یہ ہیں وہ اصول اور حدود جو اسلام نے ہماری معاشی زندگی کے لیے مقرر کر دیئے ہیں۔ ان حدود کے اندر آپ اپنا جو معاشی نظام بھی بنانا چاہیں بنالیں۔ تفصیلات طے کرنا ہر زمانے میں اپنی ضرورت کے مطابق ہمارا اپنا کام ہے ۔ ہمیں جس چیز کی پابندی کرنی ہوگی وہ یہ ہے کہ ہم نہ تو نظامِ سرمایہ داری کی طرح بے قید معیشت کی راہ اختیار کرسکتے ہیں اور نہ اشتراکیت کی طرح پورے وسائلِ معیشت کو اجتماعی کنٹرول میں لے سکتے ہیں ۔ ہمیں ایک پابندِ حدود آزاد معیشت کا نظام بنانا ہوگا جس میں انسان کے اخلاقی ارتقاء کا راستہ کھلا رہے۔ جس میں آدمی کو اجتماعی فلاح کی خدمت کے لیے ازروئے قانون مجبور کرنے کی کم سے کم ضرورت پیش آئے۔ جس میں غلط طریقوں سے غیر فطری طبقات نہ پیدا کیے جائیں اور فطری طبقات کے درمیان نزاع کے بجائے تعاون پیدا کیا جائے۔ اس معاشی نظام میں دولت کمانے کے وہ تمام ذرائع حرام رہیں گے جن کو اسلام نے حرام قرار دیا ہے۔ کمائی کے وہ تمام ذرائع جائز رہیں گے جنھیں اسلام جائز رکھتا ہے ۔ جائز طریقوں سے حاصل کی ہوئی دولت پر ملکیت اور تصرف کے وہ تمام حقوق تسلیم کیے جائیں گے جو اسلام نے دیے ہیں۔ زکوٰۃ لازماً عائد کی جائے گی اور ان تمام لوگوں کو اسے ادا کرنا ہوگا جو بقدر نصاب دولت رکھتے ہوں۔ میراث قانونِ میراث کے مطابق تقسیم ہوگی اور ان حدود کے اندر افراد کو معاشی سعی و عمل کی پوری آزادی دی جائے گی۔ کوئی ایسا نظام نہیں بنایا جائے گا جو افراد کو کس کر رکھ دے اور ان کی انفرادی آزادی کو ختم کر دے۔ اس آزادانہ سعی و عمل میں اگر لوگ خود انصاف اور راست بازی پر قائم رہیں تو قانون خواہ مخواہ مداخلت نہ کرے گا۔ لیکن اگر وہ انصاف نہ کریں، یا جائز حدود سے تجاوز کرنے لگیں، یا بے جا نوعیت کی اجارہ داریاں قائم کرنے کی کوشش کریں تو قانون ان کی بنیادی آزادی کو سلب کرنے کے لیے نہیں بلکہ انہیں انصاف پر قائم رکھنے اور حدود سے تجاوز کو روکنے کے لیے یقیناً مداخلت کرے گا۔