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ حاجت مند کو صرف قرض ہی نہ دو بلکہ اگر وہ تنگ دست ہو تو اس پر تقاضے میں سختی بھی نہ کرو، حتیٰ کہ اگر اس میں دینے کی استطاعت نہ ہو تو معاف کردو۔
وَاِنْ كَانَ ذُوْ عُسْرَۃٍ فَنَظِرَۃٌ اِلٰى مَيْسَرَۃٍ۰ۭ وَاَنْ تَصَدَّقُوْا خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۲۸۰ البقرہ 280:2
’’اگر قرضدار تنگ دست ہو تو اس کی حالت درست ہونے تک اسے مہلت دے دو، اور اگر معاف کردو تو یہ تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے۔ اس کا فائدہ تم سمجھ سکتے ہو اگر کچھ علم رکھتے ہو۔‘‘
سرمایہ داری میں امداد باہمی کے معنی یہ ہیں کہ آپ انجمن امداد باہمی کو پہلے روپیہ دے کر اس کے رکن بنئے، پھر اگر کوئی ضرورت آپ کو پیش آئے گی تو انجمن آپ کو عام بازاری شرح سود سے کچھ کم پر قرض دے دے گی۔ اگر آپ کے پاس روپیہ نہیں ہے تو ’’امداد باہمی‘‘ سے آپ کچھ بھی امداد حاصل نہیں کرسکتے۔ برعکس اس کے اسلام کے ذہن میں امداد باہمی کا تصور یہ ہے کہ جو لوگ ذی استطاعت ہوں وہ ضرورت کے وقت اپنے کم استطاعت بھائیوں کو نہ صرف قرض دیں بلکہ قرض ادا کرنے میں بھی خسبۃً للہ ان کی مدد کریں، چنانچہ زکوٰۃ کے مصارف میں سے ایک مصرف و الغارمین بھی ہے یعنی قرضداروں کے قرض ادا کرنا۔
سرمایہ دار اگر نیک کاموں میں خرچ کرتا ہے تو محض نمائش کے لیے کیونکہ اس کم نظر کے نزدیک اس خرچ کا کم سے کم یہ معاوضہ تو اس کو حاصل ہونا ہی چاہیے کہ اس کا نام ہوجائے۔ اس کو مقبولیت عام حاصل ہو، اس کی دھاک اور ساکھ بیٹھ جائے۔ مگر اسلام کہتا ہے کہ خرچ کرنے میں نمائش ہر گز نہ ہونی چاہیے۔ خفیہ یا علانیہ جو کچھ بھی خرچ کرو، اس میں یہ مقصد پیش نظر ہی نہ رکھو کہ فوراً اس کا بدل تم کو کسی نہ کسی شکل میں مل جائے بلکہ مآل کار پر نگاہ رکھو۔ اس دنیا سے لے کر آخرت تک جتنی دور تمہاری نظر جائے گی تم کو یہ خرچ پھلتا پھولتا اور منافع پر منافع پیدا کرتا ہی دکھائی دے گا۔ ’’جو شخص اپنے مال کو نمائش کے لیے خرچ کرتا ہے اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک چٹان پر مٹی پڑی تھی، اس نے مٹی پر بیج بویا مگر پانی کا ایک ریلہ آیا اور مٹی کو بہا لے گیا۔ اور جو شخص اپنی نیت کو درست رکھ کر اللہ کی خوشنودی کے لیے خرچ کرتا ہے اس کی مثال ایسی ہے جیسے اس نے ایک عمدہ زمین میں باغ لگایا، اگر بارش ہوگئی تو دوگنا پھل لایا اور اگر بارش نہ ہوئی تو محض ہلکی سی پھوار اس کے لیے کافی ہے۔‘‘
(سورہ بقرہ 264,265:2)
اِنْ تُبْدُوا الصَّدَقٰتِ فَنِعِمَّا ہِىَ۰ۚ وَاِنْ تُخْفُوْھَا وَتُؤْتُوْھَا الْفُقَرَاۗءَ فَھُوَخَيْرٌ لَّكُمْ۰ۭ
البقرہ 271:2
’’اگر صدقات علانیہ دو تو یہ بھی اچھا ہے لیکن اگر چھپا کر دو اور غریب لوگوں تک پہنچائو تو یہ زیادہ بہتر ہے۔‘‘
سرمایہ دار اگر نیک کام میں کچھ صرف بھی کرتا ہے تو بادل نخواستہ بدتر سے بدتر مال دیتا ہے اور پھر جس کو دیتا ہے اس کی آدھی جان اپنی زبان کے نشتروں سے نکال لیتا ہے۔ اسلام اس کے بالکل برعکس یہ سکھاتا ہے کہ اچھا مال خرچ کرو اور خرچ کے احسان نہ جتائو، بلکہ اس کی خواہش بھی نہ رکھو کہ کوئی تمہارے سامنے احسان مندی کا اظہار کرے۔
اَنْفِقُوْا مِنْ طَيِّبٰتِ مَا كَسَبْتُمْ وَمِمَّآ اَخْرَجْنَا لَكُمْ مِّنَ الْاَرْضِ۰۠ وَلَا تَـيَمَّمُوا الْخَبِيْثَ مِنْہُ تُنْفِقُوْنَ البقرہ 267:2
’’تم نے جو کچھ کمایا ہے اور جو کچھ ہم نے تمہارے لیے زمین سے نکالا ہے اس میں سے عمدہ اموال کو راہ خدا میں صرف کرو نہ یہ کہ بدترمال چھانٹ کر اس میں سے دینے لگو۔‘‘
لَا تُبْطِلُوْا صَدَقٰتِكُمْ بِالْمَنِّ وَالْاَذٰى۰ۙ البقرہ 264:2
’’اپنے صدقات کو احسان جتا کر اوراذیت پہنچا کر ملیامیٹ نہ کردو۔‘‘
وَيُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰي حُبِّہٖ مِسْكِيْنًا وَّيَـتِـيْمًا وَّاَسِيْرًا۸ اِنَّمَا نُـطْعِمُكُمْ لِوَجْہِ اللہِ لَا نُرِيْدُ مِنْكُمْ جَزَاۗءً وَّلَا شُكُوْرًا۹ الدھر 8,9:76
’’اور وہ اللہ کی محبت میں مسکین اور یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم تو اللہ کے لیے تم کو کھلاتے ہیں۔ ہم تم سے کسی جزا اور شکریے کے خواہش مند نہیں ہیں۔‘‘
چھوڑیئے اس سوال کو کہ اخلاقی نقطۂ نظر سے ان دنوں ذہنیتوں میں کتنا عظیم تفاوت ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ خالص معاشی نقطہ نظر ہی سے دیکھ لیجئے کہ فائدے اور نقصان کے ان دونوں نظریوں میں سے کون سا نظریہ زیادہ محکم اور دُور رس نتائج کے اعتبار سے زیادہ صحیح ہے۔ پھر جب کہ منفعت و مضرت کے باب میں اسلام کا نظریہ وہ ہے جو آپ دیکھ چکے ہیں تو کیونکر ممکن ہے کہ اسلام کسی شکل میں بھی سودی کاروبار کو جائز رکھے؟
-4زکوٰۃ
اسلام کامقصد جیسا کہ اوپر بیان ہوا یہ ہے کہ دولت کسی جگہ جمع نہ ہونے پائے۔ وہ چاہتا ہے کہ جماعت کے جن افراد کو اپنی بہتر قابلیت یا خوش قسمتی کی بنا پر ان کی ضرورت سے زیادہ دولت میسر آگئی ہو وہ اس کو سمیٹ کر نہ رکھیں بلکہ خرچ کریں اور ایسے مصارف میں خرچ کریں جن سے دولت کی گردش میں سوسائٹی کے کم نصیب افراد کو بھی کافی حصہ مل جائے۔ اس غرض کے لیے اسلام ایک طرف اپنی بلند اخلاقی تعلیم اور ترغیب و ترہیب کے نہایت موثر طریقوں سے فیاضی اور حقیقی امداد باہمی کی اسپرٹ پیدا کرتا ہے تاکہ لوگ خود اپنے میلان طبع ہی سے دولت جمع کرنے کو برا سمجھیں اور اسے خرچ کر دینے کی طرف راغب ہوں۔ دوسری طرف وہ ایسا قانون بناتا ہے کہ جولوگ فیاضی کی اس تعلیم کے باوجود اپنی افتاد طبع کی وجہ سے روپیہ جوڑنے اور مال سمیٹنے کے خوگر ہوں، یا جن کے پاس کسی نہ کسی طور پر مال جمع ہو جائے، ان کے مال میں سے بھی کم از کم ایک حصہ سوسائٹی کی فلاح و بہبود کے لیے ضرور نکلوایا جائے۔ اسی چیز کا نام زکوٰۃ ہے۔ اور اسلام کے معاشی نظام میں اس کو اتنی اہمیت دی گئی ہے کہ اس کو ارکان اسلام میں شامل کر دیا گیا ہے۔ نماز کے بعد سب سے زیادہ اسی کی تاکید کی گئی ہے اور صاف صاف کہہ دیا گیا ہے کہ جو شخص دولت جمع کرتا ہے اس کی دولت اس کے لیے حلال ہی نہیں ہوسکتی تاوقتیکہ وہ زکوٰۃ نہ ادا کرے۔
خُذْ مِنْ اَمْوَالِہِمْ صَدَقَـۃً تُطَہِّرُھُمْ وَتُزَكِّيْہِمْ بِہَا التوبہ 103:9
’’ان کے اموال میں سے زکوٰۃ وصول کرو اور اس کے ذریعے سے ان کو پاک اور طاہر کردو۔‘‘
لفظ زکوٰۃ خود اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ مالدار آدمی کے پاس جو دولت جمع ہوتی ہے وہ اسلام کی نگاہ میں ایک نجاست ہے، ایک ناپاکی ہے اور وہ پاک نہیں ہوسکتی۔ جب تک کہ اس کا مالک اس میں سے ہر سال کم از کم ڈھائی فی صدی راہ خدا میں خرچ نہ کردے۔ ’’راہ خدا‘‘ کیا ہے؟ خدا کی ذات تو بے نیاز ہے، اس کو نہ تمہارا مال پہنچتا ہے نہ وہ اس کا حاجت مند ہے۔ اس کی راہ بس یہی ہے کہ تم خود اپنی قوم کے تنگ حال لوگوں کو خوشحال بنانے کی کوشش کرو اور ایسے مفید کاموں کو ترقی دو جن کا فائدہ ساری قوم کو حاصل ہوتا ہے۔
اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَاۗءِ وَالْمَسٰكِيْنِ وَالْعٰمِلِيْنَ عَلَيْہَا وَالْمُؤَلَّفَۃِ قُلُوْبُہُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغٰرِمِيْنَ وَفِيْ سَبِيْلِ اللہِ وَابْنِ السَّبِيْلِ۰ۭ التوبہ 60:9
’’صدقات تو دراصل فقراء اور مساکین کے لیے ہیں اور ان کارکنوں کے لیے جو صدقات کی تحصیل پر مقرر ہوں اور ان لوگوں کے لیے جن کی تالیف قلب مطلوب ہو، اور لوگوں کی گردنیں بند اسیری سے چھڑانے کے لیے اور قرضداروں کے لیے اور فی سبیل اللہ خرچ کرنے کے لیے اور مسافروں کے لیے۔‘‘
یہ مسلمانوں کی کوآپریٹو سوسائٹی ہے۔ یہ ان کی انشورنس کمپنی ہے۔ یہ ان کا پراویڈنٹ فنڈ ہے۔ یہ ان کے لیے بے کاروں کا سرمایۂ اعانت ہے۔ یہ ان کے معذوروں، اپاہجوں، بیماروں، یتیموں، بیوائوں کا ذریعۂ پرورش ہے۔ اور ان سب سے بڑھ کر یہ وہ چیز ہے جو مسلمانوں کو فکر فردا سے بالکل بے نیاز کردیتی ہے۔ اس کا سیدھا سادا اصول یہ ہے کہ آج تم مالدار ہو تو دوسروں کی مدد کرو۔ کل تم نادار ہوگئے تو دوسرے تمہاری مدد کریں گے۔ تمہیں یہ فکر کرنے کی ضرورت ہی نہیں کہ مفلس ہوگئے تو کیا بنے گا؟ مر گئے تو بیوی بچوں کا کیا حشر ہوگا؟ کوئی آفت ناگہانی آپڑی، بیمار ہوگئے، گھر میں آگ لگ گئی، سیلاب آگیا، دیوالیہ نکل گیا تو ان مصیبتوں سے مخلصی کی کیا سبیل ہوگی؟ سفر میں پیسہ پاس نہ رہا تو کیونکر گزر بسر ہوگی؟ ان سب فکروں سے صرف زکوٰۃ تم کو ہمیشہ کے لیے بے فکر کردیتی ہے۔ تمہارا کام بس اتنا ہے کہ اپنی پس انداز کی ہوئی دولت میں سے اڑھائی فی صدی دے کر اللہ کی انشورنس کمپنی میں اپنا بیمہ کروا لو۔ اس وقت تم کو اس دولت کی ضرورت نہیں ہے، یہ ان کے کام آئے گی جو اس کے ضرورت مند ہیں۔ کل جب تم ضرورت مند ہوگے یا تمہاری اولاد ضرورت مند ہوگی تو نہ صرف تمہارا اپنا دیا ہوا مال بلکہ اس سے بھی زیادہ تم کو واپس مل جائے گا۔
یہاں پھر سرمایہ داری اور اسلام کے اصول و مناہج میں کلی تضاد نظر آتا ہے۔ سرمایہ داری کا اقتضاء یہ ہے کہ روپیہ جمع کیا جائے اور اس کو بڑھانے کے لیے سود لیا جائے تاکہ ان نالیوں کے ذریعے سے آس پاس کے لوگوں کا روپیہ بھی سمٹ کر اس جھیل میں جمع ہوجائے۔ اسلام اس کے بالکل خلاف یہ حکم دیتا ہے کہ روپیہ اول تو جمع ہی نہ ہو، اور اگر ہو بھی تو اس تالاب میں سے زکوٰۃ کی نہریں نکال دی جائیں تاکہ جو کھیت سوکھے ہیں ان کو پانی پہنچے اور گردوپیش کی ساری زمین شاداب ہوجائے۔ سرمایہ داری کے نظام میں دولت کا مبادلہ مقید ہے اور اسلام میں آزاد۔ سرمایہ داری کے تالاب سے پانی لینے کے لیے ناگزیر ہے کہ خاص آپ کا پانی پہلے سے وہاں موجود ہو ورنہ آپ ایک قطرۂ آب بھی وہاں سے نہیں لے سکتے۔ اس کے مقابلے میں اسلام کے خزانۂ آب کا قاعدہ یہ ہے کہ جس کے پاس ضرورت سے زیادہ پانی ہو وہ اس میں لاکر ڈال دے اور جس کو پانی کی ضرورت ہو وہ اس میں سے لے لے۔ ظاہر ہے کہ یہ دونوں طریقے اپنی اصل اور طبیعت کے لحاظ سے ایک دوسرے کی پوری پوری ضد ہیں اور ایک ہی نظم معیشت میں دونوں جمع نہیں ہوسکتے۔
-5 قانون وراثت
اپنی ضرورت پر خرچ کرنے اور راہ خدا میں دینے اور زکوٰۃ ادا کرنے کے بعد بھی جو دولت کسی ایک جگہ سمٹ کر رہ گئی ہو، اس کو پھیلانے کے لیے پھر ایک تدبیر اسلام نے اختیار کی ہے اور وہ اس کا قانون وراثت ہے۔ اس قانون کا منشا یہ ہے کہ جو شخص مال چھوڑ کر مر جائے، خواہ وہ زیادہ ہو یا کم، اس کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے نزدیک و دور کے تمام رشتہ داروں میں درجہ بدرجہ پھیلا دیا جائے اور اگر کسی کا کوئی وارث بھی نہ ہو یا نہ ملے تو بجائے اس کے کہ اسے متبنیٰ بنانے کا حق دیا جائے اس کے مال کو مسلمانوں کے بیت المال میں داخل کر دینا چاہیے تاکہ اس سے پوری قوم فائدہ اٹھائے۔ تقسیم وراثت کا یہ قانون جیسا اسلام میں پایا جاتا ہے کسی اور معاشی نظام میں نہیں پایا جاتا۔ دوسرے معاشی نظاموں کا میلان اس طرف ہے کہ جو دولت ایک شخص نے سمیٹ کر جمع کی ہے وہ اس کے بعد بھی ایک یا چند اشخاص کے پاس سمٹی رہے۔(۱) مگر اسلام دولت کے سمٹنے کو پسند ہی نہیں کرتا۔ وہ اس کو پھیلانا چاہتا ہے تاکہ دولت کی گردش میں آسانی ہو۔
-6 غنائم جنگ اور اموال مفتوحہ کی تقسیم
اس معاملے میں بھی اسلام نے وہی مقصد پیش نظر رکھا ہے۔ جنگ میں جو مال غنیمت فوجوں کے ہاتھ آئے اس کے متعلق یہ قانون بنایا گیا ہے کہ اس کے پانچ حصے کئے جائیں، چار حصے فوج میں تقسیم کردیئے جائیں اور ایک حصہ اس غرض کے لیے رکھ لیا جائے کہ عام قومی مصالح میں صرف ہو۔
وَاعْلَمُوْٓا اَنَّـمَا غَنِمْتُمْ مِّنْ شَيْءٍ فَاَنَّ لِلہِ خُمُسَہٗ وَلِلرَّسُوْلِ وَلِذِي الْقُرْبٰي وَالْيَتٰمٰي وَالْمَسٰكِيْنِ وَابْنِ السَّبِيْلِ۰ۙ الانفال 41:8
’’جان لو کہ جو کچھ تم کو غنیمت میں ہاتھ آئے اس کا پانچواں حصہ اللہ اور اس کے رسول اور رسول کے رشتہ داروں اور یتامی اور مساکین اور مسافروں کے لیے ہے۔
اللہ اور رسول کے حصے سے مراد ان اجتماعی اغراض و مصالح کا حصہ ہے جن کی نگرانی اللہ اور رسول کے تحت حکم اسلامی حکومت کے سپرد کی گئی ہے۔
رسول کے رشتہ داروں کا حصہ اس لیے رکھا گیا ہے کہ زکوٰۃ میں ان کا حصہ نہیں ہے۔
اس کے بعد خمس میں تین طبقوں کا حصہ خصوصیت کے ساتھ رکھا گیا ہے۔
قوم کے یتیم بچے تاکہ ان کی تعلیم و تربیت کا انتظام ہو اور ان کو زندگی کی جدوجہد میں حصہ لینے کے قابل بنایا جائے۔
مساکین جن میں بیوہ عورتیں، اپاہج، معذور، بیمار اور نادار سب شامل ہیں۔
ابن السبیل یعنی مسافر، اسلام نے اپنی اخلاقی تعلیم سے لوگوں میں مسافر نوازی کا میلان خاص طور پر پیدا کیا ہے اور اس کے ساتھ زکوٰۃ و صدقات اور غنائم جنگ میں بھی مسافروں کا حق رکھا ہے۔ یہ وہ چیز ہے جس نے اسلامی ممالک میں تجارت، سیاحت، تعلیم اور مطالعہ و مشاہدۂ آثار و احوال کے لیے لوگوں کی نقل و حرکت میں بڑی آسانیاں پیدا کردیں۔
جنگ کے نتیجے میں جو اراضی اور اموال اسلامی حکومت کے ہاتھ آئیں ان کے لیے یہ قانون بنایا گیا کہ ان کو بالکلیہ حکومت کے قبضے میں رکھا جائے۔
مَآ اَفَاۗءَ اللہُ عَلٰي رَسُوْلِہٖ مِنْ اَہْلِ الْقُرٰى فَلِلّٰہِ وَلِلرَّسُوْلِ وَلِذِي الْقُرْبٰى وَالْيَـتٰمٰى وَالْمَسٰكِيْنِ وَابْنِ السَّبِيْلِ۰ۙ كَيْ لَا يَكُوْنَ دُوْلَۃًۢ بَيْنَ الْاَغْنِيَاۗءِ مِنْكُمْ۰ۭ ……
…… لِلْفُقَرَاۗءِ الْمُہٰجِرِيْنَ الَّذِيْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِيَارِہِمْ ……
……. وَالَّذِيْنَ تَبَوَّؤُ الدَّارَ وَالْاِيْمَانَ مِنْ قَبْلِہِمْ ……. وَالَّذِيْنَ جَاۗءُوْ مِنْۢ بَعْدِہِمْ الحشر 7-10:59
’’جو کچھ مال و جائیداد اللہ نے اپنے رسولؐ کو بستیوں کے باشندوں سے فے میں دلوایا ہے وہ اللہ اور اس کے رسولؐ اور رسولؐ کے رشتہ داروں اور یتامیٰ اور مساکین اور مسافروں کے لیے ہے تاکہ یہ مال صرف تمہارے دولت مندوں ہی کے درمیان چکر نہ لگاتا رہے اور اس میں ان نادار مہاجرین کا بھی حصہ ہے جو اپنے گھر بار اور جائیدادوں سے بے دخل کرکے نکال دیئے گئے ہیں اور ان لوگوں کا بھی حصہ ہے جو مہاجرین کی آمد سے پہلے مدینہ میں ایمان لے آئے تھے اور ان آئندہ نسلوں کا بھی حصہ ہے جو بعد میں آنے والی ہیں۔‘‘
اس آیت میں نہ صرف ان مصارف کی توضیح کی گئی ہے جن میں اموال فے کو صرف کیا جائے گا بلکہ صاف طور پر اس مقصد کی طرف بھی اشارہ کردیا گیا ہے جس کو اسلام نے نہ صرف اموال فے کی تقسیم میں، بلکہ اپنے پورے معاشی نظام میں پیش نظر رکھا ہے یعنی کی کَی لَای کون دولۃً بین الاغنیائ منکم (مال تمہارے مالداروں ہی میں چکر نہ لگاتا رہے) یہ مضمون جس کو قرآن مجید نے ایک چھوٹے سے جامع فقرے میں بیان کردیا ہے، اسلامی معاشیات کا سنگ بنیاد ہے۔
-7 اقتصاد کا حکم
ایک طرف اسلام نے دولت کو تمام افراد قوم میں گردش دینے اور مالداروں کے مال میں ناداروں کا حصہ دار بنانے کا انتظام کیا ہے، جیسا کہ آپ اوپر دیکھ چکے ہیں۔ دوسری طرف وہ ہر شخص کو اپنے خرچ میں اقتصاد اور کفایت شعاری ملحوظ رکھنے کا حکم دیتا ہے تاکہ افراد اپنے معاشی وسائل سے کام لینے میں افراط یا تفریط کی روش اختیار کرکے تقسیم ثروت کے توازن کو نہ بگاڑ دیں۔ قرآن مجید کی جامع تعلیم اس باب میں یہ ہے کہ:
وَلَا تَجْعَلْ يَدَكَ مَغْلُوْلَۃً اِلٰى عُنُقِكَ وَلَا تَبْسُطْہَا كُلَّ الْبَسْطِ فَتَـقْعُدَ مَلُوْمًا مَّحْسُوْرًا۲۹ بنی اسرائیل 29:17
’’نہ اپنے ہاتھ کو اپنی گردن سے باندھے رکھ (کہ کھلے ہی نہیں) اور نہ اس کو بالکل ہی کھول دے کہ بعد میں حسرت زندہ بن کر بیٹھا رہے۔‘‘
وَالَّذِيْنَ اِذَآ اَنْفَقُوْا لَمْ يُسْرِفُوْا وَلَمْ يَـقْتُرُوْا وَكَانَ بَيْنَ ذٰلِكَ قَوَامًا۶۷
الفرقان 67:25
’’اللہ کے نیک بندے وہ ہیں کہ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ اسراف کرتے ہیں اور نہ بخل برتتے ہیں بلکہ ان دونوں کے درمیان معتدل رہتے ہیں۔‘‘
اس تعلیم کا منشاء یہ ہے کہ ہر شخص جو کچھ خرچ کرے اپنے معاشی وسائل کی حد میں رہ کر خرچ کرے۔ نہ اس قدر حد سے تجاوز کر جائے کہ اس کا خرچ اس کی آمدنی سے بڑھ جائے۔ یہاں تک کہ وہ اپنی فضول خرچیوں کے لیے ایک ایک کے آگے ہاتھ پھیلاتا پھرے۔ دوسروں کی کمائی پر ڈاکے مارے۔ حقیقی ضرورت کے بغیر لوگوں سے قرض لے اور پھر یا تو ان کے قرض مار کھائے یا قرضوں کا بھگتان بھگتنے میں اپنے تمام معاشی وسائل کو صرف کرکے اپنے آپ کو خود اپنے کئے کرتوتوں سے فقراء و مساکین کے زمرہ میں شامل کردے، نہ ایسا بخیل بن جائے کہ اس کے معاشی و مسائل جس قدر خرچ کرنے کی اس کو اجازت دیتے ہوں، اتنا بھی نہ خرچ کرے۔ پھر اپنی حد کے اندر رہ کر خرچ کرنے کے بھی یہ معنی نہیں ہیں کہ اگر وہ اچھی آمدنی رکھتا ہے تو اپنی ساری کمائی صرف اپنے عیش و آرام اور تزک و احتشام پر صرف کردے، درآں حالیکہ اس کے عزیز، غریب دوست، ہمسائے مصیبت کی زندگی بسر کررہے ہوں۔ اس قسم کے خود غرضانہ خرچ کو بھی اسلام فضول خرچی ہی شمار کرتا ہے:
وَاٰتِ ذَا الْقُرْبٰى حَقَّہٗ وَالْمِسْكِيْنَ وَابْنَ السَّبِيْلِ وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِيْرًا۲۶ اِنَّ الْمُبَذِّرِيْنَ كَانُوْٓا اِخْوَانَ الشَّيٰطِيْنِ۰ۭ وَكَانَ الشَّيْطٰنُ لِرَبِّہٖ كَفُوْرًا۲۷
بنی اسرائیل 27:17-26
’’اور اپنے رشتہ داروں کو اس کا حق دے اور مسکین اور مسافر کو۔ فضول خرچی نہ کر، فضول خرچ شیطانوں کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے رب کا ناشکرا ہے۔
اسلام نے اس باب میں صرف اخلاقی تعلیم ہی دینے پر اکتفانہیں کیا ہے بلکہ اس نے بخل اور فضول خرچی کی انتہائی صورتوں کو روکنے کے لیے قوانین بھی بنائے ہیں۔ اور ایسے تمام طریقوں کا سدباب کرنے کی کوشش کی ہے جو تقسیم ثروت کے توازن کو بگاڑنے والے ہیں۔ وہ جُوئے کو حرام قرار دیتا ہے۔ شراب اور زنا سے روکتا ہے۔ لہوولعب کی بہت سی مسرفانہ عادتوں کو جن کا لازمی نتیجہ ضیاع وقت اور ضیاع مال ہے ممنوع قرار دیتا ہے۔ موسیقی کے فطری ذوق کو اس حد تک پہنچنے سے باز رکھتا ہے جہاں انسان کا انہماک دوسری اخلاقی و روحانی خرابیاں پیدا کرنے کے ساتھ معاشی زندگی میں بھی بدنظمی پیدا کرنے کا موجب ہوسکتا ہے اور فی الواقع ہوجاتا ہے۔ جمالیات کے طبعی رجحان کو بھی وہ حدود کا پابند بناتا ہے۔ قیمتی ملبوسات، زر و جواہر کے زیورات، سونے چاندی کے ظروف اور تصاویر اور مجسموں کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے جو احکام مروی ہیں ان سب میں دوسری مصالح کے ساتھ ایک بڑی مصلحت یہ بھی پیش نظر ہے کہ جو دولت تمہارے بہت سے غریب بھائیوں کی ناگزیر ضرورتیں پوری کرسکتی ہے ان کو زندگی کے مایحتاج فراہم کرکے دے سکتی ہے، اسے محض اپنے جسم اور اپنے گھر کی تزئین اور آرائش پر صرف کردینا جمالیت نہیں، شقاوت اور بدترین خود غرضی ہے۔ غرض اخلاقی تعلیم اور قانونی احکام دونوں طریقوں سے اسلام نے انسان کو جس قسم کی زندگی بسر کرنے کی ہدایت کی ہے وہ ایسی سادہ زندگی ہے کہ اس میں انسان کی ضرورت اور خواہشات کا دائرہ اتنا وسیع ہی نہیں ہوسکتا کہ وہ ایک اوسط درجے کی آمدنی میں گزربسر نہ کرسکتا ہو، اور اسے اپنے دائرہ سے پائوں نکال کر دوسروں کی کمائیوں میں حصہ لڑانے کی ضرورت پیش آئے۔ یا اگر وہ اوسط سے زیادہ آمدنی رکھتا ہو تو اپنا تمام مال خود اپنی ذات پر خرچ کردے اور اپنی ان بھائیوں کی مدد نہ کرسکے جو اوسط سے کم آمدنی رکھتے ہوں۔